ڈاکٹر کی ایک لمحہ کے لئے مجھ سے نظر ہٹی تو میں تقریبا بھا گتے ہو ئے دروازہ کھول کر با ہر نکل آیا باہر ایک گونگی عورت تھی جو نہ جانے اپنی زبان میں کیا کہہ رہی تھی میں نے اس واقعہ کی تفصیل فصل حق رضوی اور سوشل ویلفیئر آفیسر کو بتائی تو کوئی بھی یہ ماننے کے لئے تیار نہ ہوا کہ ڈاکٹر نے مجھ سے ایسا اخلاق برتا ہو گا جب میری بات کسی نے نہ مانی تو میں بھی چپ ہو رہا لیکن اسی شام جب میں اور سوشل ویلفیئر آفیسر کمیونٹی ہال میں لگے فری آئی کیمپ میں جا رہے تھے کہ اے ڈی سی جی شیخ شمش الدین کی گاڑی ہمارے پاس آ کر رکی اور ہمیں کہا گیا کہ گاڑی میں بیٹھو۔
ہم گاڑی میں سوار ہوئے تو دیکھا کہ مہر اقبال سمرا بھی گاڑی میں موجود تھے گاڑی ہمیں شمع میڈ یکل سٹور پرلے آئی جہاں سے فری آئی کیمپ کے لئے ادویات خریدی جا رہی تھیں اے ڈی سی جی فری آ ئی کیمپ کو فراہم کی جانے والی ادویات کا پورا ریکارڈ اپنی تحویل میں لے لیا اور گاڑی کا رخ فری آئی کیمپ کی طرف مڑ گیا۔ فری آئی کیمپ کو لگے غالبا چار روز ہو چکے تھے لیکن سوائے مریضوں کی رجسٹریشن اور ایڈمشن کے ایک بھی آپریشن نہیں ہواتھا۔ جیسے ایک نو جوان نے مجھے بتایا اسی طرح شائد فری آئی کیمپ بارے یہی گذارشات کسی نے مہر اقبال سمرا جو کہ ہماری ٹیم کے ایک سینئر اور متحرک ممبر تھے کو بھی پیش کی ہوں گی مہر اقبال پہلے ہی ڈاکٹر کی کار کردی پر خا صے تحفظات کا اظہار کر چکے تھے انہوں نے یہ صورت حال اے ڈی سی جی کے گوش گذار کی جنہوں نے فوری کاروائی کرتے ہو ئے صورت حال کو ما نیٹر کر نے کا فیصلہ کیا۔
جب ہم سب کیمپ میں پہنچے ڈاکٹر اپنے کمرے میں مریض دیکھ رہے تھے اور ڈسپنسر آ پریشن کی تیا ریوں میں مصروف تھے ڈاکٹر نے اے ڈی سی جی کو بتا یا کہ لا ہور سے جو آ لات اور سامان آ نا تھا وہ آج دو پہر ہی پہنچا ہے اور آ ج شام سے آ پریشن شروع ہو جا ئینگے۔ آپریشن تو ہوئے مگر رزلٹ کے اعتبار سے مریضوں کی اکثریت غیر مطمئن تھی۔ غیر تسلی بخش کار کر دگی کے سبب ایک بار پھر اے ڈی سی جی نے فری آ ئی کیمپ کا دورہ کیا اور ڈاکٹر سے کہا کہ وہ اس ایک ہفتے سے زیادہ لگے کیمپ کو کلوز کرے ڈاکٹر نے دو سرے ہی دن فری آ ئی کیمپ کیمونٹی سنٹر سے ایک معروف سیاستدان کے ڈیرے پر منتقل کر لیا اور کچھ دنوں کے بعد پتہ چلا کہ ڈاکٹر موصوف بھکر میں فری آئی کیمپ لگائے ہو ئے ہیں۔
اب بھکر والوں نے ڈاکٹر کی خدمات سے کتنا استفادہ کیااس کی تو خبر نہیں مگر لیہ کے لوگ آج بھی جب اس فری آئی کیمپ کا ذکر آتا ہے کانوں کو ہاتھ لگا تے ہیں اگر کسی کو میری بات کا یقین نہ آئے تو ہمارے دوست شیخ مجید سے مل لے جنہیں آج بھی ہم سے یہی شکا یت ہے کہ ان کے مرحوم والد کی آنکھیں اسی فری آ ئی کیمپ میں کھو گئی تھیں جس کے انعقاد کے ذمہ داروں میں سے ایک ہم ہیں۔ فری آئی کیمپ میں مفت خد مات انجام دینے والے ان ڈاکٹر صاحب سے میری دو سری ملاقات اس وقت ہو ئی جب وہ بحیثیت اے ڈی ایچ او چو بارہ لیہ میں تعینات ہو ئے۔ اس زمانے میں چو بارہ میں تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی بلڈ نگ زیر تعمیر تھی۔
اس زما نے میں کہا جاتا تھا کہ تحصیل سطح پر بننے والا یہ ہسپتال رقبہ اور عمارت کے لحاط سے ایک بڑا ہسپتال تھا ۔ ہسپتال کی بلڈ نگ کئی سالوں سے مکمل تھی مگر محکمہ صحت کو اس بلڈ نگ کے حوالی سے کئی تحفظات تھے جس و جہ سے محکمہ صحت ٹھیکیدار کو این او سی جاری نہیں کر رہا تھا جس وجہ سے ٹھیکیدار کی گردن پھنسی ہو ئی تھی ۔ ڈاکٹر مو صوف کے اے ڈی ایچ او چو بارہ کا چارج سنبھالنے کے چند ہی روز بعد مہینوں سے یہ اٹکا معا ملہ حل ہو گیا اور ٹھیکیدار کو محکمہ صحت نے این او سی جاری کر دیا با خبر حلقوں میں یہ بات عام ہو ئی کہ ٹھیکیدار کو این او سی جاری کر نے کے لئے اے ڈی ایچ او نے خوب ہا تھ رنگے ۔ خبریں بھی لگیں مگر ہوا کچھ بھی نہیں۔
پھر اسی ڈاکٹر صاحب بارے یہ خبر بھی پڑ ھنے کو ملی کہ مو صوف ایک ہی وقت میں تین مختلف اضلاع میں بطور اے ڈی ایچ او ڈیو ٹی انجام دیتے ہیں اور تینوں اضلاع سے تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں یہ سکینڈل شا ئد زیادہ مشکل تھا اسی لئے بعد میں ڈاکٹر مو صوف سے نہ تو ملنے کا اتفاق ہوا اور نہ ہی ان کے بارے کو ئی اطلاع ملی۔ ایک عر صے بعد پتہ چلا کہ ڈاکٹر مرحوم ہو چکے ہیں خدا کرے یہ خبر غلط ہو مگر میں نے اسی سبب ان کا نام لکھنے سے احتراز کیا ہے۔
لیہ شہر کی تر قی میں سمرا برادران کی سیا سی جدو جہد کا اعتراف نہ کر نا ایک بڑی بد یا نتی ہو گی ۔ مہر منظور حسین سمرا ذو الفقار علی بھٹو کی پیپلز پا رٹی کے لیہ سے بننے والے پہلے ایم این اے تھے ۔ میں شا ئد پہلے تحریر کر چکا ہوں کی ان الیکشن میں میرا سیا سی تعلق جما عت اسلا می سے تھا اور جب ملک منظور حسین سمرا پی پی پی کے امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑ رہے تھے میں ان کے مخالف امیدوار جماعت اسلا می کے مو لا نا محمد افضل بدر کا کوٹ سلطان میں پو لنگ ایجنٹ تھا۔
پی پی پی کے مہر منظور حسین سمرا کا اصل مقا بلہ جمیعت العلماء پا کستان کے امیدوار پیر محمد عبد اللہ عرف پیر بارو سے تھا جو علا قہ تھل کی معروف رو حانی شخصیت تھیں بظا ہر پیر محمد عبد اللہ عرف پیر بارو او ر پی پی پی کے مہر منظور حسین سمرا کا یہ مقا بلہ کو ئی مقا بلہ ہی نہیں تھا چو نکہ عوام میں ایک بڑی رو حانی شخصیت ہو نے کے نا طے پیر محمد عبد اللہ عرف پیر بارو ایک بڑی شخصیت اور مضبوط امیدوار تھے مگر شا ئد یہ پیلپز پا رٹی کے با نی ذو الفقار علی بھٹو کی کر شما تی شخصیت کا اثر تھا کہ پیر بارو ہار گئے اور مہر منظور حسین سمرا جیت گئے ۔
یہ میرا تجزیہ ہے مگر اپنی جیت کے حوالے سے مہر منظور حسین سمرا کا موقف قدرے مختلف تھا ۔ مہر منظور حسین سمرا سے میری پہلی با ضابطہ ملاقات ملتان کے عزیز ہوٹل میں ہو ئی ان دنوں میں اخبار روزنانہ امروز کی ایجنسی ستار اے حامد نیوز ایجنسی ملتان میں ملازم تھا ۔ میں کسی کام کے لئے عزیز چوک گیا ہوا تھا جہاں میں نے ایم این اے مہر منظور حسین سمرا کو عزیز ہو ٹل کے ڈائینگ ہال میں بیٹھے دیکھا صبح کا وقت تھا اور وہ اکیلے ڈائینگ ہال میں بیٹھے ۔ وہ پینٹ شرٹ میں ملبوس تھے ۔ عزیز ہو ٹل ان دنوں ایک آباد ہو ٹل ہوا کرتا تھا میں انہیں دیکھ کر ان سے ملنے کے لئے ڈائینگ ہال میں چلا گیا اور ان سے ملاقات کی۔
تعار ف کے بعد مہر منظور حسین سمرانے بڑے پر جوش طر یقہ سے مجھے خاش آ مدید کہا۔ میرے لئے شپیشل چائے کا آرڈر دیا دوران گفتگو کہنے لگے کہ یقینا میری کامیابی میں پیپلز پارٹی کی جانب سے مجھے ٹکٹ ملنا میرے لئے ایک پلس پوائینٹ ہے لیکن آپ جا نتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے پورے ملک میں انتخابی دورے کئے پی پی پی کے امید واروں کے جلسوں سے خطاب کئے مگر وہ بو جوہ لیہ نہیں آ سکے ہم نے اپنے منہ سر پر الیکشن کمپین کی انتخاب لڑا اور جیتا ۔ اس جیت کے پیچھے میرے خاندان اور میرے بزر گوں کی صد یوں پرا نی عوا می خد مات ہیں مجھے ووٹ دے کر جن کا عوام نے اعتراف کیا یہ کہنا کہ میں صرف پی پی پی کے امیدوار ہو نے کی وجہ سے جیتا ہوں غلط ہو گا بلکہ میری اس جیت میں میرے خاندان کی عوامی خد مت کا بھی ایک بڑا کردار ہے ۔ مہر منظور حسین سمرا سے ڈائینگ ہال عزیز ہو ٹل ملتان سے جڑا مجھ سے یہ تعلق مہر منظور حسین کی وفات تک رہا۔
جن دنوں مہر منظور حسین سمرا ما رکیٹ کمیٹی کے چیئر مین تھے مجھے صبح پا کستان کے لئے ان سے انٹرویو لینے کا مو قع ملا علا قا ئی حوالے سے یہ ایک تا ریخی انٹرویو ہے جس میں مہر منظور حسین سمرا نے بڑے کھل کھلا کر با تیں کی تھیں ، مہر منظور حسین سمرا کے چھوٹے بھا ئی مہر فضل حسین سمرا بھی سیاست میں ہمیشہ متحرک و فعال رہے بلدیہ کی کو نسلرشپ سے اپنے سیا سی سفر کا آ غاز کیا کئی بار ایم پی اے منتخب ہو ئے پا رلیما نی سیکریٹری رہے۔ پی پی پی ،تحریک استقلال ، مسلم لیگ ( ن )، مسلم لیگ (ق) اور اب تحریک انصاف سیاست کی سبھی شا ہرائوں کے
مسا فر رہے۔
یادش بخیر ہماری سیاسی تاریخ میں پاکستان عوامی اتحاد کے نام سے ایک انتخابی اتحاد بھی و جود میں آ یا تھا۔ پاکستا ن عوامی اتحاد میں مسلم لیگ (جو نیجو گروپ ) جمیعت العملما ء پا کستان (نورانی گروپ ) اور تحریک استقلال پر مشتمل تھا ۔یہ شا ئد 1988 کے الیکشن تھے ۔ سیاست کے کھیل بھی نرالے ہو تے ہیں ابھیپاکستا ن عوامی اتحاد کے قیام کے حوالے سے اخبارات میں شا ئع ہو نے والی خبروں کی باز گشت بھی ختم نہ ہو ئی تھی کہ مسلم لیگ (جو نیجو ) اتحاد سے علیحدہ ہو گئی اور یوں یہ الیکشن شاہ احمد نورانی کی جمیعت العلماء پاکستان اور ایئر مارشل محمد اصغرخان کی تحریک استقلال نے مل کر لڑا ۔ جب تک مسلم لیگ جو نیجو گروپ پاکستا ن عوامی اتحاد کا حصہ تھی اس وقت تک سیا سی پو زیشن بہت اچھی تھی اور ٹکٹ کے خواہشمندوں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی مگر جو نہی یہ خبر سا منے آ ئی کہ جو نیجو گروپ علیحدہ ہو گیا ہے یہ انتخابی اتحاد کمزور پو زیشن میں چلا گیا۔
صو با ئی اسمبلی کے لئے لیہ سے میں اور شیخ نذر حسین ایڈ وو کیٹ تحریک استقلال کی طرف سے صو با ئی اسمبلی کے پارٹی ٹکٹ کے خوا ہشمند تھے ۔ قرعہ فال شیخ نذر حسین ایڈ وو کیٹ کے نام نکلا جب کہ قو می اسمبلی کے لئے جمیعت العلماء پاکستان کے پیر سید خورشید احمد بخاری امیدوار قو می اسمبلی تھے۔یہ شا ئد 1988 کے انتخابات تھے ۔قومی اسمبلی حلقہ 139 سے پا کستان عوامی اتحاد کے پیر خور شید احمد بخاری کے علاوہ پیپلز پارٹی کے ملک نیاز احمد جکھڑ ۔ سردار غلام فرید خان مرانی ۔پیر فیض الہی شاہ بخاری ، قاری کفا یت اللہ ۔ذوالفقار خان نیازی اور ڈاکٹر مظہر علی خان ملک بھی امیدوار تھے ۔چو نکہ تحریک استقلال پا کستان عوامی اتحاد میں شا مل تھی اور میں ان دنوں تحریک استقلال پنجاب کے جوائینٹ سیکریٹری کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کر رہا تھا اس لئے ہم بھی پیر خورشید احمد بخاری کے کارکن بن گئے ۔کہا جا سکتا ہے کہ مجھے انہی دنوں الیکشن مہم کے دوران پیر خورشید احمد بخاری کی طویل رفاقت کا مو قع ملا ۔ ۔ ۔۔۔ با قی اگلی قسط میں