تحریر: شیخ اقبال حسین
ریکارڈ کے مطابق یہ زمین 45کنال رقبہ پر مشتمل ہے اور یہاں کے باسی سرکار کو بمشکل ہی فی کنال پانچ سے سات سو روپے سالانہ ادا کرتے ہیں ۔1974ء میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹونے قانون بنایا تھا کہ جو لوگ اوقاف کی زمین پر رہائش پذیر ہیں وہ ہر تین سال بعد تجدید کرالیا کریں ۔چنانچہ یہاں پر بسنے والا ڈاگی خاندان بھی ہر تین سال بعد معمولی ٹیکس ادا کرکے دوبارہ مالک بن جاتا ہے ۔
عملہ محکمہ اوقاف کے مطابق ’’ہم نے متعدد بار چیئرمین لاہور کو لکھ کر بھیجا ہے کہ اس مندر کی کھدائی کی اجازت بخشی جاوے مگر تاحال اجاز ت نہ مل سکی ہے جو شاید سیاسی لیڈروں کی مداخلت کے بغیر ممکن نہ ہے ۔‘‘مزید برآں ان کے مطابق چند سال قبل ڈیرہ غازی خان سے چند ہندوؤں نے درخواست دی تھی کہ اس مندر کو ہماری تحویل میں دے دیا جائے تاکہ ہم اسکی از سر نو تعمیر کر سکیں مگر ان کی درخواست پر عمل نہ کیا گیا تھا ۔ایک روایت کے مطابق مائی ماتا ہندو خاتون ہی تھیں اس ضمن میں راقم کے ایک بزرگ مرحوم صوفی شیخ عبدالکریم (بعمر98 سال)بیان فرماتے تھے ’’ہم نے یہاں ہندوؤں کو عبادت کرتے دیکھا ہے یہاں چیچک کا بھی علاج کیا جاتا تھا جسکی خاطر مریض کو یہاں نہلایاجاتا تھا اور پرانے کپڑے اُتر وا کرنئے کپڑے پہنائے جاتے تھے اور پھر کہا جاتا ہے کہ مریض صحت یاب ہوجاتا تھا‘‘۔
اب گردونواح میں مائی ماتا کے متعلق بہت ساری من گھڑت کہانیاں پھیلائی گئی ہیں تاکہ مائی ماتا کو مسلمان مشہور کیا جاسکے اور اسکی آڑ میں تعویز گنڈوں کی مدد سے ڈھیروں پیسے کمائے جاسکیں ۔ایک ایسی ہی روایت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ایک دن کسی مسلمان نے اس ہندو عورت سے دست درازی کی کوشش کی تو اس نے اپنی عصمت کے تحفظ کیلئے خدا کو پکارا۔خدا کے حکم سے زمین شق ہوگئی اوریہ ہندو عورت زمین میں غائب ہوگئی ۔یہی تو وہ جگہ ہے جہاں اسکی قبر بنا دی گئی ہے اس قبر کے اوپر ایک چھوٹا کمرہ (لمبائی/چوڑائی تقریباً چارفٹ)بھی بنا دیا گیا ہے جو آج تک موجود ہے کہتے ہیں کہ جب یہ عورت زمین میں غائب ہوئی تھی تو اس کے دوپٹے کا ایک پلو باہر رہ گیا تھا جو آج تک موجو د ہے ۔
(اس سے قبل اس عنوان پر لکھی گئی تحریر میں راقم کے اُستاد محترم ڈاکٹر مزمل حسین نے بھی طبع آزمائی کی تھی اور محض نام نہاد متولیہ سے انٹر ویو کی بنیاد پر اس مندر والی کو مسلمان و لیہ لکھ چھوڑا تھا مگر ان ہی کی پہلی تحقیقی کاوش تھی جس کو سراہا جانا چاہیے)بحرحال دوپٹہ کی گتھی کو سُلجھانے کی خاطر ایک شام راقم اپنے ایک قریبی دوست کے ہمراہ اس مندر پر گیا اور وہاں پر موجود بوڑھی متولیہ کی اجازت سے چھوٹے کمرے میں گھُس کر ساری اینٹیں ہٹائیں مگر کوئی دوپٹہ کا پلو نظر نہ آیا صرف ہانڈی کے منہ کے برابر دائرے میں چکنی مٹی دھری تھی جیسے پختہ فرش کے درمیان میں گڑھا کھود کر کوئی چیز دفنا دی گئی ہو مگر بعدازاں اُ س مٹی کو کھودنا آداب کے منافی تھا مگر اسکی تشنگی تادیر باقی رہے گی ۔
حقیقت میں یہ جگہ مزار نہیں بلکہ مڑی ہے (مڑی اس جگہ کو کہاجاتا ہے جہاں ہندو اپنے بزرگوں کی راکھ دفناتے ہیں )
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں ایسے کئی مندر پائے جاتے ہیں جہاں ہندو اپنی دیوی ماتا کی پوجا کرتے ہیں اور اسے ماں کا درجہ دیتے ہیں ’ماتا ‘کے معنی ’’ماں‘‘خیال کیا جاتا ہے ہندوؤں نے کسی بزرگ کی راکھ کو قبر میں دفنا دیا ہوگا اور پھر اس قبر یا مڑی کے ساتھ تھے ان میں بہت سارے ضعیف العقیدہ بھی ہوا کرتے تھے جو کسی بیماری سے شفاء پانے کیلئے نام نہاد مزار کا رُخ کرتے ہونگے عین ممکن ہے کہ کہ شفاء پانے کی صورت میں انہوں نے وہاں پر موجود قبر کو مسلمان و لیہ کی قبر سمجھنا شروع کر دیا ہوگا اور بعد ازاں اپنی ضعیف الاعتقادی کی بناء پر انہوں نے مختلف کہانیوں کو جنم دے ڈالا ہوگا اور پھر یہ کہانیاں مائی ماتا کے نام سے منسوب ہوگئیں ہونگی۔بعض لوگ اس مندر کو مزار لکھنے میں بضد نظر آتے ہیں مگر چند بنیاد ی سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہیں اگر یہ مزار ہے تو اسکی شکل و شباہت دنیا میں موجوداولیاء کرام کے مزارات سے مشابہہ کیوں نہیں ہے؟جس جگہ یہ عورت دفن ہوئی تھی اس کے اوپر ایک کمرہ قبر کے مشابہہ بنا دیا گیا تھا مگر پھر اندر عارضی اینٹیں متولیہ کی جانب سے کیوں رکھی گئی ہیں تاکہ یہ دُور سے مسلمانوں جیسی قبر نظر آسکے ؟اگر عارضی اینٹیں اس دور کے ہندوؤں کی جانب سے رکھی گئی ہیں یہ دورسے مسلمانوں جیسی نظر آسکے ؟اگر عارضی اینٹیں اس دور کے ہندوؤں کی جانب سے رکھی گئی تھیں تو ان کی لپائی کیوں نہیں کی گئی تھی یا ان کے پاس پیسے ختم ہوگئے تھے ؟یقیناًان سوالات کے جوابات کسی کے پاس بھی نہیں ہونگے ۔ویسے اسکے اندر کے نقش و نگار پرانے ہندو مندر جیسے ہی ہیں ۔چنانچہ اس ساری بحث سے ہم اخذکرسکتے ہیں کہ مائی ماتا مندر لیہ کے اندری کسی نیک ہندو مرد یا عورت کی مڑی (راکھ)یہ دفن ہے۔
جہاں تک سوال ہے کہ یہ مندر کب اور کس دور میں تعمیر کیا گیا تھا ؟اسکے متعلق ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں ۔شاید محکمہ آثار قدیمہ والے اس عمارت کے متعلق اندازہ لگا سکیں یہ کتنی پرانی ہے اکثر مقامی آبادی کے مطابق مائی ماتا ایک ولیہ ہے اور اسکے مزار پر ہر وقت جنات اور دیووں کا پہرا رہتا ہے اس حوالے سے ایک مقامی بزرگ ریشہ کمہار عرف شیدا کہتا ہے ’’میں نے خواب میں مزار کی دیوار کے ساتھ ایک سرنگ دیکھی ہے جس میں سونے چاندی اور ہیرے بھرے بھر جواہرا ت پڑے ہیں جن پر جناب اور دیووں کا پہر ہ ہے ۔اسی طرح علاقے کا ایک دوسرا بزرگ بیان کرتا ہے کہ پہلے کی یہ روایت ہے کہ قبل ازیں جو بھی شخص بوہڑ(برگد)کے درخت سے لکڑی کاٹتا تھا اندھا ہوجایا کرتا تھا مگر اب عمل سے لوگ اندھے نہیں ہوتے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ مائی ماتا اب مدینے جاچکی ہو کہا جاتا ہے کہ جہاں بُرائی بڑھ جاتی ہے وہاں سے نیک لوگ کوچ کر جاتے ہیں ۔
ایک اور روایت ہے کہ مائی ماتا ہندو مذہب کی پیر وکار تھیں لیکن جب انہوں نے ایک دن ایک اونچے ٹیلے کے پیچھے چھپ کر حضرت سخی شاہ حبیب ؒ کا وعظ سُنا تو فوراً مسلمان ہوگئیں ہندوؤں کو جب اس بات کا علم ہو تو نیزے ،تلواریں اور کلہاڑے اٹھا کر آپ کو قتل کر نے کے در پے ہوئے ۔آپ نے مندر کے پہلو میں آکر پناہ لی اور خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ اسے زمین میں غائب کر دے چنانچہ وہ وہیں بیٹھے بیٹھے زمین میں غائب ہوگئیں ۔
مقامی بزرگوں کے مطابق مائی ماتا کے مندر کے اطراف کی زمین قیام پاکستان سے قبل ہندوؤں کے قبضے میں تھی بعد میں گرواں فیملی کے شخص امیر محمد عرف میرو ڈاگی نے محکمہ اوقاف سے یہ زمین 99سال کیلئے ٹھیکہ پر لی جو آج تک اس کے خاندان کے تعرف میں ہے جو ہر سال حکومت کو پندرہ سے سولہ ہزارروپے ٹھیکہ ادا کرتا ہے (اس موضوع پر لکھی گئی ڈاکٹر مزمل حسین کی تحریر میں مائی ماتا کے نام پر بنائے گئے مندر کے دروازے کا تذکرہ ملتا ہے جواب مٹ چکا ہے )۔
مائی ماتا کے مندر کی عمارت کے نقوش آہستہ آہستہ مٹتے جارہے ہیں مقام افسوس ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ اور اہل اقتدار اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہے ۔اس تحریر کو سپر د قلم کرنے کے وقت یعنی جولائی 2016کا بہت سار ا حصہ زمین بوس ہو چکا ہے اور باقی ماندہ حصہ بھی ڈر ہے کہ مسلسل بارشوں
کی وجہ سے بہت جلد منہدم ہوجائیگا ۔لہذا آخر میں مقامی ایم پی اے اور ایم این ایز سے گزارش ہے کہ اسکی جلد از جلد کھُدائی کروائی جائے تاکہ اس کھدائی کے نتیجے میں برآمد ہونے والے سکوں ،برتنوں ،اورکھلونوں کو متوقع میوزیم (بمقام پرانی تحصیل نزد دفتر ٹی ایم اے لیہ کی جگہ قیمتی نوادرات کی صورت محفوظ بنایا جاسکے ۔