شب و روز زندگی قسط 15
تحریر : انجم صحرائی
میں بیتے دنوں میں جھانکتا ہوں تو بہت ہی عجیب سا لگتا ہے کہ ہمارے اس دور میں بننے والے بے روزگار چوپال کے سبھی دوست شا ئد ساری عمر ہی اسی فلسفہ پہ کا ربند رہے۔ وہ شیر محمد خان ہوں ، عبد الرزاق راہی ہوں، سعید اختر یا پھر انجم صحرائی ہماری نہ تو کبھی وقت کے سیا سی ابو الہلو لوں سے بنی اور نہ ہی سرکار ی پرو ہتوں سے ہمیں ہا تھ ملا نے اور ان کے سا تھ تصویریں بنا نے میں عزت افزائی محسو س ہو ئی ۔عام آدمی سے محبت کی عام آدمی کی بات کی اور عام آ دمی کے حقوق کی لڑائی لڑی بس یہی اپنا چلن رہا ۔ عملی زندگی کی نصف صدی مجھے یاد نہیں کہ میں نے بحیثیت سیا سی کارکن کبھی کسی ڈیرے پر حاضری دی ہو یا پھر کسی سردار ، پیر ، خان ، ملک اور وڈیرے کے انتخا بی دھمال میں حصہ لیا ہو ۔ یہ نہیں کہ ہماری اس قبیلے کے سبھوں سے لڑائی رہی یقینا ان میں کچھ ہمارے ہمدرد اور بہی خواہ بھی ہو تے تھے مگر عام آ دمی کے حقو ق اور مسائل کے حوالے سے بااقتدارو با اختیار قو تیں ہمیشہ ہی ہمارا ہدف رہیں ۔ تقریر میں بھی اور تحریر میں بھی یہی وجہ ہے کہ بقو ل علا مہ اقبال
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگا نے بھی نا خوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
خدا گواہ ہے کہ ہمیں کسی بندے کو راضی کر نے کا ڈھنگ ہی نہیں آیاہم نے خوب زند گی گذاری جب کما نے کا سیزن آ تا ہم صحا فی سے سیاست دان بن جاتے الیکشن کے زما نے میں جب سبھی اپنی اپنی بساط کے مطا بق سیزن کما رہے ہوتے تھے ہم میدان سیا ست میں مقا بلے کے سبھی سور ما ئوں کے مقا بلے میں بقو ل خود جہاد کر رہے ہو تے تھے اور جب سیزن ختم ہو جاتا ہم صحافت کا قلم کاغذ لئے سو چتے کہ جا ئیں تو جا ئیں کہاں کہ ہمارے مقا بل امیدواروں میں سے ہی کسی کے سر پر اقتدار کا ہما بیٹھا ہو تا ۔ عام آدمی کا سیاست کر نا اور پھر خالصتا اپنے قبیلے یعنی عام آ دمی کی سیا ست کر نا بہت مشکل کام ہے ہمارے سماج میں نظریات کی بات کرنا ،نظریات کی بات سننا اور نظریات کا سا تھ دینا جو ئے شیر لا نے کے مترادف ہے۔ بات ہو رہی تھی ستر کے دہا ئی کی۔ اس زما نے کی مزدور تنظیمیں بھی بہت سر گرم اور متحرک و فعال تھیں لیہ میں۔ مطلوب قریشی ٹا نگہ یو نین کے صدر ہوا کرتے تھے اس وقت شہر میں چلنے والے ٹا نگوں کی تعداد بلا شبہ سینکڑوں میں تھی کچھ آ ٹو رکشہ ا بھی تھے مگر چنگ جی اور چا ند گا ڑی کا رواج نہیں تھا ۔ شہر کے مکینوں میں سے چند کے پاس مو ٹر کا ریں تھیں زمیندار اور وڈیرے عمو ما کھلی چھت کی جیپیں استعمال کرتے تھے ۔شو گر مل کی یو نین میں اقبال مشہدی اور ملک غلام حیدر لنگاہ گروپ کا ڈنکا بجتا تھا اقبال مشہدی کے ساتھ منیر الدین مشہدی اور لنگاہ گروپ میں محمد خان وٹو بڑے متحرک فعال ہوا کرتے تھے ۔محمد خان وٹو کہا نی نویس بھی تھی ان کی کہا نیاں گا ہے بگا ہے آداب عرض اور دیگر رسا ئل میں بھی شا ئع ہوا کر تی تھیں ۔اقبال مشہدی بعد میں تحریک استقلال میں بھی ہمارے سا تھی رہے۔
اے ایم او ورکشاپ کی مزدور یو نین بھی خا صی فعال تھی محلہ منظور آ باد کے محمد سلیمان مرحوم اے ایم او ورکشاپ کے روح رواں تھے ۔ واپڈا یو نین طارق مرزا کے والد مرحوم صدیق مرزا کے گرد گھو متی تھی ۔محنت کش محاذ ظفر زیدی کی قیا دت میں عام کسا نوں ، محنت کشوں اور مزدوروں کو منظم کرنے میں جاندار کردار ادا کر رہا تھا ظفر زیدی کے سا تھیوں میں غلام مر تضے خان گڑ یا نوی ، معین آ باد کے رشید اعوان ، کو ٹلہ حا جی شاہ کے سا نول شاہ ، ایس ایم تبسم (شیر خان ) اور یو نس قفسی نما یاں تھے ۔محنت کش محاذ کے بعد ظفر زیدی نیشنل عوا می پا ر ٹی میں شا مل ہو گئے تھے اور بعد ازاں جب ذو الفقار علی بھٹو نے پیپلز پا رٹی تشکیل دی تو ظفر زیدی نے پی پی پی کو جوائن کر لیا ۔ ظفر زیدی نے پا ر ٹی کے لئے شب و روز محنت دی لیکن جب الیکشن میں لیہ سے صو با ئی اسمبلی کا پا ر ٹی ٹکٹ ڈاکٹر شیخ منظور حسین کو ملا تو ما یوس ہو کر پی پی پی سے علیحدگی اختیار کر لی اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے ہو نے والے انتخابات مین حصہ لیا ۔مگر ناکام رہے ۔ کامیاب ہو نے والے ڈاکٹر شیخ منظور حسین بر طا نیہ سے الیکشن لڑ نے لیہ آ ئے تھے وہ شہر کے کا میاب ترین اور معروف بزنس مین شیخ غلام حسین کے چھو ٹے بھا ئی تھے لیکن ڈاکٹر صاحب کو الیکشن میں کا میا بی راس نہ آ ئی حکو مت مخا لف قو می اتحاد کی احتجا جی تحریک کے با عث اقتدار جلد ہی پیپلز پا رٹی کے ہا تھ سے جا تا رہا ۔ ڈاکٹر شیخ منظور حسین ایک ما ہر آ ئی سپیلشٹ تھے ۔ انہوں نے پا کستان میں قیام کے دوران چا بارہ روڈ پر اپنا کلینک بھی قائم کیا تھا جس کی وجہ سے لیہ جیسے پسما ندہ اور دور افتادہ علا قے میں آ نکھوں کی بیما ریوں کے علاج معالجے کی بہتر سہو لیات مہیا ہو نے لگی تھیں مگر حکو مت کے خا تمے کے بعد ڈا کٹر شیخ منظور حسین بھی واپس لوٹ گئے۔
راولپنڈی شازش کیس میں ایک اور شخصیت بھی شا مل تھیں بیگم نسیم جہاں ممبر قو می اسمبلی بھی رہیں وہ بھی لیہ آ یا کرتی تھیں ان سے بھی ظفر زیدی کے لا ہور فو ٹو سٹو ڈ یو پر ایک ملا قات ہو ئی جب میں ما ہنا مہ تذ کرہ لا ہور کے آ فس سے وا بستہ ہوا مجھے بیگم صاحبہ کے گھر جا نے اور ان کے سا تھ کھانا کھا نے کا بھی اتفاق ہوا اس زما نے میں وہ سیا ست سے تقریبا علیحدہ ہو چکی تھیں مجھے یاد ہے کہ کھا نے کے دوران وہ ہمیں قو می اسمبلی میں مو لا نا غوث ہزاروی سے ہو نے والی اپنی بحث و تکرار کی یا دیںسنا تی رہیں ۔ لیہ کی ایک اور شخصیت کسان انجینئر نگ ورکس کے با با عبد العزیز قا صر ہوا کرتے تھے وہ بھی بڑے انقلابی اور نظریا تی مار کسسٹ تھے ان با با جی سے سر راہ ایک مختصر سی ملاقات میرے ذہن میں ہے قا صر با با نے اپنے نظریات کے حوالے سے کچھ کتا بچے اور پمفلٹ بھی تحریر کئے تھے جو میری نظر سے بھی گذ رے ہیں۔اسی زمانے میں میری ایک ملاقات لطیف افغانی سے بھی ہو ئی ۔ کہا جا تا ہے کہ عبد الطیف افغا نی بھی راولپنڈی شازش کیس کے اسیر رہے ہیں 1951 میں اس وقت کے وزیر اعظم لیا قت علی خان کے خلاف میجر جزل اکبر خان اور دیگر فو جی افسران نے کیمو نسٹ پا رٹی کے فیض احمد فیض ، سید سجاد ظہیر وغیرہ کے سا تھ مل کر مسلح بغا وت کی ۔ اس وقت کے حکو متی حلقوں کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ حکومت کے خلاف ہو نے والی شازش کو روس کی پشت پنا ہی حاصل تھی ۔ اب یہ علم نہیں کہ لطیف افغانی کا کیمو نسٹ پا ر ٹی سے بھی کو ئی تعلق تھا یا نہیں ۔ میری جب ان سے ملا قات ہو ئی وہ سر مئی رنگ کی پینٹ اور سفید شرٹ پہنے ہو ئے تھے اور ان کے سر پر ہیٹ تھا ہا تھ میں چھڑی تھا مے مجھے وہ ایک با وقار شخصیت نظر آ ئے ۔ ان کی ما دری زبان پر شین تھی ۔اس زما نے میں چوک اعظم میں ایک ہی ما ر کیٹ تھی اور اس کا نام لطیف افغانی مار کیٹ تھا جس کی د کا نیں کچی پکی اینٹوں سے بنی ہو ئی تھیں ایک دوست کے مطا بق لطیف افغانی بعد میں نیشنل عوامی پا ر ٹی میں بھی شا مل رہے مگر میں اس کی تصدیق نہیں کر سکتا۔
بات پھر کہیں اور نکل گئی ذکر ہو رہا تھا انجمن بے روزگا ران کا ۔ پہلے فنکشن کی کا میا بی نے ہم سا تھیوں کو زیا دہ پر اعتما د کر دیا مقامی اور قو می اخبارات نے انجمن بے روزگا ران پا کستان کے اس فنکشن کو بھر پور کوریج دی ۔ چند دنوں بعد لا ہور سے ایک خبر شا ئع ہو ئی کہ وہاں بھی بے روزگا روں نے ایک تنظیم بنا ئی ہے جس کا نام انجمن بے روز گا ران پا کستان رکھا ہے ۔ خبر پڑھ کر میں نے ایک خط امروز کے منو بھا ئی کو تحریر کیا جس مین لا ہور کے ان سا تھیوں کو بتا یا گیا تھا کہ انجمن بے روزگاران پا کستان کے نام سے پہلے ہی ایک تنظیم مو جود ہے میں نے اپنے خط میں انہیں مشوہ دیا کہ آ پ بجا ئے کو ئی نئی تنظیم قا ئم کر نے کے ہما ری تنظیم کو جوائن کر لیں ۔ بے روزگاری کے خا تمہ کے لئے ہمیں اپنی انا ختم کر کے مل کر کام کر نا چا ہیئے ۔ منو بھا ئی ان دنوں امروز سے وابستہ تھے اور ان کا کالم روزنا مہ امروز میں شا ئع ہو تا تھا ۔ چند دن ہی گذ رے تھے کہ صبح صبح میرے ایک دوست میرے پاس آ ئے اور پو چھا کہ کیا آپ نے آج کا امروز پڑھا ہے میں نے کہا نہیں ۔ تو انہوں نے اپنے ہا تھ میں پکڑے اخبار کو میرے سا منے لہراتے ہو ئے کہا کہ آج منو بھا ئی نے ہماری تنظیم پر کالم لکھا ہے ۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ منو بھا ئی نے اپنے کالم کا آ غاز ا س طرح کیا تھا کہ ” آج میرا گر یباں انجمن بے روزگاران پا کستان کے صدر انجم صحرائی کے ہا تھ میں ہے ” منو بھا ئی نے اس کالم میں ایک تلخ حقیقت بھی لکھی ” کہ بے روزگا روں کی انا کہاں ہو تی ہے جب ما سٹر پاس بے روزگار در جہ چہا رم کی نو کر یاں ڈھونڈھ رہے ہو تے ہیں” منو بھا ئی کے گریباں والایہ امروز اخبار ایک عر صہ تک میرے ریکارڈ میں رہا مگر کہیں پھر کھو گیا۔
باقی اگلی قسط میں
انجم صحرائی