شب و روز زندگی (قسط پنجم )
تحریر : انجم صحرائی
ریسٹورنٹ میں کام ملنے کے بعد میرے خاصے مسائل حل ہو گئے تھے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی عوام کے مسائل کا ٹھیک تجزیہ کیا تھا روٹی کپڑا اور مکان ، ہما رے ہاں اگرایک عام آ دمی کو یہ بنیا دی ضرورتیں ملتی رہیں تو اسے قدرے خو شحالی کا احساس رہتا ہے وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتا جس سماج میں لوگ سطح غربت سے بھی کم سطح پر زند گی گذار رہے ہوں وہاں روٹی کپڑا اور مکان سے مزین زند گی ایک خواب ہی تو ہے اور میرے یہ خواب پو رے ہو رہے تھے مجھے تین وقت کھا نا بھی مل رہا تھا سو نے کو چھت میسر تھی اور پہننے کے کپڑوں کے لئے لنڈا بازار میری ضرورتیں پو ری کر رہا تھا ایسے میں مجھے خو شحالی کا مزہ تو آنا تھا ۔ ایک ہفتہ کے بعد اچا نک مجھے آرام باغ مسجد میں ملنے والا مجھے اپنا پہلا ملا قاتی یاد آ یا دل میں خوا ہش پیدا ہو ئی کہ اسے ملنا چا ہیئے ۔ آ نے والے جمعہ کی نماز میں نے آرام باغ مسجد میں ادا کی وہ مجھے نظر نہیں آ یا میں اسے نماز کے بعد کا فی دیر بعد تک اسے ڈحونڈتا رہا مگر جب مجھے نظر نہ آ یا تو میں مسجد سے نکل آیا اور ریسٹورنٹ کی طرف چل دیا جو نہی میں چوک کے قریب پہچا وہ مجھے نظر آ گیا وہ آ ہستہ آ ہستہ شا ئد مسجد کی طرف ہی جا رہا تھا میں اسے زور سے اوئے کہہ کر آواز دی تو اس نے مجھے دیکھا اور رک گیا میں اس کے پا س گیا اور ہا تھ ملا یا اس نے مجھے پہچان لیا تھا پو چھا کام وام مل گیا ہے کیا میں نے کہا ہاں کام مل گیا ہے میں نے اسے بتا یا کہ آج میں اس سے ملنے مسجد گیا تھا یہ سن کر وہ ہلکا مسکرایا میں نے اسے بتا یا کہ مجھے گلزار ریسٹورنٹ پر کام ملا ہے میں نے اسے دعوت دی کہ وہ آج میرے ساتھ دو پہر کا کھانا کھا ئے یہ سن کر میرے سا تھ ہو لیا چند قدم چلنے کے بعد بولا تم ہمیں کدھر کھانا کھلا ئے گا ۔ میں نے چوک کے سا تھ والے ریسٹورنٹ پر یہ سن کر وہ رک گیا اور بولا اوئے اتی دور نہیں ۔ پھر کبھی چلے گا اور یہ کہتا ہوا مڑا اور تیز تیز قد موں سے چلتا ہوا مجھ سے دور ہو تا گیا۔
کرا چی قیام کے دوران آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع قو می اخبارات کے سبھی دفاتر ، کراچی پریس کلب اور دیگر مقامات دیکھنے اور جا نے کا اتفاق بھی ہوا ۔ اس زما نے میں روز نامہ امن کرا چی کا ایک مو قر شام کا اخبار تھے ۔ افضل صدیقی روز نا مہ امن کے ایڈ یٹر تھے میں کئی بار امن کے دفتر گیا کچھ مراسلے بھی ایڈ یٹر کی ڈاک میں شا مل اشا عت ہو ئے مگر میں کبھی بھی صدیقی صاحب سے نہ مل سکا ۔ مجھے یاد ہے کہ کام لگنے کے دو ماہ بعدمیں نے پہلا منی آرڈر ایک سو پچاس روپے کا اماں کو بھجوایا تھا اس زما نے میں ڈیڑھ سو رو پے بڑی رقم ہوا کرتی تھی تقریبا سات آٹھ ماہ بعد مجھے اماں کی بیماری کا خط ملا تو میں نے واپسی کا پروگرام بنا یا سبھی اداس تھے مگر استاد باد شاہ سب سے زیادہ اداس تھا وہ مجھے چھوڑنے سٹیشن پر آیا جب واپس جا نے لگا تب اس نے اپنے کر تے کے نیچے پہنی بنیان کی جیب میں ہا تھ ڈالا اور دو سو روپے نکال کر میری طرف بڑھا تے ہو ئے بو لا کہ یہ میری طرف سے اماں کو دے دینا ۔ میں نے لینے سے سرہلاتے ہو ئے انکار کیا تو رند ھی آواز میں بو لا یار میری اماں تو کھو گئی تھیں بھارت سے پا کستان آ تے ہو ئے اب اس دیس میں بسنے والی سبھی ما ئیں میری ہی ہیں نا اسی لئے تو میں یہ پیسے تجھے تھوڑا دے رہا ہوں اپنی اماں کو بجھوا رہا ہوں لے جا اماں کو دے دینا اس کی بات سن کر کچھ کہے بغیر میں نے وہ روپے اس کے ہا تھ سے لے کر جیب میں ڈال لئے ۔ وہ مجھے ٹرین میں بٹھا کر چلا گیا زندگی کی پون صدی گذرنے کو ہے مگر مجھے دوبارہ کو ئی دو سرا استاد باد شاہ نہیں ملا۔
کراچی سے واپسی کے بعد اماں چند ہی ہفتے زندہ رہیں اور اللہ کو پیاری ہو گئیں ( میں نے اماں بارے ایک کالم “ماں ولی کے “عنوان سے تحریر کیا جو صبح پا کستان میں بالا قساط چھپا تھا )اماں کے مرنے کے بعد میں بہت تنہا ہو گیا تھا سمجھ نہیں آ تا تھا کہ زند گی کہاں سے شروع کروں کئی مہینے خالی خالی گذر گئے ۔ پھر ایک دن میں نے مہر عبد اللہ لو ہا نچ جو لیہ تحصیل کے امیر تھے ملا قات کی اور ان سے کسی ملاز مت دلا نے کی در خواست کی وہ مجھے لے کر تھل گڈز پر آ گئے اور ملک امیر دھول جو ان دنوں لیہ شو گر ملز میں ملازم تھے اور تھل گڈز لیہ کے مالک تھے ان سے ملے اور انہیں مجھے کو ئی کام دینے کے لئے کہا ۔ ملک صاحب ان دنوں جما عت اسلا می کے رفقاء میں شمار ہو تے تھے کہنے لگے کہ ابھی کو ئی اور ملاز مت تو نہیں ہے ہاں اڈے پر کمرے بن رہے ہیں اگر یہ مزدوری کر سکتا ہے تو کل سے آ جا ئے میں نے کہا کہ ٹھیک میں کل سے مز دوری پر آ جا ئوں گا ۔ صبح میں مزدوری پر پہچ گیا زیر تعمیر کمروں کی چھت کی لپا ئی ہو رہی تھی مستری نے کہا کہ تم تغاری میں گارا اوپر پہنچا ئو میں نے کہا ٹھیک ۔ اب ایک مزدور مجھے تغاری میں گا را ڈال دیتا اور میں تغاری سر پر رکھ کر لکڑی کی سیڑھی پر چڑ ھتے ہو ئے وہ گا رے سے بھری تغاری چھت تک لے جاتا۔ میں نے صبح سے کام شروع کیا اور کئی گھنٹے یہ کام کرتا رہا لیکن ہوا لوں کہ میں تغاری لے کر اوپر چڑھا تو نہ معلوم کیسے سیڑھی عدم توازن کا شکار ہو ئی جس سے میں نیچے اس طرح گرا کہ میرے نیچے بھی گا را تھا اور اوپر بھی گارے سے بھری تغاری اور اس کے اوپر لکڑی کی سیڑھی۔
میری تو جو حالت تھی وہ تھی سب سے زیادہ مضحکہ خیز حالت مستری کی تھی جو منڈیر پر بیٹھا مجھے گا لیاں نکال رہا تھا مجھے نیچے کام کر نے والے مزدوروں نے ا ٹھایا میرے کپڑے ہا تھ پا ئوں چہرہ سبھی گا رے سے لت پت ہو چکا تھا ۔ شکر ہے کہ میں نیچے بنے گارے میں گرا تھا اس لئے کو ئی زیادہ چوٹ نہیں آ ئی تھی مزدوں نے مجھے سیڑھی کے نیچے سے نکا لا میں اٹھا اور اڈے پر لگے پا نی کے نلکے پر چلا گیا سب کچھ دھو دھلا کے جب واپس پہچا تو کام شروع ہو چکا تھا میں نے مستری سے پو چھا استاد میں کیا کروں اس نے اوپر بیٹھے بیٹھے ہا تھ جو ڑے اور” تیکوں کو ئی بیا نہیں لبھدا پھندے چڑھاون واسطے ” اس کی یہ بات سن کر میں ایک طرف بیٹھ گیا شام کو چھٹی کے وقت جب ملک صاحب آ ئے تو قیصرانی جو اس زما نے میں تھل گڈز کا ایڈی کا نگ تھا نے سارا واقعہ ملک کو سنا یا اور مستری نے بھی کہا کہ آج اللہ نے بچایاہے اس لڑکے نے تو پھنسا دیا تھا ۔ ان کی با تیں سن کر یوں لگ رہا تھا جیسے میں نے خود چھت سے چھلانگ لگا کر گر نے اور ان سب کے ذمے لگنے کی شازش کی ہو ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے پمپ پر بھیج دیا گیا تھا ، چوک اعظم روڈ پو واقع یہ انڈس پٹرول پمپ ملک امیر دھول اور ان کے چند دوستوں کی ملکیت تھا مگر اس پٹرول پمپ کی ایڈ منسٹریشن ملک صاحب کے پاس تھی اس وقت اس پٹرول پمپ پر افضل لغاری ، اقبال کھو کھر اور فضل حسین میرے سینئر تھے جن کہ تھل گڈز کے کر تا دھرتا متعلقین میںمیں منشی ا فضل ، یو سف منشی اور نذر ہا نس خا صے متحرک لوگ تھے جو مجھے یاد ہیں ۔ اس دور کے ان سبھی دو ستوں سے آج بھی کبھی کبھی سر راہ ملا قات ہو ہی جا تی ہے ۔ ملک امیر دھول ایک سیلف میڈ شخصیت تھے ایک بار انوں نے خود مجھے بتایا کہ میرے بزرگ اونٹ پا لتے تھے اور یہ اونٹ ہی ان کا ذریعہ روزگار تھے ۔ وہ شائد اپنی فیملی میں پہلے شخص تھے جنہوں نے تعلیم حا صل کی وہ بتا تے تھے کہ وہ سکول جانے کے لئے پیدل میلوں کا سفر کرتے تھے تعلیم مکمل کر نے کے بعد انہیں لیہ شو گر مل میں ملا ز مت مل گئی اور سا تھ ہی انہوں نے تھل گڈز کی بنیاد ڈالی۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی ذکر ہو رہا تھا انڈس پٹرول پمپ کی ملازمت کا۔ پٹرول پمپ کی ملاز مت پر سیلز مین کی ملاز مت میرے مزاج کے عین مطا بق تھی لو گوں سے ملنے ملا نے کے مواقع ملتے تھے اور سا تھ ہی پمپ پر آ نے والے اخبارات پڑھنے کی سہو لت بھی مو جود تھی میں نے اسلم موڑ پر قا ضی اکرم کی دکا نوں میں سے ایک دکان رہا ئش کے لئے لے لی ْ اسلم موڑ پر ہی سینئر صحا فی قا ضی امیر عالم کا دفتر ہوا کرتا تھا گا ہے بگا ہے جب وقت ملتا میں بھی حا ضری دیتا اور وہاں لیہ کے تقریبا سبھی صحا فیوں سے ملا قات ہو جا تی ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے مر حوم گلزار محبوب سے میری پہلی ملا قات قا ضی امیر عالم کے اسی دفتر میں ہی ہو ئی تھی اسی زمانے میں ملتان سے نوائے وقت نے اپنی اشا عت کا آ غاز کیا تو نو آ موز لکھا ریوں کو اپنی صلا حیتیں نکھا رنے کا ایک اچھا پلیٹ فارم مل گیا میں نے اپنے مضا مین نوائے وقت بھیجنا شروع کر دیئے ۔ادارہ نوائے وقت کی طرف سے میری بھر پور حو صلہ افزائی ہو ئی میری تحریروں کو جگہ ملی تو مجھے لکھنے میں زیا دہ مزہ آ نے لگا ۔مسلسل محنت سے انہوں نے نہ صرف کا روبار حلقوں میں اپنا مقام بنایا بلکہ بلد یاتی سیاست میں بھی خاصے متحرک رہے۔ ایک بار صوبا ئی اسمبلی کے امیدوار بھی بنے بلدیہ لیہ کے وائس چئیرمین بھی منتخب ہو ئے اس زما نے میں ملک شفیع ایڈووکیٹ بلدیہ کے چیئرمین تھے ۔ ان کے ملک بھر میں نمایاں بیوروکریٹ اور فوجی و سول افسران سے خاصے قریبی تعلقات تھے مجھے جزل امیر حمزہ سے تھل گڈز کے آفس میں ہی ملنے کا اتفاق ہوا تھا ، اس زما نے میں سارے ہی اڈے اندرون شہر ہوا کرتے تھے ان میں لیہ تھل گڈز کے علا وہ بلوچ ٹرانسپورٹ ، جی ٹی ایس ، نیو خان اور صفدر نذیر کے اڈے شا مل تھے بڑے عر صے بعد جب مو تی شیخ نے ہا رون بس سروس کا آغاز کیا تب ماڈل گرلز سکول کے ساتھ سے بھی بسیں چلا کرتی تھیں اس وقت کی ٹرانسپورٹ میں اسلم بس سروس ایک معتبر نام تھا ۔بندیال بس سروس کی ایک بس بھی سر گو دھا یا میا نوالی سے آ یا کرتی تھی جس کا سٹاپ چو بارہ روڈ پر بنے ایک چھپر ہوٹل کے ساتھ ہوتا تھا ، بلوچ ٹرانسپورٹ کے سردار سحمد نواز خان ان دنوں بلوچ ٹر انسپورٹ کے اڈے پر بنے ایک کچے کمرے کو بطور دفتر استعمال کیا کرتے تھے ۔ سردار احمد نواز خان کھتران نے تو نسہ سے آ کر لیہ میں بلوچ ٹرانسپورٹ کا اڈہ قا ئم کیا ایک دفعہ مجھے ان سے ان کی جد جہد بارے جاننے کا مو قع ملا تو انہوں نے بتایا کہ راکٹ بس سے بلوچ کمپنی کا آغاز ایک راکٹ بس ہوا بلوچ کمپنی کو آ گے بڑھانے میں سا بق صدر سردار فاروق خان لغاری کے والد سردار جمال خان لغاری نے ان کی بڑی مدد کی ۔ سردار احمد نواز خان نے لیہ کی سیا ست میں بھی بھر پور حصہ لیا ۔ با بائے جمہو ریت نواب نصر اللہ خان کی جماعت جمہوری پارٹی کی طرف سے بھی انہوں نے انتخاب میں حصہ لیا مجھے یاد ہے اس وقت ان کا انتخا بی نشان ٹو پی تھا ۔ ایک بار انہوں نے جمیعت العلماء اسلام کے نشان کتاب پر بھی انتخا ب لڑا ۔ سردار احمد نواز خان کھتران بلدیہ لیہ کے وائس چئیر مین بھی رہے بلد یا تی سیاست میں ناز سینما کے ما لک منور احمد ان کے ہمیشہ سیا سی حریف رہے سردار احمد نواز خان گذ شتہ دنوں انتقال کر گئے مجھے بھی ان کے جنازے میں شریک ہو نے کا مو قع ملا ، نمازہ جنازہ کے بعد میں نے مرحوم کے چھوٹے بیٹے افتخار با بر سے تعزیت کر تے ہو ئے کہا کہ بے شک آج وضعداری اور محنت کا ایک باب ختم ہو گیا ہے۔
انہی دنوں ویرا سٹیدیم میں ایک مشا عرہ ہوا ڈاکٹر خیال امروہی ایران سے پی ایچ ڈی کر کے لوٹے تھے اور انہوں نے لیہ میں خیال اکیڈ یمی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا اور یہ ادبی تقریب غالبا خیال اکیڈیمی کی تا سیسی تقریب تھی ۔ اس تقریب میں لا ہور اور دیگر علا قوں سے آ ئے ہو ئے شاعر و دانشور بھی شریک تھے اس وقت ڈاکٹر خیال چھریرے بدن کے نو جوان تھے انہوں نے اس ادبی تقریب میںاپنا وہ مقالہ جس پر انہوں نے ایران سے ڈاکٹریٹ کی ڈ گری حا صل کی تھی بھی پڑھا ۔مقالہ کا عنوان تھا “عقا ئد مزدک فرسٹ سو سلشٹ آ ف ایران ” میں اس ادبی تقریب میں پہلی دفعہ ڈاکٹر خیال سے متعارف ہوا ڈاکٹر خیال امرو ہی سو سلشٹ نظریات پر یقین رکھنے والے با ئیں باز کے جدید ترقی پسند بہت بڑے شا عر اور دانشور تھے ان کا اصل نام سید مہدی علی نقوی تھا وہ بھارت کے شہر امرو ہہ میں 10 دسمبر1930 کو پیدا ہو ئے آپ کے والد اپنے وقت کے معروف قا نون دان تھے 1940 میں حیدر آباد دکن سے ایم اے اردو کیا 1949 میں تہران یو نیورسٹی سے ایم اے فارسی اور زبان و ادبیات فارسی میں پی ایچ ڈی کی آپ نے “عقا ئد مزدک فرسٹ سو سلشٹ آ ف ایران ” پر ڈاکٹریٹ کیا آپ اپنے مو ضوع پر تعلیم و تحقیق کے سلسلہ میں1969 سے 1975 تک ایران میں مقیم رہے ۔ پی ایچ ڈی کر نے کے بعد انہوں نے لیہ میں رہنے کو ہی تر جیح دی ایک عر صہ تک بے روزگار رہے 1964 میں محکمہ تعلیم سے منسلک ہو ئے اور گو رٹمنٹ کالج لیہ میں فارسی اور اردو کے استاد بھی رہے ، ڈاکٹر خیال کے مضامین اور کلام پر مشتمل 25 سے زائد کتب ان کی زند گی میں ہی شا ئع ہو ئیں علم و دانش اور فکر و آ گہی کی شمعیں تو ڈاکٹر خیال نے روشن کی ہیں مگرآپ ایک سیا سی اور سما جی کارکن بھی تھے میرے نز دیک ان کا سب سے بڑا کا ر نا مہ بھٹو دور میں پا نچ مرلہ سکیم کی منظوری اور اس کے لئے زمین کا حصول تھا ، بلا شبہ اس بد ترین فیو ڈل وسیب میں غریبوں کی بستی بسا نا ایک بڑا اور کڑا امتحان تھا مگر ڈاکٹر خیال اور ان کے سا تھی مظفر گھڑی ساز نے لیہ تھل کے بے چھت لو گوں کے حقو ق کے لئے بھر پور جدو جہد کی اور یہ سکیم نہ صرف منظور کرائی بلکہ ان دونوں دو ستوں نے اپنی زند گی میں ہی اس آ بادی کو آباد ہو تے دیکھا ۔ ڈاکٹر خیال امرو ہوی نے 14 مئی 2009 میں وفات پا ئی ۔ ڈاکٹر خیال امروہوی نے تھل کے اجاڑ دھرتی میں علم دانش اور فکرو آ گہی کے چراغ روشن کر نے میں کمال جدو جہد کی انہوں نے اس جا گیردارانہ سماج میں پہلی دفعہ انقلاب ،انقلابی اور انقلا بی جدوجہد جیسے الفاظ سے نسل نو کو روشناش کیا ڈاکٹر خیال امروہوی ساری زندگی شو شلسٹ نظریات پر عمل پیرا رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شو شلسزم اور ماکسزم انسا نی سماج میں مو جود طبقاتی نا منصفانہ نا ہمواریوں اور نامنصفا نہ رویوں کے خلاف ایک منظم جدو جہد ہے میرے کئے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ مر جان ہو ٹل میں منعقد ہو نے والی روزنا مہ صبح پاکستان لیہ کی پہلی سالا نہ تقریب میں ڈاکٹر خیال امرو ہوی نے مجھ طفل مکتب پر بھی ایک تحریر پڑھی جو ان دنوں اخبارات میں شا ئع بھی ہو ئی اس تقریب کی صدارت ڈائرکٹر تعلقات عامہ سید ظہر الحسن نے کی تھی جو خصو صی طور پر اس تقریب میں شر کت کے لئے ملتان سے لیہ آ ئے تھے اسی تقریب میں ڈاکٹر خیال امروہوی کے علاوہ غافل کر نا لی ،ڈاکٹر ظفر عالم ظفری ، پر فیسر شفقت بزدار اور پرو فیسر غلام اکبر قیصرانی نے بھی صبح پا کستان اور مجھ نا چیز بارے اپنے مقا لات پیش کئے تھے غالبا یہ سال 19988 کی بات ہے۔ تقریب رات گئے تک جا ری رہی شر کا ئے تقریب کی حا ضری بہت زیادہ تھی ہم نے صرف سادہ سی ریفرشمنٹ کا انتظام کیا تھا ہمارے اس حسن سلوک کو دیکھ کر ڈی سی آ فس سے آ ئے ہو ئے ایک گیسٹ محمد بخش نے سرا ئیکی اشعار میں یوں تبصرہ کیا۔
وڈا فنکشن کیتا اے ہوٹل تے 3 گھنٹے بیٹھے رہ گئے ہاں صحرائی ٹر کا یا اے بوتل تے ڈاکٹر خیال امروہوی سے ہماری آخری طویل سنگت سندھ کے 2008 میںچار روزہ سفر کے دوران رہی ۔ یہ سفر ڈیزک ہاک حیدر آ باد میں اس وقت کے کمانڈر میجر جزل عبد العزیز مرانی دعوت پر ہوا تھا ۔ سندھ کے اس چار روزہ سفر نامہ بارے 164 صفحات پرمشتمل میری کتاب “عقا بوں کے ہم سفر ” 8 200 میںشا ئع ہو چکی ہے۔