” اودھم مچا ہوا ہے میرے مزار پر ”
انجم صحرائی
آج دل اور ذہن لکھنے کی طرف راغب ہے ۔۔ ہے نا عجیب تو ضیح نہ لکھنے کی ۔۔آ پ یقیناًحیران ہوں گے میری اس بات پر ۔۔اور سوچ رہے ہوں گے کہ بھلا لکھنے سے ذہن اور دل کا کیا لینا دینا ۔۔ سوچ آپ کی بھی درست ہے اور کہنا میرا بھی سچ ۔۔۔ دو تین عشروں قبل کی بات ہے جب غالب جوان تھا ایک اخبار کے مالک بڑے صحافی نے کرمفرمائی کرتے ہو ئے ہمیں اپنے اخبار میں کالم لکھنے کی پیشکش کی ۔۔پیشکش اور وہ بھی معقول اعزاز ئیہ کے ساتھ ۔ یقیناًیہ ہمارے لئے ایک اعزاز کی بات تھی بات طے ہو نے کے آ خری مراحل میں تھی کہ صاحب کہنے لگے صحرائی صاحب کالم روز لکھنا ہو گا …بلا نا غہ ۔۔یہ نہ ہو کہ آپ کہیں آج دل نہیں چاہ رہا ۔۔ذہن نہیں بن رہا ۔۔ان کی یہ بات سن کر ہم پسپا ہو گئے اور اعزازئیہ کے ساتھ کالم لکھنے سے معذرت کر لی کہ ایسا ممکن ہی نہیں تھا ۔۔ کم از کم ہمارے لئے تو ایسا کر نا قطعا ممکن نہیں ہے ۔
نہ معلوم کیوں ہو تا ہے ۔۔ لیکن ہو تا ہے ۔۔ کم از کم ہمارے ساتھ تو ہو تا ہے ۔۔ایک خاص موسم اور خاص کیفیت میں قلم بھی خوب چلتا ہے اور ذہن بھی اور پھر کچھ دنوں ہفتوں اور مہینوں کے لئے ایسی کیفیت ہو جاتی ہے کہ بس نہ قلم اٹھتا ہے اور نہ ذہن کے بند دریچے کھلتے ہیں مجھے ایسے دوستوں پر بڑا رشک آ تا ہے جو ہر روز ایک نیا کالم لکھتے ہیں ہر روز ان کا ذہن ایک نیا آ ئیڈ یا اور ایک نیا ایشو تلاش کر لیتا ہے میرے ان لکھنے والے دوستوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو دن میں کئی کئی بار لکھتے ہیں ان کی تحریریں بھی بڑی مقضی و مسجی ہو تی ہیں ان کے عنوانات و مو ضو عات بھی بڑے دلپزیر ہو تے ہیں ان کے ذہن کی اڑان بھی بڑی وسعت پذ یر ہو تی ہے وہ اپنی سو سائٹی کے عام ایشوز کی بجائے بین القوامی مو ضوعات پر چھ چھ سات سات صفحات کے کالم منٹوں سیکنڈوں میں لکھ مارتے ہیں ۔ایسے لکھتے ہیں کہ گویا لفظ ان کے آ گے پھولوں کی مانند ہاتھ با ندھے کھڑے ہیں اور صاحب قلم ہیں کہ چن چن کے پروئے جا رہے ہیں۔ چند ہی لمحوں میں لفظوں کی مالا "کالم "تیار اور خدا خوش رکھے سو شل میڈ یا کا ایک لمحہ ضائع کئے بغیربا ذوق قارئین کی خدمت میں پیش ۔لائیک ، کمنٹس سمیت بہت کچھ ۔
فیس بک کے ذکر پر یاد آ یا کہ” اودھم مچا ہوا ہے میرے مزار پر "کے مصداق فیس بک اور سوشل میڈ یا نے جہاں رابطے آ سان کئے وہاں اعزازات بھی اتنے سستے کر دیئے ہیں کہ اب ضرورت ہی نہیں کہ کو ئی مجھے القابات و اعزازات سے نوازے ۔ بابائے صحافت ، سینئر صحافی ، قادر الکلام شاعر ، جدید دور کی بلند آ ہنگ آ واز یہ سب اعزازت و القابات میں اپنے لئے خود تجویز کر سکتا ہوں خود تحریر کر سکتا ہوں ایسے ہی جیسے حکماء کی دکا نوں کے اشتہاری بورڈ جن پر لکھے ہو ئے افلا طون دوراں سے لے کر جا لینوس وقت تک سبھی مقام و مرتبے حکیم صاحب نے اپنے لئے مختص کئے ہو تے ہیں اور کوئی پو چھنے والا ہی نہیں ہو تا اسی طرح مجھے بھی فیس بک اور سو شل میڈ یا نے یہ حق تفویض کر دیا کہ جو چا ہوں بن جا ؤں کس کی ہمت ہے کہ کو ئی مجھے روکے یا ٹو کے ۔
آج کل اپنے حسین حقانی ایک بار پھر خبروں میں ان ہیں ۔موصوف سے ہماری بھی ایک مختصر سی ملاقات رہی یہ اس زمانے کی بات ہے جب جزل ضیاء الحق صدر پا کستان تھے اور حسین حقانی مشیر اطلاعات ۔ امریکہ روس کے خلاف بر سر پیکار تھا اور اس مقدس جہاد میں ہم امریکہ کے حلیف تھے یہ کو ئی نئی خبر تو نہیں ہے کہ ہماری حکومتیں ہمیشہ سے امریکہ نواز رہی ہیں ۔ اور یہ امریکہ نوازی تو شائد ہمیں جہیز میں ملی ہے حکمران کو ئی بھی آ یا امریکن نوازی میں کمال دکھایا ۔ ہماری سبھی حکو متوں میں یہی قدر مشترک رہی رہی کہ بر سر اقتدار آ نے والی سبھی جمہوری پارٹیوں اور آ مریت کے سر خیلوں نے ہمیشہ امریکہ بہادر کی ناز برداریاں اٹھا نے میں کبھی بخل سے کام نہیں ۔۔ اسی تنا ظر میں اگر حسین حقانی کے بیان کو دیکھا جائے تو تعجب نہیں ہو تا حقانی نے تو یہی کہا ہے نا کہ میں نے اپنی حکومت کی پالیسی کے عین مطابق سی آ ئی اے کے بندوں کو ہزاروں ویزے دیئے جس کی وجہ سے امر یکہ پاکستان کو بتائے بغیر ا سا مہ بن لادن کے خلاف کاروائی کرنے میں کا میاب رہا ۔ حسین حقانی نے یہ سچ پہلی بار تو نہیں بولا اس نے تو ایبٹ آ باد کمیشن میں بھی یہی سچ ریکارڈ کرایا تھا ۔مجھے حسین حقانی سے یا اس کے سچ سے کوئی ہمدردی نہیں لیکن بس سوال صرف اتنا ہے کہ غدار صرف حسین حقانی ہی کیوں ؟
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا