مسلم لیگ ن کی حکومت ،اختیارات کی عوام تک منتقلی ممکن ہوگی؟
تحریر:عبدالرحمن فریدی
e.mail:arfaridi@gmail.com
کسی بھی ریاست میں قائم شدہ حکومت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ مسائل کو حل کرنے کے لئے عوام کو زیادہ سے زیادہ حکومتی امور میں شریک کیا جائے جو صرف مقامی حکومت کے قیام کے بعد ہی ممکن ہے۔کیونکہ مقامی لوگ ہی مقامی وسائل کو استعمال میں لاکر مقامی مسائل کو حل کرنے کی بہتر صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں اور مقامی حکومتیں ہی ملک کی باگ دوڑ چلانے کیلئے لیڈر شپ مہیا کرتی ہے ،گراس روٹ لیول کے مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے کی صلاحیت کا حامل ہی حقیقی لیڈر ہوتاہے گلی محلے کی سیاست میں قدم رکھ کر کونسلر بننے کے بعد چیئرمین میونسپل کمیٹی،چیئرمین ضلع کونسل،میئر شپ کی تربیت کے بعد ممبر صوبائی اسمبلی و ممبر قومی اسمبلی ،وزیر ،مشیر ،سپیکر،سینٹر اور پھر وزیر اعلیٰ ،وزیر اعظم اور صدر مملکت کی کرسی پر براجمان ہونیوالا ہی اصل لیڈر ہوتاہے یا پھر طلباء تنظیموں کی چکی میں پس کر عوامی نمائندگی تک پہنچنے والا حقیقی لیڈر ہوتاہے فی الحقیقت یہ وہ سطح ہوتی ہے جہاں قوم کے مستقبل کے رہنماؤں کو نظم و نسق کی مسلسل تربیت دی جاتی ہے جسکی بناء پر ملک میں قومی لیڈر شپ کا خلاء پیدا نہیں ہونے پاتا،سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ہماری جمہوری حکومت نے ادھورے بلدیاتی الیکشن کرا دیئے بلدیاتی ادروں کو فعال کرنے اور اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کیلئے بلدیاتی اداروں کے سربراہان کے چناؤ کے عمل مکمل کرنے کیلئے مخصوص نشتستوں پر چناؤ کا عمل ہونا ابھی باقی ہے جس کو ہمارے حکمران مختلف طریقوں سے روکنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں صوبہ پنجاب کی طرح ضلع لیہ میں بھی بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے منتخب کونسلرز و چیئرمین ،وائس چیئرمین یونین کونسلز مایوسی کا شکار ہیں ،دوران الیکشن گلی محلوں کے لوگوں کی بنیادی سہولیات و مسائل جن میں صحت و صفائی ،گلی میں نالی سولنگ،بجلی،پانی،سیوریج سسٹم کی فعالیت کے وعدوں پر لوگوں سے ووٹ حاصل کرکے کونسلرز منتخب ہوئے تھے وہ لوگ عملاًغیر فعال اور شدید پریشان ہیں،پنجاب حکومت اپنی روائتی طریقہ کار کو جاری رکھتے ہوئے کہ حکمرانی عوامی نمائندوں کی بجائے صرف بیوروکریسی کے ساتھ کرنی ہے کو جاری رکھے ہوئے ہے،عدالت عالیہ کے حکم کے بعد کہ مخصوص نشستوں کے الیکشن کو فوری طور پر پایہ تکمیل تک پہنچائے جائے ضلع لیہ کی قومی ،صوبائی و بلدیاتی سیاست میں کچھ ہلچل شروع ہوئی تھی اور ایک آدھ سیاسی دعوت بھی ہو گئی جس میں ایک گروپ نے اپنی شو آف پاور کردی ایک سیاسی دعوت کے بعد عدالتی سٹے آرڈر کے بعد پھر وہی جمود کی کیفیت طاری ہوگئی ہے ضلع لیہ میں مسلم لیگ ن کی ملکی سیاست کی طرح ساکت پوزیشن ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی،جماعت اسلامی اور تحریک انصاف اپنے پارٹی ورکرز کی موبلائزیشن کیلئے کچھ نہ کچھ پروگرام گذشتہ دنوں جاری رکھے،جماعت اسلامی نے یوتھ کنونشن جسمیں صوبائی امیر کی شرکت،پاکستان پیپلز پارٹی نے جنوبی پنجاب کے اضلاع میں تنظیمی ڈھانچہ کی تشکیل کیلئے کئے جانے والے صوبائی قیادت کے دوروں میں ضلع لیہ کا دورہ بھی مکمل کرلیا جس میں ضلعی قیادت اور پارٹی ورکروں کے ساتھ ملاقات میں ورکروں نے دل کی بھڑاس نکال کر دل کا بوجھ حلقہ کرلیا ورکروں و ضلعی لیڈروں سے ملاقات کی رپورٹ صوبائی قیادت مرکزی قیادت تک پہنچا چکی ہوگی جس کے نتیجہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ضلعی قیادت کی نامزدگی کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے جبکہ تحریک انصاف تمام سیاسی جماعتوں سے نمبر لے گئی تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ایم پی اے عبدالمجید خان نیازی نے اپنے حلقہ میں 50جوڑوں کی اجتماعی شادیوں کی تقریب کرڈالی دوسری طرف مرکزی قیادت نے ضلعی تنظیم تبدیل کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کو خیر باد کہنے والے سابق ضلعی جنرل سیکرٹری مسلم لیگ ن بشارت رندھاوا جس نے میونسپل کمیٹی چوک اعظم کے الیکشن کے دوران متحرک ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے میونسپل کمیٹی چوک اعظم کیلئے تحریک انصاف کی ٹکٹ پربھاری تعداد میں کونسلر منتخب کرالئے کو تحریک انصاف کا ضلع صدر نامزد کر کے ضلع لیہ کی قومی صوبائی اور بلدیاتی سیاست میں تبدیلی کیلئے پہترین فیصلہ کیا ہے جس کے آنے والے وقت میں ضلع لیہ میں تحریک انصاف کیلئے بہترین نتائج برآمد ہونگے،مسلم لیگ ن کی قیادت نے ضلعی صدارت سابق صوبائی وزیر ملک احمد علی اولکھ اور ضلعی جنرل سیکرٹری شپ ایم این اے ووفاقی پارلیمانی سیکرٹری پلاننگ و ڈویلپمنٹ سید ثقلین شاہ بخاری کو دیکر کر پارٹی ورکروں کو مایوسی کے دہانے پر کھڑا کر دیا تھا جس طرح مسلم لیگ ن کی قیادت نے جہاں ورکروں کو مایوس کیا ہے اسی طرح بلدیاتی اداروں کو فعال نہ کرکے کونسلرز سمیت گلی محلوں کے عام ووٹرزکو مایوسی کے دہانے میں دھکیل دیا ہے،جنوبی پنجاب کے دیگر اضلاع کیے طرح مسلم لیگ ن کی مرکزی ،صوبائی و ضلعی قیادت نے تاحال ضلع لیہ میں کوئی میگا پراجیکٹ نہ لاسکی جس کے عیوض آنے والے الیکشن میں یہاں کی عوام کے ووٹ کے حق دار بن سکیں ہمارے حکمرانوں اور ممبران قومی و صوبائی اسمبلیوں کی سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے کہ بلدیاتی ادارے بھی ان کی حکومت کا ہی حصہ ہونگے ان اداروں کو چلانے والے بھی انہی حکمرانوں کے عزیز و اقارب ہونگے یہ ادارے ان کے متوازی نہیں ہونگے بلدیاتی اداروں کی افادیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس نظام کی اتنی افادیت کے باوجود ہمارے پیارے پاکستان کے حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی محض ایک خواب بنتا جا رہا ہے اور مقامی حکومتوں کا تصور ختم ہو کر رہ گیا ہے ایک طرف دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مقامی سطح پر عوام کے منتخب نمائندوں کی حکومت ہوگی تو دوسری طرف بہت سارے اختیارات عوامی نمائندوں کے انتخاب کے بعد انہیں سونپنے کی بجائے بیوروکریسی کو سونپ دئیے گئے جبکہ یہ حکومت کے سوچنے کی بات ہے کہ بیوروکریسی اس نظام کی کامیابی کی راہ میں کیا رکاوٹیں پیدا کر رہی ہے یا کرتی رہی ہے اور شائد اسی بناء پر اوپر سے نچلی سطح پر اختیارات کی تقسیم کی یقین دھانیوں پر عملدرآمد کی کوئی موثر اور نتیجہ خیز صورت ابھی تک سامنے نہیں آئی۔یہ درست ہے کہ اس نظام کو چلانے کے لئے بعض تبدیلیوں کی ضرورت ہے لیکن اگر حکمران حقیقی معنوں میں اس نظام کو چلانے کے لئے سنجیدہ ہوں تو یقیناً اس میں خاطر خواہ تبدیلیاں لا کر مقامی حکومتوں کے نظام کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔جب حکومت نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کو یقینی بنادے گی تو یقیناً مقامی حکومتوں کے نمائندے ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے صحت و صفائی ،خراب عمارات کے امور ،صفائی ستھرائی،قبرستانوں کی دیکھ بھال ،پانی کی بہم رسانی،نکاسی آب کے لئے سیوریج سسٹم کی بحالی ،پانی کے نکاس کی سکیمیں تیار کرنا،ذبح خانوں کی تعمیرات ،مردہ جانوروں کو ٹھکانے لگانا،سیلاب کی روک تھام ،شہری منصوبہ بندی،ترقیاتی سکیموں کی تیاری،عمارات کے متعلق قوانین،شہریوں کی سہولت کے لئے عام گلی کوچوں اور آمدورفت کے لئے عام سڑکوں کی تعمیر اور انکا انتظام،تجاوزات کی روک تھام ،گلی کوچوں میں روشنی کے مناسب انتظام،پتن ہائے عام کا انتظام کرنا،کھانے پینے کی اشیاء سے متعلق ذیلی قوانین ،دودھ کی فراہمی کا بندوبست،عوامی منڈیوں کا قیام،لوگوں کو تفریح و آسائش کے لئے باغات لگانا ،لائبریریوں کا قیام ،میلے اور نمائش لگاناجیسے تما م کام کرگزریں گے لیکن افسوس کے ہمارے ملک کے حکمران عوام تک بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو اپنے اختیارات میں کمی کا باعث سمجھتے ہوئے لوکل گورنمنٹ سسٹم کو کامیابی کی طرف لیجانے کی بجائے اسکی ناکامی کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈوں کو آزماتے ہیں۔