سیاسی ٹوٹکے
عفت بھٹی
زندگی بہت سے مسائل کی آماجگاہ ہے ۔مسائل ہوتے ہیں سر جوڑ کر ان کے حل تلاشے جاتے ہیں کبھی کوئی تکا اور ٹوٹکا کام آتا ہے تو کبھی کوئی جگاڑ لگ جاتا ویسے بھی پاکستانی قوم جگاڑی قوم ہے۔ایسے ایسے جگاڑ جڑتی ہے کہ واہ واہ ہو جاتی ہے۔سنتے ہیں کہ کچھ ٹوٹکوں میں شامل دیسی طریقے خوب ذود اثر ہوتے ہیں۔یوں ہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ کیوں نا سیاسی بگھار لگایا جائے دال میں کالا تو پہلے ہی ہے بلکہ دال ہی کالی ہے ۔تو جناب من ہم بھی اپنی دکان سجا لیتے ہیں۔تو جناب سب سے پہلے آپ نے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنی ہے خود پر عظیم ہونے کا ٹیگ لگائیں اور ہمت مار کر الیکشن میں کھڑے ہوں ارررے گھبرائیں نہیں جیب بھاری تے کرسی تمہاری فکر مت کریں ۔عوام کو تبدیلی کی لاٹھی سے ہنکائیں دو چار جلسے جلوس بڑھکیں ماریں کوشش کریں کہ غریب غربا نشی چرسی بک کر لیں تھوڑا سا مک مکا دو چار بریانی کی دیگیں آپ کے جلسے کے چند سو افراد کو چار پانچ ہزار میں بدل سکتے جب آپ کامیابی سے یہ کر گذریں تو سمجھیں سیاسی ہانڈی چولھے پہ چڑھ گئی اب اسے پیسے کی تیز آنچ پہ پکنے دیں ۔ساتھ ساتھ اپنی جاہلیت کو جعلی ڈگریوں میں لپیٹیں۔ چاپلوسی اور عوامی خدمت کا ورق چاندی ضروری ہے۔اس کے لیے ہر گھر کا دورہ کریں خصوصا غریب عوام کے سر پہ ہاتھ ضرور رکھیں کیونکہ عوام کا انگوٹھا ہی آپ کے سر پہ ہما بٹھائے گا۔ہاں میڈیا کو مت بھولیے گا۔کوئی چائے ناشتہ آہہم او راضی تے سب راضی۔جی لیں الیکشن ہوگئے۔کئی موئے مکے بابیاں نے بھاری اکثریت سے آپ کو کامیاب کرایا ان کو یقین تھا کہ قائد اعظم کی مسلم لیگ یہی تھی۔مبارکاں ۔
حلف برداری بھی ہو گئی ارے واہ اب ذرا خود کو بدلیں دل سے سارے ڈر نکال دیں بھئی اب آپ وزیر ہیں۔آپ کے ہاتھ لاٹھی ہے ۔خوب ہنکائیں سالی عوام کو ۔اب کوئی اپنا کام لے کر آئے تو اسے پہچاننا نہیں بلکل بھی۔یہ ووٹر اب آپ کے کام کے نہیں اب آپ نے بڑوں کو خوش رکھنا ہے۔اپنی پرواز بلند کریں کوشش کرنی کسی وزیر مشیر اور صاحب بہادر کو ناراض نہ کریں اگر وہ کہیں کاں چٹا اے تو آپ کو کاں کو کالا کہہ کے اپنا نصیب کالا کرنے کی ضرورت نہیں ۔لہذا کاں چٹا ہو یا کالا کہلاتا تو کاں ہی ہے ناں۔اور خبردار جو پروٹوکول کے بغیر باہر نکلے خوشامدی قافلہ لازم ہے۔ ورنہ تواڈی کوئی ٹور ای نئیں۔اب بیرون ملک چکر لگائیں تاکہ سوئس اکاؤنٹ کھل سکیں۔نزلہ زکام کے بہانے لندن جانے میں کوئی حرج نہیں ہاں تصویریں اور ٹویٹ کرنا مت بھولیے گا۔روزانہ کی بنیاد پہ ایک دو پھڑکتے بیان بھی لازم ہیں زرا عوام دا دل لگیا رہندا تے میڈیا کا کاروبار بھی چلتا رہتا ہے بس دھیان رکھنا ہے جب میڈیا پہ آئیں تو صاحب شعور اور دل عوام کے درد سے معمور ہو۔کیونکہ یہ بھی ایک گر ہے ۔ ایک دو عمرے بھی کر لیں تاکہ کالا دھن معاف کروا سکیں۔اب آپ آزاد ہیں رج کے لوٹیں آپ کا اپنا پاکستان ہے۔اور خبردار ضمیر نام کی چیز کو کبھی جاگنے مت دینا اسے مستقل ٹرنکولائزر پہ ہی رکھیں ہوش کرنا چاہے تو تھپکی دے دیں بھئی سیاست میں اس کا کیا کام ۔ایمانداری۔انصاف۔برابری۔اتحاد۔