ویلنٹائن ڈے ، ایک رومانوی حقیقت
تحریر : ایم افضل چوہدری
سینٹ ویلنٹائن ڈے ایک تصوراتی اور شک و شبہ میں گندھا ہوا کردار ہے۔ جو کہ عیسائیت کی تیسری صدی میں رومنوں کے عہد سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ویلنٹائن دو مختلف ادوار میں دو علیحدہ شخص تھے۔ اور یہ خیال بھی کیا جاتا ہے کہ ویلنٹائن ایک ہی شخص تھا۔ یوں رومی دور میں پادری تھا۔ اور بعد ازاں تورنی کا بشپ مقرر ہوا تھا۔ اگرچہ برطانیہ کا کوئی چرچ بھی اس نام سے منسوب نہیں ہے۔ تاہم قدیم مصوری میں اسے ایک ایسے سینٹ کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ کہ جس کے قدموں میں ایک مرگی زدہ بچہّ لیٹا ہوا ہے۔ ویلنٹائن کو مرگی کے مرض سے بچاؤ پر ولی بھی تصور کیا جاتا تھا۔ ویلنٹائن کے قتل کا اصل سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ اصنام کی پوجا سے انکاری تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ ویلنٹائن ڈے کی تقریبات کا سینٹ ویلنٹائن سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ فروری کے ایام میں چونکہ موسم تبدیل ہو جاتا تھا۔ پرندے اور جانور موسم کی مستی سے متاثر ہوتے تھے۔ اس لئے 14فروری کا دن رومی عقائد کے مطابق پیار و محبت اور رفاقتوں کا دن قرار پایا گیا تھا۔ غالباََ انہیں ایام میں سینٹ ویلنٹائن کو قتل کیا گیا تھا۔ اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ویلنٹائن کا دن کارپوریٹ بزنس سے وابسطہ افراد کی ایک کامیاب ذہنی اختراع ہے یہ ایک ایسا کاروبار ہے کہ جس میں ترقی یافتہ ممالک سے کہیں زیادہ ان ملکوں میں دھن سمیٹا ہے۔ جو ترقی پذیر ہیں۔ یہاں خواندگی کا تناسب شرمناک حد تک کم ہے۔ یہاں کے لوگ ذہنی طور پر پسماندہ اور روایت پرست ہیں۔ صحافتی زندگی سے وابسطہ ہوئے مجھے ربع صدی سے زائد عرصہ ہو رہا ہے۔ میرے سامنے کی بات ہے کہ میرے ملک میں ویلنٹائن ڈے سے بہت کم لوگ آشنا تھے۔ تب پرنٹ میڈیا اس طرح کی بے ہودگیوں کو اجاگر نہیں کرتا تھا۔ اخلاقیات کا پابند تھا۔ اور سماجی اصول و ضوابط کا ایک دھیان رکھتا تھا۔ پھر الیکٹرانک میڈیا کا ظہور ہوا۔ اور ریٹنگ کی دوڑ شروع ہو گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا نے سیم و تھور سے بھرے معاشر ے میں اپنی جڑیں جمائیں۔ اور یوں ویلنٹائن ڈے ایک جیتی جاگتی حقیقت بن گیا۔ اس دن کے معنی و مفہوم بدل گئے اس سے ایسی روایات منسوب ہوئیں جنہیں کسی بھی طور صحت مندانہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ویلنٹائن ڈے کی مدت سے تاجروں کے ہاتھ میں ہے۔ ہر سال اس دن کی آمد سے قبل کاروباری حضرات اس ادھیڑ پن میں رہتے ہیں کہ 14فروری کے دن کو کس طرح ایک وسیع تر کاروباری مقاصد کے تحت استعمال کرنا ہے۔ گلاب کے پھول اور ہیرے کی ایک انگوٹھی کی طلب اور خواہش کو کس طرح اس دن کے ساتھ وابسطہ کرنا ہے۔ اور انس و چاہت و پیار اور محبت کو غیر محسوس طریقے سے کس طرح کاروباری مقاصد کے تابع کرنا ہے۔ ویلنٹائن ڈے آج ایک ایسی صنعت کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ جس سے ہزاروں لاکھوں افراد کا روزگار بندھ گیا ہے۔ نامی گرامی تجارتی ادارے الفاظ کے ایسے جادوگروں کی مدد حاصل کرتے ہیں جو ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے ان کی پروڈکٹس کو اس طرح پیش کریں کہ انسان ویلنٹائن ڈے کے دن انہیں پانے کی شدید خواہش کرے۔ موبائل فون پر ایسے پیغامات ترتیب دئیے جاتے ہیں کہ جنہیں شئیر کرنے پر ہی موبائل کمپنیاں کروڑوں روپے کما لیتی ہیں۔ بظاہر دیکھا جائے تو دنیا کے ان معاشروں کو جہاں قدریں تلپٹ ہو رہی ہیں۔ رشتوں کا احترام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ اور محرومیوں کا احساس زور پکڑ رہا ہے۔ ویلنٹائن ڈے ایک ایسے معاشروں میں رہنے والوں کو خوش ہوا کا ایک جھونکا محسوس
ہوتا ہے۔ جب کہ یہ خشک ہوا کا جھونکا نہیں۔ ایک وقتی خط ہوتا ہے جو پانی کے بلبلے کی طرح نمو دار ہوتا ہے۔ اور لمحے میں معدوم ہو جاتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے میں مغرب میں جنم لیتے ہو ئے خود کو ان ایام کی فہرست میں نمایاں و ممتاز کروایا تھا۔ جو کسی نہ کسی موضع کی یاد آوری کے حوالے سے اہم قرار دئیے گئے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس کو موضوع کی اہمیت اپنی جگہ ساقط رہتی ہے۔ جبکہ اسے منانے کے نتیجہ میں جو کاروباری سرگرمیاں متحرک ہوتی ہیں۔ وہ یقیناًحیران کن ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس دن کے اسیر دکھائی دیتے ہیں۔ مغرب کو ان کو منانے کی بات تو سمجھ آتی ہے۔ کہ مغرب کی ترقی اور تہذیبی احساس اساطیر الاولین پر استوار ہے۔ لیکن اسلامی ممالک میں اس دن کو پذیرائی ملنا یقیناًاچمبے اور فکر کی بات ہے۔ اس لئے کہ ان ممالک کے پاس ایک آفاقی پیغام حیات ہے۔ ایک ٹھوس طرز زندگی ہے۔ اور ایک ایسا نظام ہے کہ جس کی بنیاد ہی محبت و یگانت پر رکھی ہوئی ہے۔ اسلامی ممالک میں سینٹ ویلنٹائن ڈے کی یاد منانا اس قصےّ کی یاد دلاتا ہے جو قرآن حکیم میں بیان کیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کی قوم کا آزادی حاصل کرنے کے بعد ایک ایسی بستی سے گزر ہوا یہاں کے لوگ مختلف اصنام کی پوجا کرتے تھے۔ قوم میں حضرت موسیٰ ؑ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ان اصنام میں سے کچھ اپنے ساتھ لیجانا چاہتے ہیں۔ انسانی فطرت کی اسی کمزوری سے مغرب کے تاجروں نے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ایسے کاروبار کی بنیاد رکھی جسے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی پکڑ میں لے لیا۔وطن عزیز میں اس دن کو گہما گہمی ایک کاروباری مشغلہ ہونے کے علاوہ اس ذہنی پسماندگی اور کم علمی کا نتیجہ دکھائی دیتی ہے کہ جس نے ہماری قوم کو مدت سے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ آزادی کے 70برس گزرنے کے باوجود آزادی ایک سیراب دکھائی دیتی ہے۔ اس قوم کے مرد و خواتین پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کہ زندگی کی ریت گھڑی پر وہ گہری نظر رکھیں اور سکتی ریت کے ذرے ذرے کا حساب کریں نئی نسل کی تعلیم و تربیت کا بالخصوص خیال رکھیں اور زندگی کے حقائق کو اس طرح واضح کریں کہ سینٹ ویلنٹائن کسی بھی روپ میں ان کے سامنے آئے اور وہ مرعوب نہ ہوں۔ اور اسلامی کلچر کے تحت اپنی زندگیوں کو استوار کریں۔۔
ایم افضل چوہدری