گزشتہ برس 8 مارچ کو پاکستان کی خواتین نے ’انٹرنیشنل ویمن ڈے‘ پر عورت مارچ منعقد کرکے تاریخ رقم کی۔ اس دن پاکستان بھر میں خواتین نے گھروں اور دفاتر سے نکل کر سڑکوں اور گلیوں کا رخ کیا اور اپنے لیے مساوی حقوق کا مطالبہ کیا۔
عورت مارچ نے ’بہن چارہ‘ اور ’یکجہتی‘ کے نعرے کے ساتھ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنی والی خواتین کو ایک بینر تلے جمع کیا اور کراچی، لاہور اور اسلام آباد کی سڑکوں پر منظم اور پر امن طریقے اپنی نسوانیت کا جشن منایا جو یقینا تاریخ کا سنہری لمحہ ہے۔
اس سال دوبارہ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین بڑی تندہی کے ساتھ عورت مارچ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ مہینوں پر محیط یہ محنت 8 مارچ کو ’عورت مارچ‘ کی صورت میں سامنے آئے گی اور یقینا رواں سال کا عورت مارچ پچھلے برس کے مقابلے میں بہت بڑا ہوگا۔
لاہور میں عورت مارچ پریس کلب سے شروع ہوکر الحمرا پر ختم ہوگا اور اس دوران لاہور کی گلیاں ان آوازوں سے گونچ اٹھیں گی جنہیں عام دنوں میں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عورت مارچ اپنی ذات میں ایک تحریک نہیں بلکہ دنیا بھر میں جاری خواتین کی مشرکہ جدوجہد کا ایک پرزہ ہے۔
رواں سال کا عورت مارچ اس پہلو سے بھی شاندار ہوگا کہ اس کا ایجنڈا اور منشور انتھک محنت کے بعد تیار کیا گیا ہے۔ اس منشور کے مطابق لفظ ’عورت‘ کا مقصد خواجہ سراؤں اور ایسے افراد کو باہر نکالنا نہیں جن کی جنس کا تعین نہ ہوا ہو۔ مارچ میں خواجہ سرا، کوئیر کمیونٹی، مذہبی اقلیتیں اور معاشی طور پر کمزور طبقہ کو بھی شامل کیا جائے گا۔ گزشتہ برس کے عورت مارچ کے ایجنڈے میں لکھا تھا کہ ’ عورت کی آزادی استحصال کا شکار طبقے کی آزادی سے جڑی ہے‘۔
اس مارچ کے مطالبات میں خواتین پر تشدد کا خاتمہ، مزدوروں کے حقوق، سماجی انصاف، جنسی تشدد کے خلاف قوانین، مساوی معاوضہ، سیاسی نمائندگی اور مواقع، یکساں تعلیمی سہولیات اور خواجہ سراؤں کے لیے یکساں حقوق شامل ہیں جبکہ تخریبی پالیسیوں، جارحیت، پولیس کے مظالم، مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے قوانین اور غیرت کے نام پر قتل و کم عمری کی شادیوں کے خلاف قانون سازی بھی مطالبات کا حصہ ہیں۔
مارچ کا اہتمام کرنے والی محنتی خواتین کا ایک گروہ پوری تندہی کے ساتھ اس کی کامیابی کے لیے کوشاں ہے۔ چونکہ یہ مارچ سرمایہ دارانہ نظام کا مخالف ہے، اس لیے اس کے منشور میں واضح لکھا ہے کہ کسی بھی غیر سرکاری تنظیم اور کارپوریٹ ادارے سے فنڈنگ لی جائے گی اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے ساتھ الائنس کیا جائے گا۔
مارچ کا مقصد شرکاء کے دل میں مقتدر قوتوں کے خلاف نفرت پیدا کرنا یا ان کو پرتشدد جدوجہد پر ابھارنا ہر گز نہیں بلکہ ان تمام افراد کو ایک ایسے پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے جو معاشرے کے نچلے طبقے کے لیے شخصی، تعلیمی، معاشی، پیشہ ورانہ اور صنفی آزادی چاہتے ہیں۔ جب سے می ٹو مہم نے زور پکڑا ہے، خواتین نے روایتی زنانہ و مردانہ تصورات اور جبر کا نظام ٹھکرا دیا ہے۔
عورت مارچ میں ہر اس فرد کا خیرمقدم کیا جائے گا جو جبر کے خلاف آواز اٹھانا چاہتے ہیں چاہے وہ خواتین ہوں یا مرد۔ فنکاروں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ آئیں اور مارچ میں اسٹیس کو کیخلاف اپنے فن کا مطاہرہ کریں۔ لاہور میں عورت مارچ 8 مارچ کو دو پہر 3 بجے پریس کلب سے شروع ہوگا۔