شب و روز زندگی (قسط 8 )
تحریر :۔ انجم صحرائی
قریبا تین سال ہو نے کو ہیں میں پریس کلب پا لیٹکس سے علیحدہ ہو چکا ہوں۔ شا ئد میں لیہ پریس کلب کی تا ریخ میں پہلا شخص ہوں جس نے پریس کلب پا لیٹکس سے با ضابطہ طور پر ریٹا ئر منٹ لی ہے مجھے ڈسٹر کٹ پریس کلب کے با نی ممبر ، ضلعی انجمن صحافیان کے صدر ، جزل سیکرٹری اور جرنلسٹ پرو ٹیکشن کمیٹی کے منتخب چیئر مین رہنے کا بھی اعزاز حا صل ہے پرا ئیویٹ سیکٹر 2005میں قا ئم ہو نے والے سب سے پہلے ٹی وی چینل ATV سے بھی روز اول سے وابستہ رہا لیہ سے سب سے پہلے اخبار روز نا مہ صبح پا کستان کی اشا عت کا اعزاز بھی ہما را ہی نصیب بنا ۔ اور یہ بھی انفرادیت ہے کہ لیہ کے اگر کسی روزنا مے اخبار کو سیا سی بنیا دوں پر بندش کا سا منا کرنا پڑا تو وہ بھی میرا اخبار صبح پا کستان ہے ۔اور یہ بھی خصو صی اعزاز صبح پا کستان کا ہی ہے کہ جمہوریت کی جدو جہد میں اگر کسی علا قائی اخبار سے وابستہ کسی صحافی نے قیدو بند کی صعو بتیں جھیلیں تووہ بھی صبح پاکستان ہی ہے پی ڈے اے تحریک کے زما نے میں جہاں صبح پا کستان ریاستی جبر کا شکار رہا وہاں صبح پا کستان کے رپورٹر یو سف نقوی کو پی ڈی اے کی احتجا جی تحریک میں شمو لیت کے لئے بذ ریعہ ٹرین پنڈی جا نے والے سیا سی قا فلوں کی رپورٹنگ کے جرم میں پو ری ایک رات تھا نہ میں گذارنا پڑی۔
لکھنا بھی جا نتا ہوں اور بو لنے کی صلا حیت بھی اللہ کریم نے بخشی ہے تین کتا بوں کا مصنف ہوں ، مقا می ایف ایم 89 سے وابستگی کو سا لوں بیت چکے ہیں ما ضی میں” رو شنی “، “سیلاب زدگان انجم صحرائی کے سا تھ “اور ” ہیلپ لا ئن ود انجم صحرائی ” جیسے پروگرام پیش کر چکا ہوں آج کل ہر سو موار نشر ہو نے والے پرو گرام فورم 89 کی میز با نی کے فرائض نبھاہ رہا ہوں ۔یو ٹیوب ، ٹویٹر ، فیس بک ، گو گل سمیت تمام شو شل میڈیا پر صبح پا کستان اور ہماری جدو جہد کی شہا دتیں مو جود ہیں۔ ایک ٹی وی چینل ، دو اخبار اور ایف ایم کے تین پرو گراموں میں میرے انٹرویوز لئے جا چکے ہیں۔ جسٹس اے آر کار نیلس ،وفاقی وزیر محمود علی مر حوم ،مشیر اقلیتی امور ایم پی بھنڈارا ، جما عت اسلا می کے سراج الحق ، جمیعت العلماء اسلام کے حافظ حسین احمد ، خواجہ عامر کو ریجہ ،تنظیم اسلامی پا کستان کے امیر حافظ عاکف سعید اور مقا می زعما ئے سیاست سر دار بہرام خان ، منظور حسین سمرا ،فیض الحسن سواگ ، غلام حیدر تھند ، چو ہدری اصغر علی گجر ، سردار بہادر خان سیہڑ ، سید ثقلین شاہ بخاری ،ملک احمد علی اولکھ ،ملک نیاز احمد جکھڑ ،مہر فضل حسین سمرا ، قیصر خان مگسی ، اعجاز احمد اچلا نہ ، اشفاق چو ہدری ، با بر خان کھتران ،الطاف چو ہدری اور اطہر مقبول سمیت سینکڑوں مقا می اہم مذ ہبی ، سیا سی اور سما جی شخصیات کے انٹر ویوز کے حصول کا اعزاز بھی حا صل ہے ۔ ڈسٹرکٹ پریس کلب میں صحا فیوں کے لئے لیہ مینں تاریخ کی پہلی تر بیتی ورکشاپ کے انعقاد کا اعزاز ببھی مجھے اور میرے دو ستوں کے حصہ میں آ یا۔
قا ضی صفدر جمیل نا صر ان دنوں انگریزی اخبا ر فرنٹیر پو سٹ کے لیہ میںنما ئندہ تھے اس تر بیتی ورکشاپ کے انعقاد میں مجھے قا ضی سفدر جمیل ناصر کا بھر پور تعاون حا صل رہا ۔ اپنی نو عیت کی اس پہلی تر بیتی ورکشاپ میں ضلع بھر سے صحا فیوں اور لکھا ریوں نے شر کت کی ۔ ایک روزہ ورکشاپ میں ملتان سے نوائے وقت کے جبار مفتی اور ڈیرہ غازیخان سے بھی سینئر دوست اور بار ایسوسی ایشن ، تعلیم پو لیس اور محکمہ صحت سمیت دیگر ادروں سے بھی احباب بحیثیت مقرر تشریف لا ئے اور صحا فت اور مختلف مو ضوعات پر لیکچر دئیے ۔ ورکشاپ کے لئے کھا نے کا اہتمام لیہ شو گر ملز کی انتظا میہ کی طرف سے کیا گیا تھا ، ٹرانسپورٹمحکمہ بہبودی آ بادی نے مہیا کی تھی ۔ تر بیتی ورکشاپ کے اختتام پر شر کا ئے ورکشاپ کوسندات بھی دی گئیں ان سندات پر اس وقت کے ڈپٹی کمشنر ملک مظہر فرید ، جبار مفتی اور صدر انجمن صحا فیان کی حیثیت سے میرے دستخط ہو ئے تھے
ڈپٹی کمشنر ملک مظہر فرید کا تعلق اوکا ڑہ سے ہے بڑے کھلے ڈلے انسان ہیں جب وہ لیہ میں تعینات ہو ئے اس زما نے میں ہم خا صے متحرک صحا فی تھے ایک بار ایک دوست نے ہمیں بتا یا کہ ڈی سی کے چھوٹے صا حبزادے سر کا ری لینڈ کروزر کا بے جا استعمال کرتے ہیں آ پ ڈی سی صاحب کو بتا ئیں کہ یہ اچھی بات نہیں اگلی ملا قات میں میںنے یہ بات من و عن بیان کی اور کہا کہ یہ لو گوں کی شکا یات ہیں جو میں نے آپ تک پہنچائی ہیں انہوں نے مجھ سے پو چھا کہ کیا واقعی یہ بات سچ ہے میں نے کہا جناب عوام جھوٹ نہیں بو لتے میری بات سن کر وہ مسکرائے اور کہنے لگے اب یہ شکا ئت کبھی نہیں ہو گی اور واقعی ایسا ہی ہو اس کے بعدا نہوں نے اپنے بچوں اور اہل خانہ پر سر کا ری گاڑی کے استعمال کر نے پر پا بندی لگا دی ۔انہی دنوں ڈی سی ملک مظہر فرید اس وقت کے ایس پی کے ہمراہ ڈی جی خان سے ایک میٹنگ میں شر کت کے بعد واپس لیہ آ رہے تھے کہ اچانگ گا ڑ یوں کے آ گے جانور آ نے کے با عث ڈرائور کو ہنگا می بریک لگا نا پڑی جس سے گا ڑی کا ایکسینڈنٹ تو ہوا مگر اللہ کریم نے بڑے نقصان سے بچا لیا ۔ ملک مظہر فرید کو معمولی چوٹیں آ ئیں۔
لیکن ایس پی صاحب محفوظ رہے ۔ میں ضیاعء اللہ خان نا صر (پریس رپور ٹر ) کے ساتھ ان کی عیادت کے لئے ڈی سی ہا ئوس گیا ، ملک صاحب کی عیادت کے بعد ہم نے سوچا کہ ایس پی کی بھی عیادت کرتے چلیں سو ہم ایس پی ہا ئوس بھی چلے گئے وہان ایس پی صاحب کمرے سے باہر لان میں ملک منظور جو تہ کے ہمراہ ٹہرے ہو ئے تھے ہم نے ان کی عیادت کی تو انہوں نے میرے کند ھے پر ہا تھ رکھ کر سہا را لیتے ہو ئے ہو نے والے واقعہ کی تفصیلات بیان کر نا شروع کر دیں گفتگو کے دوران اچا نک انہوں نے پنجا بی میں ایک گا لی دیتے ہو ئے کہا کہ یار او نوں تے سمجھا ئو ۔ میں سمجھ تو گیا کہ کس طرف اشارہ ہے مگر میں انجان بنا رہا ۔ میں نے کہا کہ کیا ہوا ہے کہنے لگے دیکھو آج کے اخبار میں کیا خبر شا ئع ہو ئی ہے میں نے پو چھا کیا ؟ تو بو لے کہ کل سول ڈیفنس والوں نے کینال ریسٹ ہا ئوس میں ایمر جنسی ریہر سل کی تھی جس میں دھما کے بھی کئے تھے اس نے اخبار میں دھما کوں کی خبر شا ئع کر دی جس سے اوپر کہرام مچ گیا ہم کل سے اس بو گس خبر کا جواب دے رہے ہیں۔
یہ سنتے ہی میں نے ان کا ہا تھ اپنے کندھے سے پرے ہٹاتے ہو ئے قدرے ناراضگی سے کہا سر جی عجیب بات ہے میں آپ کی عیادت کے لئے آیا ہوں اور آپ مجھے گالیاں نکال رہے ہیں ۔ ایس پی صاحب بے چارے ہکا بکا کہنے لگے یار میں نے تو آپ کو تو گا لیاں نہیں نکا لیں میں نے کہا کہ آپ نے میرے جرنلسٹ سا تھی کو میرے سا منے گا لی نکا لی اس کا مطلب ہے آپ نے ہمیں گا لی نکا لی یہ کہتے ہو ئے ہم ایس پی بہادر سے اجازت لئے بغیر باہر نکل آ ئے ۔ ان کی شکا یت بالکل درست تھی ہمارے صحا فی دوست اپنی خبر میں ریہر سل کا لفظ لکھنا بھول گئے تھے مگر ایس پی کا گالی دے کر گلہ کر نے کا نداز بھی درست نہ تھا ۔ ملک مظہر فرید سے آ خری ملا قات اوکاڑہ میں ہو ئی وہ اس طرح کہ مجھے ایک بار اوکاڑہ جا نے کا اتفاق ہوا فیضان کی ان دنوں اوکا ڑہ کینٹ میں پو سٹنگ تھی مجھے اس کے پاس اوکاڑہ جا نے کا اتفاق ہوا ملک مظہر فرید کو جب اوکاڑہ میں میری مو جودگی کا پتہ چلا تو انہوں نے اپنے بیٹے کو مجھے لینے کے لئے بھیج دیا اس وقت وہ ریٹا ئر ہو چکے تھے
میں ان سے ملا تو بہت خوش ہو ئے جب ہم چا ئے پینے کے لئے ان کے ڈرائینگ روم میں گئے تو انہوں نے ایک تصویر اٹھا ئی اور مجھے دکھا تے ہو ئے بولے صحرائی ہم تمہیں بھو لے نہیں ۔ یہ جرنلسٹ ورکشاپ کے مو قع پر لی گئی ڈی سی ملک مظہر فرید جبار مفتی اور انجم صحرائی کی تصویر تھی جو انہوں نے ریٹا ئر منٹ کے بعد کئی بر سوں سے اپنے ڈرائینگ روم میں رکھی ہو ئی تھی ۔ اسی طرح جب ہم چند صحا فی دوستوںنے پریس کلب کے عہدیداران سے بعض اختلا فات کے باعث ڈسٹرکٹ پریس کلب سے علیحد گی کے بعد پریس کلب (آ ر ) کے نام سے اپنا علیحدہ گروپ تشکیل دیا تب بھی ہم نے ضلعی سطح پر ایک اہل قلم کا نفرنس منعقد کی اس کا نفرنس کے انعقاد میں ملک مقبول الہی ، عبد الرحمن قریشی ، عابد فاروقی ، عبد الرووف نفیسی ،عابد کھرل ، ممتاز مچھرانی ، ملک اقبا ل جگ ، سلیم اللہ ، صابر عطا اور رمضان بھٹی نے کلیدی کردار ادا کیا لیہ کی تا ریخ میںوہ اہل قلم کا نفر نس بھی ایک یاد گار تقریب تھی ۔ اس اہل قلم کا نفرنس کی صدارت ڈی سی او جا وید اقبال نے کی تھی اس تقریب کے مہمان خصو صی نوائے وقت کے سلیم ناز تھے مگر نہ معلوم کس نے سلیم ناز کو فون پر یہ غلط اطلاع دی کہ تقریب منسوخ ہو چکی ہے جس کی وجہ سے وہ نہیں آ ئے بہر حال یہ تقریب بھی بھر پور تھی۔
ڈی سی او جا وید اقبال ایک دبنگ آفیسر تھے جب تک وہ لیہ میں رہے آ ئے روزکسی نہ کسی مسئلہ سے نبر د آزما رہے آ تے ہی ان کا پہلا تنازعہ مقا می ریڈ یو ایف ایم 89کی انتظا میہ سے ہوا جب معا ملہ طویل ہوا تو ایف ایم کے پر ویز درا نی اور وڈا خان (ضیا ء اللہ خان بز دار ) صبح پا کستان کے آ فس آ ئے اور مجھے اس مسئلہ کے حل کر نے میں کردار ادا کر نے کی درخواست کی ۔ جس پر میں نے ڈسٹرکٹ ریسٹ ہا ئوس میں ڈی سی او ساحب سے ملا قات کی ملک مقبول الہی اور عبد الرحمن قریشی بھی میرے سا تھ تھے ڈی سی او بڑے غصے میں تھے کہنے لگے میں ایف ایم والوں کو نہیں چھوڑوں گا یہ سن کر میں نے پو چھا کہ آپ کیا کریںگے کہنے لگا کہ میں ایف ایم کا لا ئسنس کینسل کرا دوں گا ۔ میں نے زیر لب مسکرا تے ہو ئے ان کی خد مت میں عر ض کیا کہ صاحب آپ کچھ بھی نہ کر پا ئیں گے آ خر آ پ کو صلح ہی کر نا پڑے گی اور پھر یہی ہوا طارق علیانی کی جدو جہد رنگ لا ئی اور ڈی سی او صاحب کو ایف ایم سے صلح ہی کرنا پڑی ۔یہ اسی دور کی بات ہے
جب نرسنگ سکول کی طا لبات نے ان کے اور اس وقت کے ای ڈی او ہیلتھ کے خلاف تا ریخی احتجاج کیا ۔کسی کو خاطر میں نہیں لا تے تھے ۔ ا نہی دنوں میں محکمہ صحت نے ٹی بی کے مو ضوع پر ایک سیمینار کیا ۔ ای ڈی او ہیلتھ کے آفس میں ہو نے والے اس سیمینار میں میں بھی بطور مقرر مدعو تھا باری آ نے پر جب مجھے دعوت خطاب دی گئی اور میں نے اپنی تقریر کا آ غاز کیا تب سٹیج پر بیٹھے ڈی سی او اپنے ساتھ بیٹھے ہو ئے کسی آ فیسر سے قدرے بلند آواز میں گفتگو کر نے میں مصروف تھے جس سے میری تقریر میں خلل پیدا ہو رہا تھا کچھ دیر تو میں نے برداشت کیا مگر جب گفتگو نہ رکی تو میں نے اپنی تقریر کے دوران ڈی سی او کو مخاطب کرتے ہو ئے کہا جناب میں تقریر کر رہا ہوں پلیز آپ خا موشی سے میری گفتگو سنیں ڈی سی او ایک دم خا موش ہو گئے اور ما حول خا صا کشیدہ ۔ میں خا موش تھا ڈی سی او جا وید اقبال نے مجھے دیکھا اور پو چھا کہ کیا ہمیں آپ کی تقریر سننا چا ہیئے میں نے کہا جی آپ کو میری گفتگو سننا چا ہیئے چو نکہ مجھے تقریر کے لئے بلا یا گیا ہے اب میری تقریر سننا آپ کا اخلا قی فرض بنتا ہے
میرا جواب سن کر انہوں نے سر ہلا یا اور کہا ٹھیک آپ تقریر کریں ہم خا موش ہیں اور پھر میری پوری تقریر کے دوران مجھے سٹیج سے کو ئی آ واز سنا ئی نہیں دی ۔ ایک بار انہوں نے مجھے اپنے دفتر بلا یا اور کہا کہ ہم جشن لیہ کے مو قع پر ایک مشا عرہ کرا نا چا ہتے ہیں میں چا ہتا ہوں آپ یہ مشا عرہ آ رگنا ئز کریں ۔ میں نے کہا جناب میں تو شا عر نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے سر کاری تقریبات کے انعقاد کا کو ئی تجربہ ہے آپ کسی منجھے ہو ئے بندے کی ڈیو ٹی لگا ئیں ۔ کہنے لگے آپ قا ضی ظفر جو ان دنوں ڈی او آر تھے سے مل لیں اور پروگرام طے کریں ۔ قا ضی ظفر اقبال لیہ شنا ش ہیں مختلف عہدوں پر کئی بار لیہ میں تعینا ت رہ چکے ہیں میں ان سے ملا تو انہوں نے کہا کہ اس تقریب کے لئے ضلع کو نسل کی جانب سے ستر ہزار روپے کے فنڈ مختص کئے گئے ہیں آپ ایسا کریں کہ مشاعرہ میں شریک ہو نے والے شعراء حضرات کی لسٹ بنا لیں پر یشان نہ ہوں سب کچھ ہو جا ئے گا۔
میں نے کہا ٹھیک میں نے شعرا کرام کی ایک فہرست تر تیب دی اور اس خیال سے کہ کہیں اس فہرست میں کو ئی دوست رہ نہ گیا ہو میں یہ فہرست لے کر مرحوم شہباز نقوی کے دفتر کالج میں چلا گیا وہاں کئی دوست بیٹھے ہو ئے تھے میں نے انہیں اپنی بنا ئی ہو ئی فہرست دکھا ئی اور وہ ساری با تیں جو ڈی سی او آفس کی جانب سے مجھے بتا ئی گئی تھیں ان دو ستوں کو گوش گذار کر دیں میں نے انہیں یہ طھی بتا یا کہ اس مشا عرہ کے لئے ستر ہزار روپے کے فنڈز مختص ہیں ۔ میری با تیں اور شعرا کی فہرست دیکھنے کے بعد اعتراضات کا ایک لا منتہائی سلسلہ شروع ہو گیا سب سے زیادہ اعتراض فہرست میں کھے گئے شعر کے نام کی تر تیب پر تھا میں نے عرض کیا حضور یہ کو ئی حتمی فہرست نہیں اس میں ردو بدل ہو سکتا ہے بلکہ میں تو آ یا ہی اسی لئے ہوں کہ آپ میری مدد کریں اس مشا عرہ کے انعقاد میں۔
بڑی لے دے کے بعد طے ہوا کہ کل ڈی او آر کے دفتر میں اکٹھے ہوں گے اور فا ئینل پرو گرام طے کریں گے میں اگلے دن جب طے شدہ پرو گرام کے مطا بق ڈی اور آر کے دفتر پہچا تو پتہ چلا کہ ان دو ستوں میں سے کچھ دوست کل ہی مل چکے تھے قا ضی صاحب کو اور انہوں نے مشا عرہ کے انعقاد کی ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے ۔ مشا عرہ ہوا مگر افسوس کہ ہمیں اس مشاعرہ میں شرکت کا اعزاز بھی حا صل نہ ہوا کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کہ مشا عرہ کب ہو ا اور کہاں ہوا ۔ بعد میں اسی ڈسٹرکٹ پریس کلب ( آر ) کے فورم سے منعقد ہو نے والی ایک گرینڈ عید ملن پارٹی میں ملتان سے سجاد جہا نیاں ، اسلام آ باد سے علی شیر حیدری اور لا ہور سے ہم ٹی وی کے اسد نیازی بھی شریک ہو ئے ۔ اس تقریب بارے سجاد جہا نیاں کا ایک کالم خبریں میں بھی شا ئع ہوا ۔
کہتے ہیں کہ با با گورو نا نک سے ان کے ایک چیلے نے پو چھا کہ با با جی زند گی کی قیمت کیا ہے ۔ با با جی نے اپنا ایک ہا تھ آ سمان کی طرف کیا اوپر سے ایک پتھر با با جی کے ہا تھ میں آ گیا با با گورو نا نک نے وہ پتھر اپنے اس چیلے کو دے دیا اور کہا کہ جا ئو اس کی قیمت پتہ کر کے آ ئو ۔ مگر اسے بیچنا نہیں اس کی صرف قیمت کا پتہ کر نا ہے ۔ چیلا یہ پتھر لے کر چلا تو سب سے پہلے اس چیلے کو ایک خوانچہ والا ملا ۔جو ما لٹے بیچ رہا تھا چیلے نے وہ پتھر اس ما لٹے والے کو دکھا یا اور پو چھا کہ اس کی کیا قیمت ہو گی ۔ ما لٹے والے نے کہا گو یہ پتھر میرے کسی کام کا تو نہیں مگر میں تمہارے بچوں کے لئے اس پتھر کے گیارہ ما لٹے دے سکتا ہوں ، چیلا یہ سن کر آگے بڑ ھا ایک سبزی والے سے پتھر کی قیمت دریا فت کی تو اس نے اس کی بد لے آ لوئوں کی ایک بوری دینے کی بات کی ، آ گے
ایک کر یا نے والا مل گیاوہ اس پتھر کے بد لے ایک مہینہ کا راشن دینے پر رضا مند ہوا مگر چیلے نے تو با با جی حکم کے مطا بق اس پتھر کی قیمت پتا کر نا تھی اسے بیچنا تو نہیں تھا وہ یہ قیمت سن کر آ گے بڑھ گیا کچھ دور چلنے کے بعد چیلے کو ایک سنار ملا چیلے نے با با جی کا دیا ہوا پتھر اسے دکھا یا سنا ر نے کہا کہ یہ چمکتا پتھر یقینا بہت اچھا اور خو بصورت ہے مگر اتنا ز یادہ قیمتی بھی نہیں میں تمہیں اس پتھر کے پچاس ہزار روپے دے سکتا ہوں اس سے زیا دہ اس کی ما لیت نہیں چیلہ بڑا حیران ہوا مگر اسے یہ پتھر بیچنا نہیں تھا اسی لئے وہ اور آ گے بڑ ھا آ گے اس کا ٹا کراہ ہیروں کے سوداگر ایک جو ہری سے ہو گیا اس نے با با جی کا دیا ہوا پتھر اس جو ہری کو دکھا یا جو ہری نے وہ پتھر دیکھا تو مبہوت ہو گیا اوربے سا ختہ چلا یا یہ تو یہ تو رو بی ہیرا ہے دنیا کا سب سے خو بصورت اور مہنگا ترین ہیرا ۔ میں اگر اپنی ساری دولت اور سارا مال و اسبا ب بھی اس کے بد لے دے دوں تب بھی میںاس ہیرے کی قیمت ادا نہیں کر سکتا اس ہیرے کی قیمت میں تو کیا کو ئی بھی ادا نہیں کر سکتا یہ تو بیش قیمت ہے
چیلے نے یہ با ت سنی اور ہیرا لے کر دوبارہ گو رو نا نک کے پاس واپس پہنچ گیا اور سارا حال با با جی کے گوش گذار کیا با با جی کہنے لگے زند گی کی قیمت بھی ایسے ہی ہے تمہاری زندگی کا مول گیارہ ما لٹے بھی ہو سکتا ہے اور تمہاری زند گی بیش قیمت بھی ہو سکتی ہے ۔ میرے نزدیک یہاں زند گی سے مراد اللہ کریم کی طرف سے دی گئی صلا حیتیں ہیں اب یہ اختیار ہمارا اپنا ہے کہ ہم اپنی صلاحیتیوں کے گیارہ ما لٹے لے لیںیا پھر انہیں بیش قیمت بنا لیں ۔میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ صحا فت میری ماں اور صبح پا کستان میرے بڑے بیٹے کی ما نند ہے جسے میرے رب نے میرے رزق اور پہچان کا وسیلہ بنا یا میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ میں فرشتہ تو نہیںمگر میںنے کبھی دا نستہ اپنے رب کی طرف سے دی گئی ان صلا حیتوں کی نا قدری نہیں کی ۔۔۔ با قی اگلی قسط میں
انجم صحرائی