شب و روز زندگی قسط 35
تحریر : انجم صحرائی
کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد اگلا مرحلہ کاغذات کی جانچ پڑتال کا تھا اس مو قع پر مجھے ایک بار پھر دوبارہ شیخ شمش الدین ایڈ یشنل کمثنر کی عدالت میں پیش ہو نا پڑا ۔ جہاں مجھے حکم ملا کہ میں حاکم موصوف سے مل کر جا ئوں ۔ کا فی دیر کے بعد جب اے ڈی سی جی فارغ ہو کراپنے ریٹائرنگ روم میں آئے تب میری طلبی ہو ئی میں اس وقت عدالت کے باہر برگد کے درخت تلے شیخ محمد فاروق ایڈ وو کیٹ مرحوم کے اوپن چیمبر میں بیٹھا تھا میں اے ڈی سی جی سے ملنے ان کے ریٹائرنگ روم میں گیا تو وہ بڑے پر تپاک طریقے سے ملے گرمجو شی سے مصافحہ کیا اور پو چھا کہ الیکشن مہم کیسی جا رہی ہے ؟ میں نے کہا “در وٹ ” میرا جواب سن کر بہت حیران ہو ئے کہنے لگے کہ یہ کیا “در وٹ ” کا مطلب ؟ان کی مادری زبان اردو تھی اور وہ شا ید اسی لئے سرا ئیکی لفظ “در وٹ ” کا مطلب سمجھ نہیں پا ئے تھے میں نے اپنا دایاں ہاتھ ان کی طرف بڑھاتے ہو ئے کہا سر اپنا ہاتھ دیں
انہوں نے اپنا ہا تھ مصا فحہ کے انداز میں میری طرف بڑھایا تو میں ان کا ہاتھ کا اپنے ہاتھ میں لے کر قدرے دبا تے ہو ئے دائیں آ نکھ مارتے اور اپنے سر کو دائیں طرف قدرے جھٹکے سے ترچھا اوپر نیچے کرتے ہو ئے کہا “در وٹ ” اس کا مطلب ہے چپ رہ کسی کو بتانا نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں شیخ صاحب میرے اس پا گل پنے سے خا صے اکتا چکے تھے جھٹکے سے اپنا ہا تھ چھڑایا اور زور سے بو لے ” ہوں ” میں نے کہا جی ایک اور لفظ شنا شا بھی ہوا ہوں میں اس الیکشن مہم میں اور وہ ہے ” بٹوا “اور یہ ” بٹوا “بھی ” در وٹ ” کا ہی ہم معنی ہے شیخ صا حب میری ان تشریحات سن کر نہ تو وہ مسکرائے اور نہ کچھ بو لے بس بڑی گہری نظروں سے کہیں دور خلا ئوں میں تکتے رہے ۔۔اس واقعہ کو بتیس سال گذ ر نے کو ہیں لگتا ہے کہ ہم آج بھی اسی ” در وٹ سیا سی تہذ یب ” کا لا شہ اپنے کند ھوں پر اٹھا ئے قو می سفر کر رہے ہیں آ ج بھی ہم میں اتنی جرات اور ہمت نہیں آ ج بھی ہم اتنے سچے اور کھرے نہیں کہ بر ملا سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہہ سکیں ۔ آ زادی کے پہلے دن سے آج تک کا ہم نے اپنا سارا قو می سفر ایک دوسرے کا ہاتھ دبا تے ، آنکھیں مار تے اور دائیں با ئیں سر جھٹکتے ہو ئے “در وٹ اور بٹوا “کہتے گذار دیا میں سمجھتا ہوں کہ انقلاب اور تبد یلی کے سارے نعرے یہاں اسی لئے گم ہو جا تے ہیں کھو جا تے ہیں دھند لا جا تے کہ ہم آج بھی اسی “دروٹ رویے “کو سینے سے لگا ئے ہو ئے اپنا ئے ہو ئے ہیں .
بلدیا تی انتخا بات میں ہم نے تو نا کام ہی ہو نا تھا کہ “مرے تھے جن کے لئے وہ رہے وضو کرتے”کا میاب وہ ہو ئے جنہیں ووٹروں نے ووٹ دیئے ۔حلقہ 15 ضلع کو نسل کے انتخابات میں پیر فیض الہی شاہ اور سردار حسنین خان تنگوانی کا میاب ہو گئے ۔ہم ہارے تو سہی مگر ضلع کو نسل کا یہ الیکشن ہمیں علا قے میں ایک مذا حمتی سیا سی کار کن کی حیثیت سے روشناش کرا گیا ہمارے لئے یہ تجربہ خا صا حو صلہ افزا رہا نتائج بھی خا صے انہو نے تھے کوٹ سلطان میں اندرون شہر ہم سب وارڈوں میں سب سے آ گے رہے البتہ بستی منجو ٹھے والے وارڈ میں ہمیں خا صے وو ٹوں شکست ہو ئی ۔ پو رے حلقے میں ہم بڑے بڑے سکہ بند امیدواروں کے تعاقب میں رہے مگر ہار تو ہار ہو تی ہے ہم بھی ہارے مگر ہم ان نتا ئج پر بھی بہت خوش تھے کہ ہمیں حلقہ کے ہر پو لنگ سٹیشن پر ووٹ ملے معقول حصہ ملا اتنا معقول کہ لوگ ہمیں امیدوار ما ننے لگے۔
شیخ شمش الدین ایک ہنستے مسکراتے آ فیسر تھے عام لو گوں سے ان کا رویہ بہت عوامی ہوتا تھا ۔ اس زمانے میں ہم بھی بہت متحرک ہوا کرتے تھے سیاسی ، سماجی اور ادبی محاذوں پر ۔میری ان سے پہلی با ضابطہ ملاقات کوٹ سلطان تھا نے میں ہوئی ۔ ہوایوں کہ غالبا شب برات کا دن تھا نشیب کا ایک نو جوان جس کی شادی کو چند دن ہی گذ رے تھے اپنی بیوی کے ہمراہ اپنے سسرال شب برات منا نے آ یا ۔ ان کے سسرال کا ایک گھر پیر جگی اڈے کے ساتھ نئی بننے والی آبادی میں زیر تعمیر تھاآج کل تو یہ علاقہ خا صا گنجان ہو گیا ہے اس زمانے میں کا شتہ زمین کے آ س پاس کہیں کہیں اکا دکا مکان تھے یا پھر زیر تعمیر تھے ، خیر وہ میاں بیوی زیر تعمیر مکان کو دیکھنے اور دو پہر گذارنے وہاں چلے گئے جب وہ نو جوان شادی شدہ جوڑا زیر تعمیر مکان میں داخل ہو رہا تھا کسی غیرت مند نے دیکھ لیا بعد میں پتا لگا کہ وہ غیرت مند پو لیس مخبر بھی تھا اس نے مقا می پو لیس کو اطلاع کر دی کہ ابھی ایک نو جوان لڑ کا ایک لڑکی کو اپنی سا ئیکل پر بٹھا کر لا یا ہے اور وہ اس مکان میں مو جود ہیں۔
پو لیس بہادر کے لئے اپنی کاروائی دکھا نے کا اس سے بہتر مو قع کیا ہو سکتا تھا اطلاع ملتے ہی پو لیس کے دو بہادر سپا ہی خان وہاں پہنچ گئے مکان کا دروازہ بند تھا مو قع واردات پر دو پہر میں زیر تعمیر مکان کے بند دروازہ جرم کی نو عیت ظاہر کر رہا تھا سو پو لیس کے نکے سپا ہیوں نے وہی کیا جو ایسے حالات میا کر نا چا ہئیے تھا ایک سپا ہی خان نے دیوار پھلا نگی اور صحن میں کود گیا اور زیر تعمیر کمرے کے اندر مو جود میاں بیوی کو رنگے ہا تھوں مو قع واردات سے گرفتار کر لیا شور شرابا سن کر محلے کے چند اور لوگ بھی اکٹھے ہو گئے ۔ نو جوان جو ڑے نے بہت وا ویلاکیا کہ ہم میاں بیوی ہیں انہوں نے شہر میں رہنے والے اپنے رشتہ داروں کے حوالے دیئے مو قع پر مو جود کچھ لو گوں نے بھی دبی زبان میں ان کی تا ئید کی مگر قا نون حرکت میں آ چکا تھا
قانوں کی ایک ہی ڈیمانڈ تھی کہ تھا نے چلو وہاں اپنا نکاح نا مہ تھا نیدار کے حضور پیش کرنا اور چھوٹ جانا ہمارڈ یو ٹی تو تمہیں تھانے لے جا نا ہے اب مسئلہ یہ در پیش ہوا کہ دو پو لیس والوں کے پاس مو ٹر سا ئیکل ایک اور ملزمان سمیت بندے چار ۔ سو طے یہ پا یا کہ ایک سپا ہی خان خاتون کو موٹر سا ئیکل پر بٹھا کر تھانے لے جائے اور دوسرا سپا ہی خان مرد کو ساتھ لے کر تھا نے آ ئے ۔مو قع پر مو جود لو گوں کے مطا بق موٹر سا ئیکل پر خاتون کو تھانے لے جانے کے معا ملے پر قا نون کے رکھوالوں میں مو قع واردات پر لو گوں کے سا منے اختلاف رائے بھی ہوا اور منہ ماری بھی چو نکہ دو نوں ہی یہ فرض ادا کر نا اپنا حق سمجھتے تھے ۔ خیر جو ڑے کو تھانے لے جایا گیا اسی اثنا میں پو لیس حراست میں لئے گئے جو ڑے کے ر شتے دار بھی تھا نے پہنچ گئے انہوں نے بھی بہتیرا کہا کہ یہ لوگ شادی شدہ ہیں مگرتھانے میںمو جود ڈیو ٹی آ فیسر کا کہنا تھا کہ نکاح نا مہ دکھا دیں اور ملزمان لے جا ئیں نہیں تو قانون اپنی ذ مہ داریاں پو ری کرے گا ۔نو جوان کا گھر نشیب میں دریا کے کنارے واقع تھا جو شہر سے خا صا فا صلہ بنتا تھا اس زما نے میں نہ تو مو بائل تھے اور نہ ہی نشیب میں پکی سڑ کیں ۔ ایک بندے کو موٹر سا ئیکل پر روانہ کیا گیا کہ وہ جا ئے اور ان کے گھر سے نکاح نا مہ لے آ ئے ۔جب اس واقع کی خبر شہر والوں کو ملی تو شہریوں کی ایک بڑی تعداد تھا نے کے سامنے اکٹھی ہو گئی۔
لوگوں کے ہجوم نے احتجاج کی شکل اختیار کر لی ۔ ڈاکٹر شا ہنواز سر گا نی اور عابد فارو قی سمیت بہت سے معززین بھی ان میں شا مل تھے اس زما نے میں چو ہدری محمد شفیع ایس پی ہوا کرتے تھے انہیں اور ضلعی انتظا میہ کو جب ان بگڑے حالات کا پتہ چلا تو انہوں نے اے ڈی جی سی شیخ شمش الدین اور ایک ڈی ایس پی کی ڈیو ٹی لگا ئی کہ وہ کوٹ سلطان جا ئیں اور حالات کو کنٹرول کریں ۔ یہ آ فیسرز کوٹ سلطان تھا نے پہنچ گئے پو لیس کی مزید نفری بھی ان کے ساتھ تھی ۔ تھانے کے باہر شہریوں کی ایک بڑی تعداد جمع تھی گو یہ لوگ خاموش تھے مگر حالات اور جذ بات ایسے تھے کہ کسی بھی وقت حالات قا بو سے باہر ہو سکتے تھے شیخ شمش الدین نے تھا نے آ تے ہی شہریوں میں سے چند لو گوں کو تھانے میں بات چیت کے لئے بلا لیا ملاقات کر نے والے وفد میں ہم بھی شا مل تھے انہیں سارے واقعات سے آ گاہ کیا گیا ہماری باتیں سن کر انہوں نے بغیر نکاح نا مہ دیکھے تھا نے میں مو جود نو جوان میاں بیوی کو گھر جانے کی اجازت دے دی اور ساتھ ہی ان دو سپا ہیوں کے خلاف تحقیقات کے کے لئے مقا می ضلعی پو لیس حکام کو بھی تحریری شفارش کی ہو نے والی تحقیقات کے نتیجہ میں وہ دونوں پو لیس کانسٹیبلان معطل بھی ہو ئے ۔ یہ تھی ہماری شیخ شمش الدین اے جی ڈی سی سے ہماری پہلی با ضا بطہ ملا قات .۔
شیخ شمش الدین اے جی ڈی سی سے جڑے دو اور واقعات بھی ہیں میرے شب و روز میں مگر پہلے ان واقعات کا پس منظر آپ کو بتاتا چلوں ،میں نے پہلے کسی قسط میں لکھا ہے کہ میں آ پ سے انجمن فلاح و بہودی مریضان کے حوالے سے اپنی چند نا خوشگوار یادیں بھی شیئر کروں گا وہ کچھ یوں ہیں کہ جب ہم نے انجمن فلاح و بہودی مریضان قا ئم کی اور سما جی بھلا ئی کے کام کا آ غاز کیا اس ز ما نے میں لیہ میں پرویز خان سو شل ویلفیئر آ فیسر تھے ایک دن وہ ہمارے آ فس آ ئے اور کہا کہ چو ہدری نصیر جو محکمہ زکواة عشر مظفر گڑھ کے کو ئی آ فیسر تھے لیہ آ رہے ہیں آپ کی آ ر گنا ئزیشن گو رجسٹرڈ نہیں ہے مگر آپ ایک مثا لی کام کر رہے ہیں میں چا ہتا ہوں کہ وہ ہسپتال کا وزٹ بھی کریں اور ہم انہیں آپ کی اس کار کردگی بارے بھی بریف کریں جو ہمارے لئے بہت قا بل فخرہے میں نے کہا بسر و چشم پروگرام کے مطا بق چو ہدری نصیر اور پر ویز سو شل و یلفئیر آ فیسر ڈی ایچ کیو میں انجمن فلاح و بہودی مریضان کے دفتر میں آ ئے
میں اپنے چند دوستوں کے ہمراہ وہاں مو جود تھا میرے ساتھ سینئر صحا فی حمید سلیمی بھی تھے میں نے ان مہما نوں کو انجمن فلاح و بہودی مریضان کی تنظیم اور کار کر دگی بارے بریف کیا جواب میں مظفر گڑھ سے آ ئے ہو ئے مہمان نے ہماری کا وشوں کی تعریف اور تا ئید کرتے ہو ئے محکمہ زکواة عشر کمیٹی کی جانب سے انجمن فلاح و بہودی مریضان کے لئے 15 ہزار روپے کا چیک ہمیں پیش کیا محکمہ زکواة عشر پنجاب کی طرف سے یہ رقم مستحق امداد مریضوں کے علاج و معا لجہ کے لئے تھی ۔۔
انجم صحرائی