تعلیم کی اہمیت۔۔۔مسلمان بمقابلہ یہود ونصاریٰ
تحریر ۔ا طہر علی کا لرو
اس وقت دینا کی آبادی سات ارب ہے جس میں ا یک ارب پچاس کروڑ مسلمان ہیں یہ ایک تلخ حقیقت ہے مسلمان اس وقت زبوں حالی کا شکار ہیں مسلمان دینی تشخص کے ساتھ ساتھ دنیاوئی تشخص میں اپنا وجود برقرار رکھنے میں ناکام ہو تے جا رہے ہیں .کیا مسلمانوں کی باہمی بندر بانٹ ۔غلط کاریوں کی پردہ پوشیاں۔ مسندیوں پر براجمان
قاضوں کے گردنوں کے سریے اور دبدبے۔ دین کے چوکیداروں کی اسلافی حوالہ جاتیاں ۔ ابلاغ پر ہلاکتی خبریں سنانے والیوں کے پر متبسم چہرے اور بے سمت اور بے نتیجہ ریٹنگ بڑھانے والی گپ شپیاں ۔ یہ دینا سیاست میں ہمارے مسلمانوں کے ذہنی سطح کی عکاسی کر رہی ہیں۔ ہم کیوں تعلیم ۔صحت ۔ مذہب۔معاشیات اور اخلاقیات میں دوسری قوموں سے پیچھے جا رہے ہیں۔ اس کا جائزہ لیتے ہیں ہم مسلمان اس وقت کس مقام پر کھڑے ہیں۔
آبادیات
دنیا میں یہودیوں کی کل آبادی ایک کروڑ چالیس لاکھ ہے جس کی تقسیم اس طرح ہے:
بر اعظم امریکہ میں 70 لاکھ، براعظم ایشیا میں 0 5 لاکھ، براعظم یورپ میں0 2 لاکھ اور افریقہ میں ایک لاکھ۔
جبکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی کل آبادی تقریبا ارب 50 کروڑ ہے جس کی تقسیم اس طرح ہے۔
بر اعظم ایشیا/مڈل ایسٹ میں 1 ارب ، افریقہ میں 40 کروڑ ، یورپ میں 4 کروڑ اور امریکہ میں 3 کروڑ ۔
اس طرح دنیا کا ہر پانچواں فرد مسلمان ہے۔
ہر ایک ہندو کے مقابل دو مسلمان ہیں۔
ہر ایک بدھ کے مقابل دو مسلمان ہیں۔
ہر ایک یہودی کے مقابل 107 مسلمان ہیں۔
اس کے باوجود صرف 1کروڑ 40 لا کھ ی آبادی پر مشتمل یہودی 1 ارب 50 لاکھ مسلمانوں سے زیادہ طاقتور ہیں!
ایسا کیوں ہے؟۔۔۔اس کی وجوہات میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
موجودہ تاریخ کو بدلنے والی درج ذیل سب شخصیات یہودی ہیں:
البرٹ آئن سٹائن، سگمنڈ فرائڈ، کارل مارکس، پال سیموئلسن، ملٹن فرائیڈمین۔بوہر نیل۔ وڈرو ولسن۔
میڈیکل کے شعبہ کے سنگ ہائے میل درج ذیل نام سب یہودی ہیں:
پولیو ویکسین (Polio Vaccine)،ویکسینیٹنگ نیڈل (Vaccinating Needle)،لوکیمیا کی دوا (Leukemia Drug) ہیپٹائٹس بی (Hepatitis B)، سفلس (Syphilis Drug)،نیورو مسکلر (Neuro Muscular)،Cognitive Therapy اینڈوکرینالوجی (Endocrinology)مانع حمل (Contraceptive Pill) انسانی آنکھ کو سمجھنا، ایمبریالوجی (Embryology)ڈائلسس (Kidney Dialysis)
نوبل انعام یافتگان
گزشتہ 105 سالہ تاریخ میں ایککروڑ 40 لاکھ یہودیوں میں 190 نے نوبل انعام حاصل کیے
جب کہ ایک ا رب پچاس لاکھ مسلمانوں میں صرف12 مسلمانوں نے نوبل انعام یافتگان ہوئے۔
ان تمام ایجادات کے موجد جنہوں نے دنیا بدل دی، سب یہودی ہیں:
مائکرو پروسیسنگ چپ ، نیوکلیر چین ری ایکٹر،آپٹیکل فائبر کیبل،ٹریفک لائٹس ،سٹین لیس سٹیل ساؤنڈ موویز، ٹیلیفون /مائیکروفون ،ویڈیو ٹیپ ریکارڈر،آلٹرا ساونڈ، ڈی این اے،کیمپو ٹر اور انٹر نیٹ
دنیا بھر پر چھائے ہوئے یہ سب کاروبار اور برانڈ یہودیوں کی ملکیت ہیں:
کوکا کولا ( coca-cola ) ، لیویز (Levis) ، پیپس( Pepsi) ،سٹاربکس (Starbucks) گوگل (Google)،ڈیل (DELL) کمپیوٹرز،DKNY، Baskin & Robbins،ڈنکن ڈونٹس (Dunkin Donuts)۔
بااثرعالمی ذرائع ابلاغ جو یہودیوں کی ملکیت ہیں
)Time Magazine ) ٹا یم میگزین (Washington Post ) پوسٹ )واشنگٹن ABC News اے بی سی نیوز (
فیس بک (CNN) سی این این (New York Timeنیو یارک ٹایم (
ان کے علاوہ انسان دوست وفیاض شخصیات، اولمپک گولڈ میڈلسٹ کھلاڑیوں اور شوبز کی نامور شخصیات میں متعدد نام یہودیوں کے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہودی اتنے بااثر اور طاقتور کیوں ہیں؟ مسلمان اتنے کمزور کیوں ہیں؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے علم کی تخلیق ترک کر دی۔ وہ کیسے؟ آئیے جائزہ لیں!
o پوری دنیائے اسلام (57 اسلامی ممالک) میں صرف 500 یونیورسٹیاں ہیں جن میں سے ایک بھی یونیورسٹی ایسی نہیں جو دنیا کی پہلی 500 یونیورسٹیوں میں بھی شمار ہوتی ہو۔ براعظم یورپ ،امریکہ، آسٹریلیاء ایشیا کے غیر مسلم ممالک ممالک میں 5000 تقریبا یونیورسٹیاں ہیں۔بھارت میں 800 یونیورسٹیاں ہیں۔دنیائے عیسائیت میں خواندگی کی شرح 90 فیصد ہے۔دنیائے اسلام میں خواندگی کی شرح 40 فیصد ہے۔15 عیسائی اکثریت والے ممالک ایسے ہیں جن کی شرح خواندگی 100 فیصد ہے۔بڑے دکھ کی بات ہے اس وقت مسلم دینا کا کو ئی بھی ملک شرح خواندگی 100 فیصد نہیں رکھتا، مسلم اکثریت والے کسی بھی ملک کی شرح خواندگی 51 فیصد ہے۔ عیسائی ممالک میں پرائمری تعلیم کی تکمیل کی شرح 98 فیصد ہے۔مسلم ممالک میں پرائمری تعلیم کی تکمیل کی شرح صرف 50 فیصد ہے۔عیسائی ممالک میں یونیورسٹی تک پہنچنے والوں کی شرح 40 فیصد ہے۔مسلم ممالک میں یونیورسٹی تک پہنچنے والوں کی شرح صرف 2 فیصد ہے۔عیسائی اکثریت والے ممالک میں سائنسدانوں کی تعداد 5000 افرادفی کروڑ ہے۔مسلم اکثریت والے ممالک میں سائنسدانوں کی تعداد صرف 23 افرادفی کروڑ ہے۔عیسائی اکثریت والے ممالک میں ٹیکنیشنزانجینرز کی تعداد 1000 فی ا فراد کروڑ ہے۔ پوری دنیائے عرب میں ٹیکنیشز ا نجینرز کی تعداد صرف 50 فی ا فراد کروڑ ہے۔غیر مسلم دینا تحقیق/ترقی پر اپنے GDP کا 5 فیصد خرچ کرتی ہے۔دنیائے اسلام تحقیق/ترقی پر اپنے GDP کا صرف 2 فیصد خرچ کرتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دنیائے اسلام تخلیقِ علم میں پیچھے رہ گئی ہے۔
علم کی سطح کو ماپنے کا ایک اور پیمانہ علم کی اشاعت وترویج ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیں توپاکستان میں 1000 شہریوں کے لیے 23 اخبار (روزنامہ) ہیں۔بڑی دلچسب بات یہ ہے پاکستان میں سب سے زیادہ اخبار حمام کے پیشہ سے منسلک افراد خریدتے ہیں۔جبکہ سنگاپور میں 1000 شہریوں کے لیے 360 اخبار ہیں ۔برطانیہ میں کتابوں کی اشاعت کی شرح 2000 افراد فی کروڑہے۔پاکستان میں کتابوں کی اشاعت کی شرح صرف 20 افراد فی کر وڑ ہے۔
گویا مسلم دنیا علم کی اشاعت میں بھی ناکام ہے۔
پاکستان میں ہائی ٹیک اشیا کی برآمد کی شرح 1 فیصد ہے۔سعودی عرب میں ہائی ٹیک اشیا کی برآمد کی شرح 0.3 فیصد ہے۔کویت میں ہائی ٹیک اشیا کی برآمد کی شرح 0.3 فیصد ہے۔ سنگاپور میں ہائی ٹیک اشیا کی برآمد کی شرح 58 فیصد ہے۔جاپان اور جرمنی جن کے پاس نہ قدرتی وسائل ہیں نہ یہ زرعی ملک ہیں جبکہ ان کی برآمد کی شرح 65 سے 70 فی صد ہےاس طرح اطلاق علم میں بھی مسلم دنیا بہت پیچھے رہ گئی ہے۔
یہ چشم کشا حقائق عالم اسلام کی حالت زار کا تجزیہ کرتے ہیں اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ پستی سے نکلنے کے لیے عالم اسلام کو علم، تحقیقِ علم، تخلیقِ علم پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے اپنے زیادہ سے زیادہ وسائل ’تعلیم‘ پر صرف کرنے ہوں گے۔ علم کی اشاعت وترویج اور اس کے اطلاق سے ہی عالم اسلام اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتا ہے۔
اطہر علی کا لرو ۔
0344-0500110
atharalikalroo@gmail.com