اسلام میں صدقہ کرنے، بھوکے کو کھانا کھلانے، ننگے بدل کو ڈھانپنے اور بے گھر کو گھر دینے، بے کس کی مدد اور ضرورت مندوں کی حاجت پوری کرنے کو بہت اہمیت دی ہے. اسلام کی ان تعلیمات کی روشنی میں ہر صاحب حیثیت کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ جتنا ممکن ہو کسی مجبور کی مدد کرے. اس طرح سے معاشرے کا ایک رجحان بن گیا کہ اس نیکی کے عمل میں ہر ایک اپنی بساط میں بغیر کسی کو جانے بڑھ چڑھ کر خالص نیکی کے جذبے سے حصہ لیتا ہے.
لوگوں کی اس کیفیت کو کیش کرنے کے لیے شعبدہ باز، سہل پسند، غربت کا روپ دھار کر بہت سے غیر مستحق بھیک مانگنے کے شعبے سے منسلک ہوگئے. اب لگتا ہے بھیک مانگنے نے ایک انڈسٹری کا روپ دھار لیا ہے.
بدقسمتی سے پاکستان میں بھیک مانگنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان میں سے شاید ہی کوئی مستحق ہو. بھیک مانگنا مجبوری نہیں بلکہ ایک پیشہ بن گیا ہے. مستحق سفید پوشی میں رہتے ہیں جبکہ بھکاری سفید پوش مستحقین کا حق لے اُڑتے ہیں. اب تو یہ لوگ ملک سے باہر ٹولیوں اور گروپ کی صورت میں جا کر نہ صرف بھیک مانگتے ملک کی بدنامی کاسبب بنتے ہیں بلکہ دیگر جرائم میں بھی ملوث پائے گئے ہیں. امارات میں میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ خواتین و حضرات بالخصوص خواتین مختلف جگہوں پہ بھیک مانگتے ملیں. چند لوگوں سے جب اس موضوع پہ بات کی تو معلوم ہوا کہ ان لوگوں کو باقاعدہ ٹھیکیدار باقاعدہ وزٹ ویزہ پہ لاتے ہیں یا سعودیہ میں عمرہ کے لیے لے جاتے ہیں. پھر دن بھر بھیک مانگنے پہ لگا دیتے ہیں اور شام کو اپنا اپنا حصہ بانٹتے ہیں. پچھلے دنوں صرف دبئی پولیس نے اڑھائی سو بھکاریوں کو گرفتار کرکے سزائیں سنائیں جن میں سوائے چند کے باقی سارے پاکستانی تھے. یہی وجہ ہے کہ یو اے ای نے پاکستانی ویزے بند کیے.
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسئلے سے چھٹکارا کیسے حاصل کیا جائے؟
اس کے لیے میری چند تجاویز آپ کی نظر ہیں:
1- سب سے پہلے تو سوشل پریشر کے لیے سماجی تحریک کے تحت حکومت پہ دباؤ ڈالا جائے کہ بھیک مانگنے کو غیر قانونی کرار دے کر اس کو سختی سے روکا جائے. اس عمل کو باقاعدہ جُرم ڈکلیئر کیا جائے اور قانون کے ذریعہ سزائیں دی جائیں. عوام کو بھی شعوری آگاہی دی جائے کہ بھکاریوں کی حوصلہ شکنی کی جائے. بھیک مانگنا اور پیشہ ور بھکاری کسی بھی معاشرے کے لیے ناسور کا کردار ادا کرتے ہیں.
2- عام عوام کو ایسا رویہ اپنانا چاہیے کہ بجائے بھکاری کو کیش دینے کے اسے کھانا دے، اگر اس کے بدن پہ کپڑے نہیں تو کپڑے یا جوتے دے. جس سے پیشہ ور بھکاری کی حوصلہ شکنی ہوگی. اور اگر کسی شخص کو کھانا یا دوسری ضرورت کی چیز دی تو پھر اس دن اسے مزید بھیک مانگتے دیکھنے پہ حوصلہ شکنی کی جائے.
3- حکومتی سطح پہ یا عوامی سطح پہ بالخصوص تاجر تنظیمیں مل کر ایک فنڈ جنریٹ کریں جس سے اس نوعیت کا کاروباری یا پروڈکشن یونٹ بنایا جائے جو بھیک مانگنے والے افراد کے لیے روزگار مہیا کرے. بجائے بھیک دینے کے انہیں روزگار کا موقع دیا جائے.
4- زکوٰۃ فنڈ سے بھی انڈسٹریل یونٹس لگائے جاسکتے ہیں. جہاں لوگوں کو روزگار بھی ملے اور اس انڈسٹری کی آمدن کو زکوٰۃ فنڈ میں ہی رکھ کر مزید فلاحی اور انسانی ترقی کے کاموں پہ لگایا جائے. (خیر یہ ایک علیحدہ موضوع ہے اس پہ علیحدہ سے لکھا جانا مناسب ہے)
5- کسی شخص یا بالخصوص تاجر/دکاندار کے پاس اگر کوئی بھکاری آئے تو بجائے ویسے پیسے دینے کے اسے کوئی کام کہے کہ سامان یہاں سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دو، دوکان کی صفائی کر دو، یا بوٹ پالش کردیں. یا کسی سامان کی پیکنگ کر دے ، گاڑی صاف کروالی جائے اور اس کے عوض اسے مزدوری دے دیں.
6- ریسٹورنٹس کے ساتھ معاہدہ کریں کہ کسی بھوکے کو مناسب دام میں کھانا کھلا دے اس کے لیے لوگ بجائے بھکاری کو پیسے دینے کے اسے ایک ٹوکن دیں کہ فلاں ریسٹورنٹ سے جا کر مفت کھانا کھا لیں.
7- ریسٹورنٹس پہ ایک اور کام کیا جاسکتا ہے کہ وہاں ایک بورڈ لگا دیا جائے. (جیسا کہ کچھ یورپین ممالک میں دیکھا گیا.) اس بورڈ پہ فری کھانا، فری چائے، کافی، مشروب وغیرہ کے ٹوکن چسپاں کر دیے جائیں جس کو کھانا کھانا ہے یا چائے یا کچھ اور چاہیے وہ بورڈ سے متعلقہ ٹوکن اٹھا کر اس کے عوض کھانا کھا لے. جب صاحب حیثیت خود کھانا کھانے جائے تو وہ اپنے ایک آرڈر کے ساتھ ایک اضافی آرڈر بورڈ کے لیے دے. یا کوئی صاحب حیثیت اپنی استطاعت کے مطابق جتنے چاہے بورڈ کے آرڈر دے دے. اس طرح سے کھانا کھانے والے کی عزتِ نفس بھی مجروح نہ ہوگی.
8- تاجر تنظیمیں یا صاحب حیثیت مل کر بھکاریوں کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا کوئی انتظام کر سکتے ہیں جہاں بجائے بچوں کو جگہ جگہ بھیک مانگنے پہ لگایا جائے انہیں مفت تعلیم بھی ملے اور وہاں مفت کھانے کا بھی انتظام کر دیا جائے.
9- علماء اور دیگر مذہبی شخصیات و اداروں کو اس بارے دین کی روشنی میں عوام کی راہنمائی کرنی ہوگی. لیکن بدقسمتی سے مسجد میں نمازی کم اور مسجد کے باہر بھکاری زیادہ ملتے ہیں. جو لوگ نماز کے لیے مسجد نہیں جاسکتے لیکن بھیک کے لیے باہر بیٹھتے ہیں وہ کیسے حقدار اور مستحق ہو سکتے ہیں. لیکن افسوس کہ اکثر مولوی بھی لوگوں کی تربیت سے زیادہ چندہ دینے کے فضائل اور چندہ وصولی پہ زور دیتے ہیں.
10- ہمارے ہاں ریسٹورنٹس، شادی ہال اور دیگر کیٹرنگ میں کھانا بچ جاتا ہے جسے عموماً ضائع کر دیا جاتا ہے. اس کھانے کو بھی مختلف ریسٹورنٹ سے اکٹھا کرنے کا انتظام کرکے ضرورت مند بھوکے تک پہنچایا جا سکتا ہے اس انتظام کو چلانے کے لیے بھی 2/4لوگوں کے روزگار کا انتظام بھی ممکن ہے.
11- سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ کو اس عادت سے چھٹکارا کرنا پڑے گا کہ ہر آنے والے کے ہاتھ پہ کچھ رکھ دینے کو ایک نیک عمل سمجھتے اس بھکاری کی حوصلہ افزائی کریں. ہمیں سنجیدہ رویہ اپناتے بھیک اور بھکاری گری کو ایک معاشرتی برائی سمجھنا ہوگا. صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5356 میں ہے ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: بہترین خیرات وہ ہے جسے دینے پف آدمی مالدار رہے اور ابتداء ان اے کرو جو تمھاری نگرانک میں ہیں جن کے کھلانے پہنانے کے تم ذمہ دار ہو”
ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک شخص آتا ہے اور اپنی مفلسی بارے بیان کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے دریافت فرماتے ہیں کہ اس کے پاس کوئی چیز ہے تو وہ کہتا ہے اس کے پاس ایک کمبل ہے جسے اسی محفل میں اصحاب رسول کے ہاتھوں بہچ کر اسے ایک عدد کھلاڑی اور رسی اسی رقم سے خرید کر دی جاتی اور آپ صلعم فرماتے ہیں کہ اب جنگل میں جاؤ لکڑی کاٹو اور بیچ کر اپنا روزگار بناؤ. یہاں بھی محتاجی کی بجائے اسے اپنے روزگار کی طرف ترغیب دی گئی ہے. اگر ہم ان بھکاریوں کی حوصلہ شکنی کریں گے تو یہ اس پیشے کو چھوڑ کر محنت مزدوری کی طرف جائیں گے.
اس کے علاوہ بھی بہت سے اور اقدامات حکومتی سطح پہ بھی اور علاقائی سطح پہ اٹھائے جاسکتے ہیں. لیکن سب سے اہم اس مسئلے پہ سنجیدہ رویہ اپنانا ہے.
افتخار علی خان مغل (ابوعبداللہ)