کیا کبھی آپ نے غور کیا پانی زندگی کے لیے اور آٸندہ آنے والی نسلوں کے لیے کتنا ضروری ہے اس دنیا میں بنے رہنے کے لیے پانی سب سے بڑی ضرورت ہے۔؟ عام لفظوں میں پانی زندگی ہے کبھی آپ نے کسی انگلش فلم میں ایسا سین دیکھا ہے جس میں ایکٹر باتھ روم میں ٹوتھ برش کررہا ہے؟آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ دانتوں میں برش کرتے وقت بیسن کا پانی بند ہوتا ہے جبکہ دانت صاف کرنے کیلئے اس کے پاس ایک چھوٹا سا گلاس رکھا ہوگا جس میں وہ پانی بھر کر کلی کرتا ہے۔
اسی طرح جب کچن میں برتن دھوئے جاتے ہیں تو سنک کا ڈرینج فلو بند کرکے اس میں پانی بھر لیا جاتا ہے، پھر اسپانی میں برتن دھوئے جاتے ہیں۔
یہ پریکٹس تقریباً تمام مغربی ممالک میں یکساں پائی جاتی ہے۔ چاہے کوئی امیر ہو یا غریب، وہ پانی ضائع نہیں کرتا۔ دوسری طرف پاکستان میں جب ہم دانتوں میں برش کررہے ہوتے ہیں تو اس دوران واش بیسن کا نلکا مکمل کھلا ہوتا ہے اور پانی سیدھا نالی میں جارہا ہوتاہے ۔ ۔ ۔ برتن دھوتے وقت بھی یہی کچھ کیا جاتا ہے، نلکا پورا کھلا ہوتا ہے اور پانی مسلسل نالی میں جارہا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ اور تو اور، وضو جیسا اہم ترین رکن ادا کرتے وقت بھی ہم کئی گیلن پانی نالی میں بہا دیتے ہیں۔
چونکہ پاکستان میں عام طور پانی انتہائی ارزاں چیز سمجھی جاتی ہے، اسلئے ہمدل کھول کر اسے ضائع کرتے ہیں، باوجود اس کے کہ ہمارے پاس نہ تو مغربی ممالک جتنے وسائل ہیں اور نہ ہی پانی کے بحران سے نمٹنے کی صلاحیت۔
اس رویئے کی کیا وجوہات ہیں۔؟
تعلیم کی کمی کو ہم موردالزام نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ یہ رویہ آپ کو ڈاکٹرز، انجینئرز اور ایم اے پاس لوگوں کے ہاںبھی ملے گا۔
دین سے دوری بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ سب سے زیادہ پانی کا ضیاع مساجد میں ہی ہوتا ہے۔
کیا ہمارا دین ہمیں اس کہ اجازت دیتا ہے کیا ہمارے پیارے نبیﷺ کا حکم اور سنت ہمارے سامنے نہیں۔؟
اسے ہم مجموعی معاشرتی جہالت کہیں یا ضد ، جو ہمیں اپنی سال ہا سالپرانی روش ترک کرنے سے روکے رکھتی ہے۔ ؟
ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں اپنی کوئی خراب عادت اس لئے نہیں بدلنی چاہیئے کیونکہ دوسروں نے نہیں
کیا اس معاشرے کو تیزاب کے پانی سے غسل دینے کی ضرورت ہے تاکہ ان پر جما جہالت کا زنگ دور ہوسکے۔؟
زیرِ زمین پانی کے ذخائر میں کمی کاشور تو سنتے ہیں لیکن کبھی اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی۔؟
کیوں ہماری پانی والی موٹریں کام کرنا چھوڑ جاتی ہیں اور پھر ہمیں پانی حاصل کرنے کیلئے ذیادہ گہرا بور کروانا پڑتا ہے۔؟
جس گھر میں پہلے چالیس فٹ بور والا ہینڈپمپ یا نلکا بہترین کام کرتا تھا وہاں کیوں اب اڑھائی سو فٹ پہ بھیپانی نہیں مل رہا۔؟
اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہم جتنا پانی زمین سے لے کر استعمال کر رہے ہیں، اسے اتنا پانی واپس نہیں کر رہے، یعنی ہمارے زیر زمین پانی کے ذخائر ری چارج نہیں ہو رہے۔
زیر زمین پانی کے ذخائر ری چارج کیسے ہوتے ہیں؟ بارش سے اور ہمارےاستعمال شدہ پانی سے (اگر ہم وہ پانی زمین کو واپس کریں تو)
ہزاروں سال تو یہ ذخائر ری چارج ہوتے رہے، اب کیوں نہیں ہو رہے؟ کیونکہ بارش اور دیگر استعمال شدہ پانی کے زمین میں جانے کا قدرتی راستہ (کچی زمین) کو ہم نے سیمنٹ، تارکول اور کنکریٹ سے بند کر دیا ہے، وہ پانی جوزیر زمین پانی کی سطح کو برقرار رکھتا تھا اسے اب واپس زمین میں جانے کا راستہ نہیں ملتا اور ہم اسے نالیوں میں بہا دیتے ہیں۔
بڑی شہری آبادیوں میں اگر ہم سب اپنے اپنے گھر کا کچھ حصہ باغیچے کیلئے چھوڑ دیں یا میونسپل کارپوریشنز پارکوں base lines وغیرہ میں بور کر۔ کے بارش کے پانی کو زیر زمین جذب کرنے کا اہتمام کرے تو نہ صرف یہ کہ اندرون شہر زیر زمین پانی کا لیول build-up ہو گا بلکہ باغیچوں اور پارکوں کی کچی زمین بارش کے پانی کو زیر زمین جذب کر کے ہمیں شجرکاری تازہ پھل اور سبزیاں بھی فراہم کرے گی۔ لہذا اس نام نہاد ترقی (سیمنٹ سریے اور ماربل کے پہاڑ کھڑے کرنا) کے خول سے باہر آئیں اور حقیقی ترقی اپنائیں
یعنی rain water harvest کر کے زیر زمین ڈیمز تعمیر کریں۔
دوستو کیا سب کچھ حکومتیں ہی کریں گی کیا ہماری کوٸی زمہ داری مسلمان ہونے انسان ہونے کے ناطے بھی ہے کا ہم اتنا نہیں کر سکتا جتنا ہمارے بس میں ہے۔؟