زندگی آسان ہے
عفت بھٹی
زندگی اللہ کی ایک نعمت ہے اور اس کی قدر تب ہوتی جب یہ چھن جائے۔ہم اپنے شب و روز عجیب نفسا نفسی کی دوڑ میں گزارتے ہیں ۔دوسروں کو اگنور کرتے ہیں اپنی میں کو جوان رکھتے ہیں اسے کبھی خمیدہ نہیں ہونے دیتے دوسروں کے خلاف بغض رکھتے ہیں درگزر سے کام لینا توہین سمجھتے ہیں۔عیب جوئی اور کسی کی عزت نفس کو مجروح کرنا اپنا فرض گردانتے ہیں اپنے دل کو ڈسٹ بن
بنا کے رکھتے ہیں اور اس پہ اللہ سے رحمت کے طلب گار بنے پھرتے ہیں ۔حقوق العباد سے دوری اور قرب الہی کے تمنائی کتنی بے جوڑ تمنائیں ہیں ہماری ۔گو کہ اپنی زندگی کومشکل تر بنا کر رکھ دیا ہم نے ۔ درحقیقت حقوق العباد سے غفلت ہی ہماری آسانی کو مشکل بنا رہی ۔حالانکہ کہ زتدگی کا کلیہ بہت سادہ ہے کہ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرو تاکہ تم پہ بھی آسانی پیدا کی جائے اب آسانی کیسے پیدا ہو تی ۔تو سنیں۔
کسی بزرگ نے کہا کہ: "اللہ آپ کو آسانیاں بانٹنےکی توفیق عطا کرے”
جواب دیا کے ہم مال پاک کرنے کے لئے زکات بھی دیتے ہیں ، بلا ٹالنے کے لئے حسب ضرورت صدقہ بھی دیتے ہیں ، اور تو اور کام والی کے بچے کی تعلیم کا ذمہ بھی اٹھایا ہوا ہے، ہم تو کافی آسانیاں بانٹ چکے…..
ایک مضطرب مسکراہٹ کے بعد فرمایا : بیٹا ! سانس، پیسے ، کھانا، یہ سب رزق کی اقسام ہیں ، اور رازق وہ ہے تم نہیں؛ تم یہ سب کرنا چھوڑ دو تو بھی اس کی ذات یہ سب فقط ایک ساعت میں عطا کر سکتی ہے ، تم تو یہ سب کر کے محض اشرف المخلوقات ہونے کا فرض ادا کر رہے ہو .
میں تمہیں سمجھاتا ہوں آسانیاں بانٹنا کیا ہے ،
کسی اداس اور مایوس آدمی کے کندھے پے ہاتھ رکھ کے اس کی ایک گھنٹہ لمبی بات پیشانی پے بغیر شکن لاۓ سننا آسانی ہے ،
کسی بیوہ کی بیٹی کے رشتے کی اپنی ضمانت پے تگ ودو کرنا آسانی ہے ،
صبح آفس جاتے ہوے کسی یتیم بچے کو اسکول لے جانے کی ذمہ داری لینا آسانی ہے ،
اگر آپ کسی گھر کے داماد یا بہنوئی ہیں تو خود کو تمام رشتوں سے افضل نہ سمجھنا بھی آسانی ہے ،
کسی غصے میں بپھرے آدمی کی نہایت غلط بات برداشت کرنا آسانی ہے ،
کسی کی غلطی ، لغزش یا غلط فہمی پے خدائی صفت بروے کار لانا اور پردہ ڈالنا بھی آسانی ہے ..
چاۓ والے کو اوے کہ کے نہ بلانا بھی آسانی ہے ،
گلی کے کونے پے چھابڑی والے سے دام پے بحث نا کرنا آسانی ہے ،
آفس ، دکان یا کام کی جگہ پے چوکیدار یا ملازم سے گرم جوشی سے ملنا اور اس کے بچوں کا حال پوچھنا بھی آسانی ہے ،
ہسپتال میں اپنے مریض کی دیکھ بھال کے ساتھ، برابر والے بستر پے پڑے انجان مریض کے پاس بیٹھ کےدولمحےتسّلی دینا بھی آسانی ہے،
اشارے پے کھڑے ہو کے کسی ایسے شخص کو ہارن نہ دینا جس کی موٹر بائیک آپ کی گاڑی کے آگے بند ہو جاۓ، یہ بھی آسانی ہے ،
بیٹا جی ! آسانی گھر سے ہی شروع کریں ،
آج واپس جا کے گھر کی بیل ایک دفعہ دے کے تھوڑا انتظار کریں ،
باپ کی ڈانٹ ایسے سنیں جیسے ریڈیو پے گانا سنتے ہیں ،
ماں کی بات اس کی دوسری آواز دینے سے پہلے سنیں ،
بہن کی ضرورت اس کی شکایت سے پہلے پوری کر دیں ،
بیگم کی غلطی پے اس کو سب کے سامنے درست نہ کریں ،
سالن اچھا نہ لگے تو شکایت نہ کریں ، استری ٹھیک نہ ہو تو خود کر لیں ،
بیٹا جی ! زندگی آپ کی محتاج نہیں ، آپ اس کے محتاج ہیں ، منزل کی فکر چھوڑیں ،
اپنا اور دوسروں کا راستہ آسان بنائیں ، منزل خود ہی مل جاۓ گی ….
دیکھیں کتنا آسان اور سیدھا راستہ ہے اس میں کوئی مشقت بھی درکار نہیں صرف ایک بات ا پنے ذہن میں رکھیں کہ ہم نے اپنے لیے آسانی پیدا کرنی اور یہ تبھی ممکن جب ہم دوسروں کے لیے آسانی پیدا کریں۔
میں سادگی کو ایک نعمت کہتی ہوں ذیادہ فہمی اور دانشوری بسا اوقات دلائل کی جنگ میں پڑ کر انسان کو منزل سے ہٹا دیتی اور اصل منزل کو دور کر دیتی ۔جب ہم خود کو عقل کل سمجھنے لگتے تو بے راہ رہرو ہوجاتے ۔مکمل ذات تو صرف وہ ہے جو سب کا خالق ہے اور اس کے احکام میں سادگی اور قطعیت ہے نہ مباحثے کی حجت نہ دلائل کی حاجت فعل امر ۔امر ربی سے مستحسن جس میں فعل نہی اور عن المنکر کی کوئی گنجائش نہیں پھر حجت کیسی۔سو جب حجت تمام ہو تو آسانی کسی روزن سے خود بہ خود در آتی۔ایک روشن لکیر کی مانند جو اندھیرے میں اجالا کر دیتی۔۔
زندگی کچھ دو اور کچھ لو کے اصولوں پہ قائم ہے۔سو اپنی آسانی دوسروں کو آسانی دے کر کی جاسکتی۔ہمارا معاشرہ اخلاقا کچھ خود غرض ہو گیا ہے اور اس خود غرضی نے معاشرے میں ایسا بگاڑ پیدا کر دیا کہ ہر طرف اس کے نقصانات نظر آتے .انہیں کے سبب انسانی ہمدردی اور انسانیت مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم معاشرے میں وہ سب لوٹا دیں جو چھین لیا ہے تاکہ آئندہ کا معاشرہ اور مستقبل سنور سکے۔