پسِ آئینہ
عفت
پاکستان میں چار موسموں کے علاوہ ایک موسم اور بھی ہوتا ہے جو فروری تا جون تک چلتا ہے ۔جی ہاں ہم اسے موسمِ امتحان کہتے ہیں اس موسم میں ہمارے پانچویں سے ماسٹر لیول تک کے امتحانات منعقد ہوتے ہیں ۔یہ موسم نام سے تو سخت ترین موسم لگتا ہے مگر اس کے دو ابتدائی سیشن یعنی پانچویں اور آٹھویں کے امتحان تو در حقیقت محض نام کے امتحان ہوتے ہیں ہاں اس میں ایک امتحان ضرور ہوتا ہے کہ رج رج کے ایمانداری کا جنازہ نکالا جاتا ہے ۔کافی چہل پہل کے ساتھ ہر اسکول نذرانوں کے ساتھ قومِ سوختہ کے معماروں کی رول نمبر سلپ جمع کرواتا ہے اور ساتھ ساتھ مسکرا کے مٹھی گرم کرتے ہوئے محض ایک لفظ خیال رکھیے گا کہتا نظر آتا ہے ۔اور پھر جو پروٹوکول فراہم کیا جاتا ہے اس میں نقل فراہمی بذریعہ کتاب سے لیکر موبائل تک کہ ہیڈفوں لگوا کر پیپر لکھوایا جاتا ہے اگر بچے کو سن کر زبانی لکھنا نہیں آتا تو بھی کوئی مسئلہ نہیں اس دوران اعلان کروا کر کہ کون سا بچہ لائق ہے اس کے آگے اس نالائق سپوت کا پرچہ رکھ دیا جاتا ہے کہ حل کر دو ۔قورمہ بریانی اور دیگر خورد ونوش کو فرمائشی پروگرام کے تحت زبان کام و دہن کا لطف دوبالا کیا جاتا ہے ،ہاں بھی مشقت بھی تو خوب کی اب رزقِ حرام کا لقمہ نہ ہو تو بات کیسے بنے ۔
میں نے تعلیمی سال کے آغازِ نو سے اپنی آٹھویں جماعت کے بچوں کو اس طرح نصاب میں طاق کرنے کی ٹھان رکھی تھی گو وہ محاذِ جنگ پہ جا رہے ہوں اور ہر ہر انداز سے سوال کے پیٹرن سے آگاہ کیا پورا سال کراما کاتبین کی طرح ان کے کندھوں پہ سوار رہی کہ منکر نکیر کے کوئی سوال پہ پسِ پیش نہ ہو ۔اور اللہ کا احسان اور میرے بچوں کی محنت کہ ان کی تیاری میں کسی آنچ کی کسر نہ تھی ۔بعض اوقات میرے معمارِ مستقبل سوال کرتے کہ میم ہم اتنی محنت کر رہے اگر وہاں ہر سال کی طرح نقل ہوئی تو ؟ سوال کی خوف زدگی میرا بھی دل دہلا دیتی مگر میں طفلِ تسلی دیتی بیٹا اللہ کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا ۔اور میرے معصوم بچے جنہوں نے ایک نمبر ٹیسٹ میں کم آنے پہ سرزنش سہی آج پہلے پرچے کے بعد اس قدر مایوس نظر آئے کہ ان کے دکھ پہ میرا دل خون کے آنسو رو دیا اور استاد جو ایک معمار ہے قابلِ پھانسی لگ رہا تھا۔ان کالی بھیڑوں کو استاد کہنا اس پیشہِ معلمی کی توہین ہے جسے پیشہ پیغمبری سے نسبت دی گئی ۔اربابِ اختیار کا حکم کے کسی بچے کو فیل نہ کیا جائے اسکول اپنی اس نالائقی کو چھپانے کے لیے کہ سارا سال استادوں نے کچھ نہ پڑھایا بھاری رشوت دے کر نقل کروا رہے تا کہ ان کے بڑے بڑے بینرز ان کے اسکول میں داخلے میں اضافے کا باعث بن سکیں ۔ایسے میں وہ بچہ جو محنتی ہے کس خانے میں فٹ بیٹھتا ہے ؟جس کا معصوم ذہن سوال کرتا ہے کہ میں نے محنت کی مگر میرے نمبروں سے ذیادہ اس کے نمبر کیوں جسے چیٹنگ کروائی گئی ۔سپرٹنڈنٹ سے انویجیلیٹر تک سب ان بچوں کو دھوکا دے رہے اور اپنے ہاتھوں سے مستقبل کو تباہ کر رہے مگر افسوس کوئی ان کی باز پرس کرنے والا نہیں جو ایماندار ٹیچر ہیں ان کا احتجاج تو نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے ۔بس ہمارے آنسو دل پہ گرتے جاتے ہیں اور کچھ قلم کی سیاہی کی صورت صفحہ قرطاس پہ بکھر جاتے ہیں ۔میں ایک پرائیویٹ اسکول کی ٹیچر ہوں اور بہت شکر ادا کرتی ہوں کہ گورنمنٹ کا حصہ نہیں ورنہ میرے رزق میں بھی کہیں نہ کہیں سے رزقِ حرام کا لقمہ شامل ہو جاتا ۔میری سمجھ میں نہیں آتا ہم کیوں اپنے تباہ کار آپ ہیں ،اس پہ ہم اپنے حالات کا رونا کس میں سے روتے جب کے یہ سب ہمارے اپنے اعمال ہیں وہ کیا نا جیسی روح ویسے فرشتے ،جیسی عوام ویسے حکمران ۔
میری محکمہ تعلیم سے دست بدست گذارش ہے کہ اس حقیقت پہ نظرِ کرم فرمائیں ورنہ ہم تباہی کے دہانے تک تو پہنچ ہی چکے ہیں خدارا کم سے کم اس شعبے کو تو پاک رہنے دیں ۔وہ کیوں چاہتے ہیں کہ وہ محنتی بچے جو واقعی تعلیم حاصل کر رہے محنت کر رہے وہ اس تعلیمی کرپشن سے متاثر ہو کر اس کا حصہ بن جائیں اور محنت چھوڑ دیں یا مستقبل کے ڈاکٹر انجینئر استاد کے بجائے دہشت گرد بن جائیں اور معاشرے کی اور حکومت کی بے حسی کا شکار ہو کر قلم کے بجائے ہتھیار اٹھا لیں ۔پانچویں اور آٹھویں جماعت کے بچے بہت معصوم ہوتے ہیں ان کے ذہن ان مجرمانہ سرگرمیوں کو دیکھ کہ کیا اثر لے سکتے ہر صاحبِ شعور جانتا ہے یہ خواندگی میں اضافہ نہیں بلکہ جاہلیت میں اضافہ ہے مت دیں ملک کی ڈور جاہلوں کو ورنہ ہم خسارے میں رہیں گے۔اگر گورنمنٹ شفاف امتحانات کی متحمل نہیں ہو سکتی تو بہتر ہے کہ پانچویں اور آٹھویں کے امتحان کا سسٹم موء خر کر دے ۔کم سے کم ہم بچوں کے ذہن تو محنت کی جانب سے نہ ہٹائیں ۔ اوریہی مناسب ہے ۔۔