گوشت مارکیٹ میں نہ قصاب گئے اور نہ نادرا دفتر منتقل ہو سکا
تحریر ۔محمد صابر عطاء تھہیم
03008762327
کوئی بھی کام اگر وقت پر نہ کیا جائے یا اسے کرتے ہوئے اس کی پلاننگ نہ کی جائے تو اس کا حشر ایسا ہی ہوتا ہے جیسے ہماررے شہر کی مٹن مارکیٹ کی ہوئی ہے ۔بد بختی یہ ہے کہ ہمارے شہر میں جو بھی منصوبے عوامی مفاد کے لیے شروع کیے گئے ان کو بناتے ہوئے نہ ہی عوامی مفادات کو مدِ نظر رکھا گیا اور نہ ہی ان میں عوامی مشاورت کو شامل کیاگیا ۔ایک مخصوص طبقہ ہے جو اس شہر کے فیصلوں کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے اور من پسندی سے مکمل کرواتاہے ۔(میرا مقصد ان کی نیت پہ شک کرنا نہیں ہے ) بلکہ ان کی عوام سے مشاورت نہ کرنے کی بگڑی عادت کا سامنے لانا ہے جس عادت کے باعث شہر کے منصوبوں پر انہوں نے اپنے نام کی تختیاں تو نصب کر لیں اور شہریوں کو یہ بھی ظاہر کردیا کہ ووہ شہر کے فرزند ہیں اور دن رات اس شہر کے لیے اورعوام کے لیے دن رات ایک کیے جا رہے ہیں ۔بلا شبہ شہر کے لیے لائے گئے منصوبے شہر اور شہریوں کی اشد ضرورت تھے اور رہیں گے ۔کیوں کہ ہماری ایک پوری نسل نے 20سال صرف اپوزیشن کی قیادت کو منتخب ہوتے دیکھا اور انہیں شہر کو ویرانی بخشتے اور اس کے ماتھے پر پسماندگی سجاتے دیکھا ہے ۔
آپ ہسپتال کی نئی عمارت ،جنرل بس اسٹینڈ ،مذبح خانہ ،لیہ ملتان روڈ بائی پاس ،مٹن مارکیٹ سمیت متعدد منصصوبے دیکھ لیں جو کہ اشد ضرورت تھے لیکن عوامی مشاورت نہ ہونے اور مخصوص طبقہ کی نگرانی کی وجہ سے ان کے مقام اور ان کی تعمیر کا جوحشر چند سالوں میں ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا ۔
مٹن مارکیٹ 1998ء میں اس وقت کے ایڈ منسٹریٹر و اے سی لیہ مححمد اسلم نے تھانہ کی پرانی عمارت اور میونسپل کمیٹی کے درمیان موجود خالی پلاٹ میں تعمری کروائی جو کہ اس وقت کے لاکھوں روپے کی لاگت سے ایک سال میں مکمل ہوئی ۔ اسے آباد کرنے کے لیے کئی بار کوشش کی گئی لیکن ’’مخصوص‘‘قیادت نے اسے آباد نہ ہونے دیا اور قصابوں کو سٹے آرڈر لینے کا راستہ بھی دکھایا ۔اس میں قصاب تو آباد نہ ہو سکے مگر کتے اور جنگلی جانور آباد ہوگئے ۔لاکھوں روپے کی لات سے تعمیر ہوونے والی اس عمارت کے لیے راولپنڈی کی مٹن مارکیٹ کا نقشہ منگوایا گیا ۔لیکن اس شاندار نقشے والی عمارت کو سرکار کوئی بھی ادارہ آباد نہ کرسکا۔
اس کے آبا د نہ ہونے کی وجہ کوئی اور نہیں تھی صرف اس عمارت کا کم ہونا اور مناسب جگہ پر نہ ہونا تھا ۔قصاب حضرات نے سرائیکی کی مثال ’’اٹا ملیندے ہوئے ہلدی کیوں ہے ؟) ( آٹا گھوندھتے ہوئے عورت ہِلتی کیوں ہے ) ایسے ایسے نقص نکالے کہ یہ عمارت آبا دہی نہ ہوسکی ۔لیکن اسکی تزئین و آرائش کے لیے تقریباََہر سال بعد لاکھوں روپے ضرور لگائے جاتے ہیں ۔میڈیا میں کوئی بیان شیان داغے جاتے ہیں اور پھر قصابوں کو اس بھوت بنگلے میں منتقل نہ ہونے کی تسلی دیکر اپنا نمائندگی کا فرض پورا کر لیا جاتا ہے ۔اس بار بھی ہم میڈیا والوں نے اس ایشو کو اجااگر کیا تو ایک بار پھر سب کو’’ماموں ‘‘ بنایا گیا ۔بیان دیے گئے ۔اور اس بار تو منفرد نوید سنائی گئی کہ اس عمارت میں چونکہ قصاب جانے کوتیار نہیں ہیں نادرا سنٹر کو اس میں منتقل کر دیتے ہیں ۔ہم نے بھی سوچا کہ چلو ئی عمارت کسی کام تو آئی ۔نادرا سنٹر کی عمارت نہ ہونے کی وجہ سے اسے میونسپل کمیٹی چوک اعظم کی عمات میں ایک کمرہ دیا گیا جو کہ ناکافی ہے ۔شناختی کارڈ بنووانے والوں کے نہ بیٹھنے کی جگہ ہے اور نہ ان کے لیے کہیں پینے کا پانی ملتا ہے ۔خواتین کو ٹائلٹ نہ ہونے کی وجہ سے بھی شدید پریشانی کاسامنا کرنا پڑتا ہے ۔مقامی چیئرمین ملک ریاض گرواں اس کے لیے عملاََ کوششیں کیں ،مٹن مارکیٹ کو نادراکے ریجنل آفیسرز نے بھی وزٹ کیا اور اس عمارت میں صفائی کروائی گئی ،اس کے اندر مووجود تھڑوں کی ایسی تیسی کی گئی انہیں توڑ ا گیا۔لیکن دوماہ ہونے کوہیں وہ ساری کی ساری کوششیں ایک بار پھر دم توڑ گئی ہیں ۔
شہری گواہ ہیں کہ وہ اس وقت اگر جانوروں کا حلال گوشت بھی کھا رہے ہیں تو اس میں سڑک کی گرد ،رکشوں ،ٹرکوں اور بسوں کا دھواں ،مٹی ضرور شامل ہے سڑک کنارے لگے قصابوں کے یہ پھٹے جالیوں کے بغیر ،کسی قسم کی حفاظتی تدبیرکے بغیر دھڑلے سے گوشت فروخت کیے جا رہے ہیں ۔
ہمیں ان سے کوئی اور گلہ نہیں ہے چلیں اگر موجود ہ سرکار بھی ان کے سامنے منور قصاب کی وجہ سے گھٹنے ٹیک چکی ہے اور وہ مارکیٹ میں منتقل نہیں ہونا چاہتے تو کم ازکم اپنے پھٹوں پر حفاظتی انتظامات تو پورے کر لیں ۔جالی لگا لیں تاکہ شہری’’ صحت مند ‘‘گوشت تو یقین کے ساتھ خرید سکیں ۔
مقامی چیئرمین ملک ریاض گرواں ان دنوں شدید علیل ہیں اور لاہور کے ہسپتال میں داخل ہیں ہم انکی صحت کے لیے دعا گوہیں ۔لیکن 18ممبران کے ہاؤس میں باقی ممبران تو اس مارکیٹ کو آباد کرنے کے لیے اپنے متفقہ فیصلے پر عمل در آمد کروا سکتے ہیں ۔