سقوطِ ڈھاکہ اورسانحہ پشاور۔ہم بھی مجرم ہیں
(محمد عمار احمد)
کائنات میں کبھی بھی کہیں بھی کوئی سانحہ اچانک ایک معجزے کی طرح پیش نہیں آتا۔ہر سانحے کے پیچھے ایک مکمل تاریخ ہوتی ہے اور ٹھوس وجوہات بھی۔وطن ِ عزیز میں 16دسمبر 1971اور 16 دسمبر 2014کو ملکی تاریخ کے بہت سے المناک واقعات میں سے دو واقعات پیش آئے۔ان سانحات کے پیچھے بھی ٹھوس وجوہ موجود ہیں اور تاریخی حقائق بھی۔ قیام ِ پاکستان کے بعد بانی ِ پاکستان کی زندگی میں ہی
مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں قومی زبان کے مسئلے پر اختلافات سامنے آگئے۔ اس مسئلے کو اگر چہ حل کر لیا گیا مگر اس میں دو بنگالی جوانوں کو خون پیش کرنا پڑا۔اس کے بعد وزارتوں اور اعلیٰ عہدوں کے لئے بھی بنگالیوں سے نا انصافی کی گئی،انہیں ٓزادانہ تجارت کی اجازت نہ تھی۔ان کے بنیادی مسائل حل نہ کئے گئے اور ان سے نا روا سلوک روا رکھا گیا جس کی وجہ سے وہ بھارت کے قریب ہونے لگے،مغربی پاکستان کے لئے ان کے دلوں میں نفرت پیدا ہوئی۔ بنگالی یہ سب کچھ ہوتا دیکھتے رہے مگر ان کے صبر کا پیمانہ تب لبریز ہوا جب مغربی پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے ان کے عوامی مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا۔شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں واضح اکثریت کے ساتھ انتخابات میں کامیابی حاصل کی جبکہ بھٹو صاحب کی جماعت نے مغربی حصے میں کامیابی حاصل کی مگر جب اقتدار کی بات آئی تو جمہوری روایات کی دھجیا ں اڑا دی گئیں اور عوامی لیگ کو حکومت سازی کے اختیارات دینے سے انکار کر دیا گیا۔نیز شیخ مجیب کے چھ نکات کا مسئلہ بھی حل نہ ہو تھا اس معاملے سے بنگالیوں میں مزید نفرت پیدا ہوئی۔ ادھربھارت مکتی باہنی جیسی تنظیموں کے ذریعے نفرت بڑھانے میں مصروف رہا۔سیاسی و عسکری قیادت ابھی کسی نتیجے پر نہ پہنچی تھی کہ 71ء کی جنگ شروع ہو گئی بھارت نے کھل کر بنگال میں مداخلت کی اور بنگالیوں کو بھر پور امداد دی اس جنگ کا نتیجہ بنگلہ دیش کے قیام کی صورت میں نکلا۔ یوں محض 24سالہ حسِین اور نوجوان اسلامی ریاست عدم مساوات،غیر جمہوری رویوں اور نفرتوں کے ذریعے ایک بازو سے معذور کر دی گئی۔
دوسرے المناک سانحے کی تاریخ ضیاء دور میں اس وقت شروع ہوئی جب روس افغانستان پر حملہ آور ہوا اور ہم نے اس پرائی جنگ میں کودنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لئے اسلامی نظریہ ِ جہاد کو استعمال کیا۔ ہم نے لوگوں کو پڑھایاکہ ”افغانستان پر حملہ اسلام پر حملہ ہے،روس کے آنے سے خطے میں اسلام اور مسلمانوں کو خطرہ ہے اور غاصب قوت کے خلاف جہاد لازم ہے۔“ سو لوگ اسی نظریے کے ساتھ جنگ میں شامل ہوئے پاکستان کی معروف مذہبی و سیاسی جماعتوں کے راہنما و کارکن عملاََ شریک رہے۔ پاکستان کے علاوہ دنیا بھر سے یہاں مجاہدین شریک رہے جن کی آمد و رفت پاکستان کے راستے ہوتی اور انہیں یہاں کے عوام کوملنے کی آزادی تھی۔جس سے عوامی سطح پر لوگ ان سے قریب ہوئے اور ان میں رابطے بڑھے،یہ سب کچھ ریاستی سرپرستی میں ہوتا رہا۔یہ مجاہدین یہیں قیام کرتے اسلحہ اور پیسے ریاست بانٹتی اور لوگ جنگ میں شریک رہتے۔ان مجاہدین کی وجہ سے روس کو شکست ہوئی اور وہ یہاں سے بھاگ نکلا۔اس کے بعد طالبان دور ِحکومت میں امریکہ بہادر نے افغانستان پر حملہ کیا جس کے ساتھ نیٹو ممالک کی فورسز بھی تھیں۔ ریاست ِپاکستان نے اب کی بار ”اسلام اور مسلمان“ کی بجائے’’غاصب اور اسلام دشمن“ کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔جو لوگ پہلے روس کے خلاف لڑتے رہے انہیں مایوسی ہوئی،نچلی سطح پر انکے اور ریاست کے درمیان اب کوئی رابطہ نہ رہا تھا،ریاست نے روس کی شکست کے بعد آزاد ی دے دی تھی۔ ان کے ذہنوں میں اب بھی وہی ”جہاد،اسلام اورغاصب“ کی اصطلاحات موجود تھیں سو وہ اب پھر جہاد کرنے نکل کھڑے ہوئے۔پاکستان نے ان لوگوں کو امریکہ کے کہنے پر پکڑنا شروع کیا،پابندیاں عائد کیں اور انہیں امریکہ کے حوالے کرنا شروع کر دیا۔ادھر قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن شروع کر دئے گئے رہی سہی کسر ڈرون حملوں میں بے گناہوں کی اموات نے پوری کی یوں قبائلی عوام اور ریاست میں خلیج بڑھتی گئی۔پھر جن لوگوں کو ہم نے سرخ ریچھ کے خون کی چاٹ لگوائی تھی انہیں جب سفید خون چاٹنے کی اجازت نہ دی (حالانکہ جس نظریے کے تحت سرخ ریچھ کا خون چٹوایا گیا اس نظریے کے تحت سفید خون بھی جائز تھا) تو ا ن لو گوں میں سے کچھ ہمارے معصوم خون کے پیاسے ہو گئے۔ پہلے پہل حکومتی و عسکری اداروں کو ٹارگٹ کیا پھر بلا تفریق مذہب و مسلک علماء مدارس و مساجد اور عبادت گاہوں،بازاروں کو ٹارگٹ کیا۔جن میں اب تک لاکھوں لوگ مارے جا چکے ہیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ان سب میں شرمناک اور المناک حملہ 16دسمبر 2014ء کو پشاور آرمی پبلک سکول پر کیا گیا جس میں دانستہ طور پر150کے قریب معصوم بچوں کو نشانہ بنایا گیاجس کے زخم آج بھی تازہ ہیں اور یاد آتے ہی دل میں غم و الم کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ واقعے کے بعدہماری قیادت نے کچھ خفیہ معلومات کی بنیاد پر بھارتی ایجنسی کو مو رد ِ الزام ٹھہرایا۔
ہم اپنے تمام تر حالات سقوط ِ ڈھاکہ،آبی و عسکری معاملات ہوں یادہشت گردی اوربلوچستان کی صورتحال سب کی ذمہ داری بھارت پر ڈالتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ بھارت روز ِ اول سے ہمارے وجود کو نقصان پہنچا رہا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسے راستہ خود ہم فراہم کرتے ہیں۔ ہماری غلط پالیسیوں،عدم مساوات اوردوسروں کی جنگوں میں کودنے کی روایت اور عوام کو غیر مساوی سہولیات دینے کے سبب بھارت جیسے دشمن ممالک ہمارے ہی لوگوں کو ہمارے خلاف استعمال کرتے ہیں۔جس سے کبھی سقوط ِ ڈھاکہ اور کبھی سانحہ پشاور جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں پر نظر ِ ثانی کریں،عوام کو انصاف اور وہ سہولیات فراہم کریں جن کی لالچ میں وہ اپنے ہی گھر کو آگ لگاتے ہیں۔برابری کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم کریں تاکہ عوام میں باہمی نفرت پیدا ہو نہ ہی لسانی بنیادوں پر صوبے بنانے کی صدائیں سنائی دیں اورنہ ہی دشمن ہمارے لوگوں کو ورغلا سکے۔ اپنے مفادات کو مد ِ نظر رکھ کر ہی دوسرے ممالک سے تعاون اور تعلقات استوار کریں اور دوسروں کی جنگوں میں کودنے کی بجائے تمام تر وسائل ملک اور قوم پر خرچ کر کے اپنے اس مقصد کو پالیں جس کے لئے ہم نے یہ مملکت ِ خداداد حاصل کی تھی۔
ahmadmomin676@yahoo.com