شب و روز زند گی قسط 52
تحریر ۔ انجم صحرائی
باتیں کوٹ سلطان کی ۔۔۔۔
بچپن کے دن بھی کیا سہا نے تھے دن ، کے مصداق یہ وہ زما نہ تھا جب راوی چین ہی چین لکھتا تھا ۔ بے روزگاری اور تنگد ستی ان دنوں بھی تھی مگر آج کی یہ چخ چخ اور بک بک گھروں میں کم ہی سنا ئی دیتی تھی ۔ شا ئد اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ سادہ اور قنا عت پسند تھے مجھے یاد ہے کہ اس زما نے میں ایک آ نے کی دو قلفیاں ملا کر تی تھیں یہاں میں بتا تا چلوں کہ وہ زما نہ روپے کی قدر کا زما نہ تھا ایک روپے میں سو لہ آ نے ہوا کرتے تھے اور ایک آ نہ دو پیسوں پر مشتمل ہو تا تھا خیر کوٹ سلطان کے صدر بازار میں ممتاز کے والد کی قلفیوں کی دکان ہوا کرتی تھی ۔ ممتاز ہمارے کلاس فیلو تھے بعد میں انہوں نے پڑ ھا ئی چھوڑ دی اور اپنے والد کے ساتھ کارو بار میں ہا تھ بٹا نے لگ گئے سکول میں آ دھی چھٹی کے وقت ممتاز سا ئیکل کے کے کیر ئیر پر دو قلفیوں کے دو بڑے تھر ماس لٹکائے قلفیاں بیچنے آ یا کرتے تھے جو نہی چھٹی ہو تی ممتاز کی آ واز سنا ئی دیتی
مزیدار قلفی کھوءے ملا ئی والی قلفی دلبہار قلفی ۔۔۔ ایک آ نے کی دو
ہاف ٹائم کی گھنٹی بجتے ہی بچے سکول کے گیٹ سے ایسے نکلتے جیسے بھیڑ بکریاں باڑے سے نکلتی ہیں دیکھتے ہی دیکھتے ممتاز کے گرد بچوں کی بھیڑ لگ جا تی قلفیاں ہا تھوں ہا تھ بکتیں اور قلفیوں سے بھرے دو نوں تھر ماس چند ہی لمحوں میں ختم ہو جاتے ۔انہی دنوں جب ہمارے گھر کے حالات قدرے ما ٹھے ہو ئے تو ابا نے برف کے گولوں کی ریڑ ھی لگا لی چھٹی کے وقت ابا بھی اپنا خوانچہ لے کر سکول گیٹ کے سا منے آ جا تے اور یوں ہمیں قلفی کی بجا ئے رنگ بر نگے نیلے پیلے سرخ گلا بی شربت سے بنے برف کے گو لے پر گذارہ کر نا پڑتا ۔ قلفی کھا نے کو بہت دل کرتا مگر ابا کے گو لوں کی بر سات نے ہمیں اس مو ئی قلفی سے محروم ہی رکھا ۔ پھر یہ ہوا کہ ہمیں ممتاز کی قلفیوں سے چڑ ہو گئی اور ہم نے ممتاز کی قلفیوں کے خلاف جگت شا عری شروع کر دی ہمیں جو نہی ممتاز کی آ واز سنا ئی دیتی
"ایک آ نے کی دو ” ہم کہتے ” سر پکڑ کے رو ”
میں نے ایک دفعہ اپنا یہ فی البد یعہ شعر ممتاز کو سنا یا تو وہ خا صا غصہ ہو گیا اور کئی دن روٹھا رہا لیکن جب میں نے دو پیسے اکٹھے کر کے چند دنوں بعد اس سے قلفی خریدی تو وہ پھر ہمارا دوست بن گیا ۔اللہ بخشے ہمارے ایک کلاس فیلو ہوا کرتے تھے افتخار ۔ ان کے والد عبد الستا کی دوکان صدر بازار میں حا جی امیر محمد کپڑے والے کی دوکان کے سا منے ہوا کرتی تھی یہ ایک جزل سٹور کم بیکری شاپ تھی عبد الستار لیہ کے معروف بیکرز سا بق صدر انجمن تا جران شیخ محبو ب الہی کے رشتہ دار تھے ۔ چھٹی ہو تی ہم اپنا بستہ بغل میں دبو چے افتخا کے ساتھ ان کی دکان پر آ جا تے جو نہی ہم دکان پر پہنچتے افتخار کے والد کہتے ہاں بیٹا آ گئے ہو ۔۔ تم دکان پر بیٹھو میں ابھی آ یا اور یوں افتخار کے ہو تے ہو ئے ہم دکان کے ما لک بن بیٹھتے اور جب تک افتخار کے والد واپس آ تے ہم اپنی خا صی پیٹ پو جا کر چکے ہو تے دکان میں پڑے کیک ، بسکٹ اور کریم رول وغیرہ سے ۔اس زما نے میں ہم سمجھتے تھے کہ ہم ہاتھ کی صفا ئی دکھا تے ہیں افتخار کے والد کو پتہ نہیں چلتا کہ ہم ان کی غیر حا ضری کا فا ئدہ اٹھا کر ان کے کتنے مال پر ہا تھ صاف کرتے ہیں لیکن ایسا نہیں تھا مجھے لگتا ہے کہ وہ ہمیں خود کچھ کھا نے پینے کا مو قع دیتے تھے بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم روز ہا تھ کی صفا ئی دکھا ئیں کریں اور وہ لا علم رہیں ۔۔ سچی بات تو یہ تھی کہ وہ بڑے لوگ تھے دل کے بھی اور دماغ کے بھی ان کے دامن بھی کھلے تھے اور ظرف بھی وسیع ۔ وہ جا نتے تھے کہ چڑ یوں کے چگنے سے کھیت خا لی نہیں بھرا کرتے ہیں اور وہ ہم چڑ یوں کو چگنے کے موقع دیتے تھے ۔ انہیں بھی کو ئی نقصان نہیں ہوا آ ج افتخار کے بھائی اور عبد الستار کے بیٹے اسلم موڑ پر قا ئم مزمل بیکرز کے ما لک ہیں ۔
سکول کے دنوں کا ایک اور سادہ دوست مجھے نہیں بھو لتا ۔ اسلم کسی چک سے سا ئیکل پر سکول آ یا کرتا تھا وہ چھٹی کلاس میں ہمارا ہم جما عت بنا وہ ایک کھا تے پیتے کا شتکار خاندان کا چشم و چراغ تھا جبھی تو جب وہ پہلے دن سکول آ یا اس کے پاس چمکتی ہو ئی سیکنڈ ہینڈ سا ئیکل تھی اس زما نے میں سا ئیکلیں خو ش حالی کی علامت ہوا کرتی تھیں خیر اسلم گھر سے آ تا تو سا ئیکل پر لٹکے اس کے ر نگ بر نگے سوت کے بنے تھیلے میں کھا نے کی پو ٹلی بھی ہو تی ۔کھا نے میں ایک پرا ٹھا ، آ ملیٹ انڈہ اور کبھی کبھار حلوہ بھی ہو تا ۔ آ دھی چھٹی میں وہ اکثر ہم دوستوں کو اپنے سا تھ کھا نے کی دعوت دیتا ۔ برسوں گذر گئے میں سکول میں کھا ئے موٹے موٹے کٹی پیاز وں کے آ ملیٹ کے ساتھ دیسی گھی کے ٹھنڈے پرا ٹھے کے ان چند لقموں کاوہ سواد نہیں بھول پا یا ۔
سعید ہماری کلاس کا سب سے قد آ ور لڑ کا تھا ۔ شا ئد ساتویں یا آ ٹھویں کلاس تھی گر میوں کی چھٹیوں وں کا اعلان ہونا تھا اور ہم سب طلبا اسمبلی کے لئے سکول کے صحن میں لا ئینیں بنا رہے تھے کہ اچا نک دائیں جانب سے مجھے گدی پر(گردن کی پیچھے )کسی نے زور سے چپت رسید کی ابھی میں سنبھلا بھی نہیں تھا کہ با ئیں جا نب سے ایک اور زوردار چپت میرا نصیب بنی میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سعید مسکراتا ہو جا رہا تھا میں نے گردی سہلا ئی اور صبر کرتے ہو ئے سید ھا لائن میں لگ گیا اسمبلی شروع ہو ئی چھٹیوں کا اعلان ہوا ہم سب کلاسوں میں جا نے کے لئے مڑے تو دفعتہ ایک بار پھر ایک زوردار چپت سے میرا سواگت ہوا میں مڑا اور جاتے ہوئے سعید کو کہا کہ تم مجھے کیوں مار رہے ہو میری بات سن کر اور یہ کہتے ہو ئے کہ "کل توں چھٹیاں تھی ویسن ول کیں کو مریساں ” مجھے ایک اور زور دار چپت رسید کی ۔چپت تو بہت شدید تھی تکلیف بھی بہت ہو ئی مگر اس کی یہ بے سا ختہ بات سن کر مجھے ہنسی آ گئی اور وہ بھی ہنس پڑا ۔گدی پر لگی وہ چپتتیں جب بھی یاد آ تی ہیں مجھے مسکرا ہٹ دے جا تی ہیں ۔
انہی دنوں لیہ سے ایک اور فیملی کوٹ سلطان میں آ کر بسی ۔ سید صادق شاہ کے خاندان کے ایک بچے نیئر رضوی نے ہماری کلاس میں داخلہ لیا ان کی والدہ اسکول ٹیچر تھیں ۔ نیئر رضوی ان دنوں کسی بنک میں آ فیسر ہیں ۔ہمارے محلہ میں میرا ایک ہم عمر لڑکا ہوا کرتا تھا جا وید ، جا وید میرا کلاس فیلو بھی تھا ان کے والد حنیف صاحب کی صدر بازار میں سبزی کی دکان تھی ہم انہیں خا لو حنیف کہا کرتے تھے اس زما نے میں انگور کی پیٹی 20 روپے کی ملا کرتی تھی اندازہ کریں کہ کتنا سستا دور تھا ۔ جا وید ہمارا ہم نوالہ و ہم پیا لہ تھا انہی دنوں ہمیں خد مت خلق کا شوق چرا یا ہم نے جا وید کے ساتھ مل کر تحریک خد مت خلق کے نام سے ایک تنظیم بنا ئی اس تنظیم کے ممبر محلے کے بچے اور ہمارے دوست اور کلاس فیلو تھے طے پا یا کہ تنظیم کے سبھی ممبران اپنے گلی محلے میں صفا ئی ستھرائی کا خیال رکھیں گے اور غریب طالب علم بچوں کے کام آ ئیں گے ہم نے اپنی تنظیم کے تحت فنڈ را ئزنگ کے لئے ایک سٹیج ڈرامہ کر نے کا پرو گرام بنا یا تاکہ ہم جیسے غریب بچوں کی مالی مدد کی جا سکے اس زما نے میں بعض بچے اور بڑے کھجوروں کی گھٹلیاں اکھٹی کر کے فروخت کیا کرتے تھے ہم نے اپنے سٹیج ڈرامے کے لئے نقد پیسوں کی بجا ئے گھٹلیوں کے بدے ڈرامہ دکھا نے کا پروگرام اعلان کیا مجھے یاد ہے ہمارے اس ڈرامے کو بہت سے بچے دیکھنے آ ئے اور ہمارے پاس کھجور وں کی کا فی گھٹلیاں اکھٹی ہو گئیں جنہیں ہم نے چچا شکور کی دکان پر جا کر فروخت کیا ۔ اور ملنے والی رقم جو شا ئد چند آ نے تھی اس میں سے ادا کاروں اور فنکاروں کا اعزازیہ نکال کر کچھ رقم غریب بچوں کو بھی” عطیہ ” کی گئی ۔مجھے یاد ہے کہ ہمارے اس شو میں خو بصورت ننھے منے سے اعجاز رضوی جو آ ج کل بنک آ فیسر ہیں نے ملی ترا نہ ” اپنی جا ں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں ” سنا یا ڈرامہ دیکھنے والے بچوں نے بہت سی تا لیاں بجا کر داد دی ۔
با قی اگلی قسط میں
انجم صحرائی