بہاول پور میں نظریاتی ورکرز
ایم آر ملک
چا چا مشہود چغتائی مجھے بہاول پور کی ایک معروف شاہراہ پر سرِ راہ ملا وہیں پر میری ملاقات آصف سے ہوئی ان دونوں میں نظریات کی قدریں مشترک ہیں آصف نے عمران کی محبت میں اپنا ایک ٹی سٹال بنا رکھا ہے جس کا نام پی ٹی آئی ٹی سٹال ہے یہ ٹی ہاؤس کم اور پاکستان تحریک انصاف کا دفتر زیادہ لگتا ہے آصف نے عمران خان کی محبت میں اس ٹی ہاؤس میں جا بجا پارٹی چیئرمین کی تصاویر لگا رکھی ہیں اس ٹی ہاؤس کے باہر ہی ایک لکڑی کے پھٹے پر مجھے چا چا مشہود ملا
ایم آر ملک
چا چا مشہود چغتائی مجھے بہاول پور کی ایک معروف شاہراہ پر سرِ راہ ملا وہیں پر میری ملاقات آصف سے ہوئی ان دونوں میں نظریات کی قدریں مشترک ہیں آصف نے عمران کی محبت میں اپنا ایک ٹی سٹال بنا رکھا ہے جس کا نام پی ٹی آئی ٹی سٹال ہے یہ ٹی ہاؤس کم اور پاکستان تحریک انصاف کا دفتر زیادہ لگتا ہے آصف نے عمران خان کی محبت میں اس ٹی ہاؤس میں جا بجا پارٹی چیئرمین کی تصاویر لگا رکھی ہیں اس ٹی ہاؤس کے باہر ہی ایک لکڑی کے پھٹے پر مجھے چا چا مشہود ملا
چاچے مشہود کی عمر 80برس ہے وہ مجھے اپنے ماضی میں لے گیا وہاں سے چند قدم کے فاصلے پر اُس نے مجھے ایک عمارت دکھائی جو اپنے ماضی کا حال بزبانِ حال کہہ رہی تھی چا چا مشہود نے کہا کہ یہی وہ عمارت ہے جس میں پہلی بار فخرِ ایشیا نے قدم رنجہ فرمائے وہ مصطفےٰ کھر کے ایک دیرینہ دوست کے ہاں تنظیم سازی کیلئے آئے جس روز ذوالفقار علی بھٹو بہاولپور آئے تو بہاول پور شہر کی کچھار میں بہنے والے دریائے ستلج سے لیکر سرائیکی چوک تک ایک بڑا کاررواں تھا جبکہ بہاول پور پورا شہر بھٹو کے استقبال کیلئے اُمڈ آیا تھا مگر بھٹو نے ایک جاگیر دار کے بجائے اپنے جانثار ورکروں موسیٰ سعید ،ملک جعفر ریحان ،یٰسین ملانہ ، چاچا مشہود کو ترجیح دی طویل سفر کی صعوبت نے بھٹو کو تھکا دیا تھا سر میں شدید درد نے چائے کا احساس دلایا تو چاچا مشہود خیر محمد چائے والے سے چائے اور اسپرو کی ایک ٹکی لیکر آئے بھٹو نے ایک ورکر کے خلوص کا پاس رکھا اور چائے نوش کی رش کی بابت اتنا کہنا ہے کہ کھوے سے کھوا چھلتا تھا یٰسین ملانہ اس رش میں گر پڑا جسے شیخ رشید جو بھٹو کے دیرینہ ساتھی تھے نے اُٹھا کر گلے لگایا یٰسین ملانہ کہتا ہے کہ بھٹو نے مجھے گلے لگا کر کہا تھا کہ میری پارٹی کا سرمایہ یہی لوگ ہیں ملک جعفر ریحان بہاولپور سے ایم این اے بنے یہ وہ دور تھا جب سیاست خدمت اور عبادت کا نام تھا ملک جعفر ریحان نے اسی بنیاد پر الیکشن لڑا اور سیاست میں سوائے نام کمانے کے کچھ نہ بنایا شاید خاندانی عمل دخل بھی تھا کہ کرپشن کو ملک جعفر جیسے قد آور افراد نے اپنے سفید اور اُجلے دامن پر دھبہ تصور کیا ملک جعفر ریحان کے نزدیک سیاست میں کرپشن ایسی برائی تھی جس کو سیاست ایک بدنما داغ سمجھتی تھی آج ایک ممبر قومی اسمبلی کی وہ عزت نہیں جو مقام ایک نظریاتی ورکر کو بھٹو نے دیا یہی وجہ ہے کہ بھٹو کی پارٹی کو کوئی آمر کوشش کے باوجود نہ توڑ سکا جنرل ضیا فخر ایشیا ء کو تختہ دار پر لٹکانے کے باوجود ایک ورکر کے اندر کے بھٹو کو نہ مار سکا ضیائی مارشل لاء میں کوڑے کھانے کے باوجود پارٹی نظریات کو موت نہ آئی چا چا مشہود ،ملک ریحان جیسے افراد پابندِ سلاسل ہو کر بھی بھٹو کے نام کی مالا جپتے رہے پھر اُس کی بیٹی نے جب پارٹی کی کمان سنبھالی تو بھی نظریاتی ورکر ایک مالا بن کر پارٹی سالار کی قیادت میں چلے محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی ملک جعفر ریحان ،چاچا مشہود ،یٰسین ملانہ جیسے ورکروں کو احساس تنہائی سے نکالا اور اُن کو اُن کے مقام کا احساس دلایا وقت اپنی چال چلتا رہا محترمہ بے نظیر بھٹو کو جنرل ضیاء کی باقیات نے نہ چلنے دیا ملتان کے ملک مختار اعوان جیسے نظریاتی ورکروں کے خلاف انتقام انتقام کا کھیل کھیلا گیا وفاقی وزیر ہو کر بھی جن کا پنجاب میں داخلہ بند تھا
27دسمبر 2007کے المناک سانحے نے نظریاتی ورکروں سے بہت کچھ چھین لیا محترمہ کی موت نے نظریاتی ورکروں کو بے یارومدد گار چھوڑ دیا اب پارٹی کی راسیں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آگئیں جس کے باپ نے ضیاء کی چھتری تلے ہونے والے85کے غیر جماعتی انتخابات میں بھٹو کے قاتل کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر الیکشن لڑا اور نواب شاہ کی فضاؤں میں یہ الفاظ حاکم زرداری کے آج بھی معلق ہیں کہ میں بھٹو خاندان کو عبرت کا نشان بنا دوں گا بیٹے نے باپ کے الفاظ کا پاس رکھا اور وہ پارٹی جس کا شیرازہ بکھیرنے کیلئے ضیاء نے گیارہ برس تک ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر ناکام رہا وہ کام آصف علی زرداری نے کر دکھایاجس بھٹو کو ایک آمر نہ مار سکا اُس بھٹو کو اُس کے داماد نے ماردیا نظریاتی ورکر وں کے لبوں پر یہ سوال کبھی نہیں مٹ سکتا کہ خالد شہنشاہ جو محترمہ کی شہادت کا آخری اہم گواہ تھا اُسے عزیر بلوچ کے ہاتھوں کیوں مروا یاگیا ؟ ورکروں نے زرداری کی قیادت کو قبول ہی نہیں کیا وہ ورکر جو بھٹو کے نام پر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے بھٹو جن کی رگوں میں لہو بن کر دوڑتا تھا وہ بھلا کسی جعلی قیادت یا جعلی بھٹو کو کیسے قبول کرتے ،بہاولپور کے موسیٰ سعید نے بھی شہید بھٹو کی پارٹی کے نشان پر الیکشن لڑا جس کی قیادت غنویٰ کر رہی ہیں وہ ورکر ز جن کے جذبات بھٹو کے قاتلوں کے خلاف انتقام بن کر دھڑکتے تھے بھٹو کی پارٹی پر مسلط جعلی قیادت نے بھٹو کے قاتلوں کے ساتھ مفاہمت کا کھیل کھیل کر اُن نظریاتی ورکروں کے جذبات کا قتل کیا اُنہیں تلاش تھی تو ایسی قیادت کی جو بھٹو کے قاتلوں اور جعلی قیادت کے خلاف نظریاتی ورکروں کے جذبات کی آبیاری کرتی عمران خان کی شکل میں وہ اُس قیادت کو دیکھ رہے ہیں جس کی اُنہیں تلاش تھی نبیل الرحمان ، رضوان ،مبشر گل عباسی ،محمد آصف اور ،چاچا مشہود چغتائی جیسے نظریاتی ورکر ز نوابوں کے شہر میں عمران خان کی حقیقی شناخت ہیں جنہوں نے بہاولپور کی یونین کونسل 16میں نواز شریف کے وفاقی وزیر کے مدقابل کھڑے ہوکر اُس کیلئے شکست کا انمٹ باب لکھا بلیغ الرحمان کے چچا نویدالرحمان کی بد ترین شکست اور شیخ رضوان الٰہی کی آبرو مندانہ فتح یقیناًنظریات کی جیت ہے
27دسمبر 2007کے المناک سانحے نے نظریاتی ورکروں سے بہت کچھ چھین لیا محترمہ کی موت نے نظریاتی ورکروں کو بے یارومدد گار چھوڑ دیا اب پارٹی کی راسیں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آگئیں جس کے باپ نے ضیاء کی چھتری تلے ہونے والے85کے غیر جماعتی انتخابات میں بھٹو کے قاتل کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر الیکشن لڑا اور نواب شاہ کی فضاؤں میں یہ الفاظ حاکم زرداری کے آج بھی معلق ہیں کہ میں بھٹو خاندان کو عبرت کا نشان بنا دوں گا بیٹے نے باپ کے الفاظ کا پاس رکھا اور وہ پارٹی جس کا شیرازہ بکھیرنے کیلئے ضیاء نے گیارہ برس تک ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر ناکام رہا وہ کام آصف علی زرداری نے کر دکھایاجس بھٹو کو ایک آمر نہ مار سکا اُس بھٹو کو اُس کے داماد نے ماردیا نظریاتی ورکر وں کے لبوں پر یہ سوال کبھی نہیں مٹ سکتا کہ خالد شہنشاہ جو محترمہ کی شہادت کا آخری اہم گواہ تھا اُسے عزیر بلوچ کے ہاتھوں کیوں مروا یاگیا ؟ ورکروں نے زرداری کی قیادت کو قبول ہی نہیں کیا وہ ورکر جو بھٹو کے نام پر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے بھٹو جن کی رگوں میں لہو بن کر دوڑتا تھا وہ بھلا کسی جعلی قیادت یا جعلی بھٹو کو کیسے قبول کرتے ،بہاولپور کے موسیٰ سعید نے بھی شہید بھٹو کی پارٹی کے نشان پر الیکشن لڑا جس کی قیادت غنویٰ کر رہی ہیں وہ ورکر ز جن کے جذبات بھٹو کے قاتلوں کے خلاف انتقام بن کر دھڑکتے تھے بھٹو کی پارٹی پر مسلط جعلی قیادت نے بھٹو کے قاتلوں کے ساتھ مفاہمت کا کھیل کھیل کر اُن نظریاتی ورکروں کے جذبات کا قتل کیا اُنہیں تلاش تھی تو ایسی قیادت کی جو بھٹو کے قاتلوں اور جعلی قیادت کے خلاف نظریاتی ورکروں کے جذبات کی آبیاری کرتی عمران خان کی شکل میں وہ اُس قیادت کو دیکھ رہے ہیں جس کی اُنہیں تلاش تھی نبیل الرحمان ، رضوان ،مبشر گل عباسی ،محمد آصف اور ،چاچا مشہود چغتائی جیسے نظریاتی ورکر ز نوابوں کے شہر میں عمران خان کی حقیقی شناخت ہیں جنہوں نے بہاولپور کی یونین کونسل 16میں نواز شریف کے وفاقی وزیر کے مدقابل کھڑے ہوکر اُس کیلئے شکست کا انمٹ باب لکھا بلیغ الرحمان کے چچا نویدالرحمان کی بد ترین شکست اور شیخ رضوان الٰہی کی آبرو مندانہ فتح یقیناًنظریات کی جیت ہے