قصرِابیض میں ٹرمپ کی آمد
محمد عمار احمد
کئی ماہ سے جاری مباحثوں ،تجزیوں اورانتخابی مہم کے بعد9نومبر2016کوامریکی عوام نے اپنے صدرکاانتخاب کرلیا۔ری پبلکن پارٹی کے امیدوارڈونلڈٹرمپ کے ہاتھوں میں امریکی عوام نے باالخصوص اپنی اورباالعموم پوری دنیاکی
تقدیرتھمادی۔دنیابھرمیں اس وقت اہم موضوع ٹرمپ کی بطورامریکی صدرکامیابی ہے۔عالمی میڈیااورخودامریکی ذرائع ٹرمپ کے متشددرویوں،متنازعہ شخصیت ہونے اورسیاسی ناتجربہ کاری کے سبب قریباََ پُریقین تھے کہ وہ صدارتی انتخاب ہارجائیں گے۔ہیلری کلنٹن نرم خو،سنجیدہ ،بطور وزیرِخارجہ خدمات سرانجام دینے کے سبب تجربہ کاراوربہترامیدوار تھیں۔مگرکیاکیجئے کہ جمہوریت میں ایسی شکست کسی کوبھی ہوسکتی ہے چاہے اس کی پشت پرباراک اوباماہی کیوں نہ ہو۔
یورپ،اسلامی دنیااورسنجیدہ طبقات ٹرمپ کی جیت پرپریشان ہیں جبکہ بھارت جیسی ریاستیں خوش ہیں کہ ٹرمپ کے ساتھ معاملات بہترسمت میں چلیں گے۔اسلامی دنیاکی پریشانی بجاہے کہ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے خلیجی ریاستوں سے تعلقات پرکچھ معاملات میں نظرِثانی کی باتیں کیں جبکہ مسلمانوں کے خلاف نفرت بھرے اندازمیں تقاریرکیں۔یورپ اوردیگرسنجیدہ طبقات بھی سوچ میں پڑگئے ہیں کہ اگرٹرمپ نے مسندِ صدارت سنبھالنے کے بعداپنے متشددرویوں میں تبدیلی نہ لائی تودنیاکے حالات کس رخ پرجائیں گے۔دوسری طرف بھارت کی خوشی بھی سمجھ آتی ہے کہ اس خطہ میں ٹرمپ کوپاکستان یابھارت میں سے کسی ایک کاانتخاب کرناپڑاتووہ یقینابھارت کوہی مناسب سمجھے گا۔پاکستان کو نظراندازکرنابھی آسان نہیں مگراس صورت میں بھید بھارت سے تعلقات کی اہمیت پاکستان سے زیادہ ہوگی۔روس نے بھی خوشی کااظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ اب امریکہ سے بامعنی بات چیت ہوگی۔افغان طالبان نے مطالبہ کیاہے کہ ٹرمپ امریکی فوج کی افغانستان سے واپسی کااعلان کریں ۔
نومنتخب صدرنے کامیابی کے بعد تقریرمیں اپنے عمومی مزاج سے ہٹ کربِلاتفریق مذہب،رنگ اورنسل کے امریکہ کی خدمت کرنے کاعزم کیاجوکہ خوش آئندہے۔یہ کہناقبل ازوقت ہوگاکہ مزاج میں یہ تبدیلی وقتی ہے یاپھرپالیسی بناتے وقت بھی اسی مزاج سے کام کریں گے۔ڈونلڈٹرمپ نے جس اندازمیں انتخابی مہم چلائی وہ خاصاخطرناک اورنفرت انگیزتھایہی وجہ ہے کہ ان کی کامیابی پردنیابھرمیں تشویش کی لہردوڑگئی ہے ۔مقتدر حلقوں کے ساتھ ساتھ عوامی حلقوں کاموضوعِ گفتگوبھی یہی ہے کہ نجانے اب کیاہوگا۔؟امریکہ سے مسلمانوں کوبے دخل کرنے،مسلمانوں کوویزوں کااجراروکنے نیزنسلی تعصب پرمبنی بیانات ٹرمپ کی انتخابی مہم کاحصہ تھے۔ٹرمپ کی کامیابی پرکئی لوگوں کودکھایاگیاجودھاڑیں مارمارکررورہے تھے۔تجارتی محاذبھی خاصاسردرہاجس سے عالمی معیشت پرمنفی اثرات مرتب ہوئے۔اس قدر لوگ امریکہ سے ہجرت کرنے کے خواہش مندہیں کہ مائگریشن ویب سائٹ کریش کرگئی۔
نومنتخب صدرکوامریکی عوام اوردنیابھرکے سنجیدہ طبقات کے خدشات وتحفظات کومدِنظررکھ کرحکمتِ عملی مرتب کرناہوگی۔اگرایسانہ ہواتودنیامیں پہلے سے موجودفساد،ظلم اور نفرتیں مزیدبڑھیں گی جس کی لپیٹ میں خودامریکہ بھی آئے گا۔دنیاکے موجودہ خراب حالات کی ذمہ داری بھی امریکہ پرہے۔امریکہ ہی نے نائن الیون کے بعد صلیبی جنگ کی ابتدا کی اورافغانستان وعراق میں ظلم وبربریت کابازارگرم کیا۔امریکہ اوراس کے اتحادیوں کی غلط پالیسیوں کے سبب دنیاکوآج داعش جیسی تنظیموں کاسامنا کرناپڑرہاہے جبکہ لیبیا،شام اوریمن میں آگ وخون کاکھیل جاری ہے۔یورپ اورامریکہ بھی وقتاََ فوقتاََ اس آگ کاایندھن بنتے رہتے ہیں۔اگرٹرمپ نے موجودہ پالیسیوں کوہی جاری رکھایامتشددپالیسی اختیارکی تواس کانقصان جہاں دوسرے مذاہب اورخطوں کوہوگاوہیں امریکہ ویورپ بھی اسی آگ میں جھلسیں گے۔دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لئے تمام ممالک سے بہترتعلقات لازمی ہیں ۔
صدارتی انتخاب کے روزقصرِابیض کے سامنے ہیلری کلنٹن اورڈونلڈٹرمپ کے حامیوں کے درمیان ہاتھاپائی بھی ہوئی جویقینامہذب دنیاکی طرف سے ’’جمہوریت کے حسن ‘ ‘کااظہارتھا۔ٹرمپ بھی اپنی جیت کے واضح امکانات سے پہلے بیانات دیتے رہے کہ حالات دیکھ کرالیکشن کے نتائج تسلیم کرنے یا نہ کرنے کافیصلہ کروں گا۔دنیاکورواداری،برداشت اورجمہوریت کاسبق دینے والے اس طرح کے واقعات کی کیاتاویل پیش کریں گے۔؟یہاں امریکہ ویورپ کی تہذیب،عورتوں کی برابری کی مثالیں دینے والوں کوسوچناچاہئے کہ امریکی معاشرے کی اکثریت نے ایک عورت کومستردکرکے عورتوں کے خلاف غلط زبان استعمال کرنے ،گالیاں دینے والے اورنفرت پھیلانے والے مَردکواپناصدرکیوں بنایا۔؟پاکستانی عوام کومتشددمزاج کہنے والوں سے ایک سوال ہے کہ کیاپاکستان کی ’’تشددپسندعوام‘‘ صدر،وزیرِ اعظم توالگ کسی ایسے شخص کو صوبائی وقومی اسمبلی کی رکنیت کے لئے بھی ووٹ دے گی جو یہ نعرہ لے کر سیاست میں آئے کہ میں فلاں مذہب،فلاں فرقہ کے لوگوں کواپنے ملک سے نکال دوں گا۔؟