سفر رائیگاں ۔ عفت بھٹی
گرم پانی کا تسلہ رکھے ۔اس کے سفید نازک ہاتھ بھدے پاؤں کا نرمی سے مساج کر رہے تھے۔اسکی زلفیں چوٹی کی قید سے آزاد ہو کر ناگن کی طرح بل کھاتی گلابی گالوں کے بوسے لے رہیں تھیں۔اسلم کی نظر اس کے خوبصورت چہرے پہ گئی اور منجمند ہو گئی پل بھر کو یوں لگا کہ کوئی حسین مورتی کسی سنگتراش کا شاہکار ۔ مکمل حسن جو جادو کر دے ۔قوت گویائی چھین لے ۔وہ بھی توایسی ہی تھی ۔شایدآج وہ پہلی دفعہ اسے غور سے دیکھ رہا تھا ۔معمولی کپڑوں میں بھی اس کا روپ اجالے کی طرح روشن تھا۔دیا نے پاؤں تولیے سے پونچھے اور تسلہ اٹھا کے کھڑی ہو گئی۔بے اختیار اسلم کی طرف دیکھا ۔کوئی اور حکم۔نگاہوں نے سوال کیا؟ اسلم چونکا نن نہیں بس اندر جاؤ۔لہجے میں درشتی در آئی ۔
ہاتھ خاطب ہوئے کھانا لاؤں؟ نہیں کھا کر آیا ہوں جاؤ سونے دو مجھے۔ اور بازو آنکھوں پہ رکھ لیا۔نگاہوں نے گویا سسکی بھری اور وہ پلٹ گئی ۔سامنے کھانا رکھے دو نوالے لی بھوک جیسے اڑ گئی ٹرےپرے کھسکا کے چارپائی پہ دراز ہوگئی۔ آنسو تھے کہ امڈے آ رہے تھے۔جانے کب آنکھ لگ گئی۔اس کے پاؤں میں گھنگرو بندھے تھے اور وہ محو رقص تھی کائنات تھم گئی نوٹوں کی بارش نے اسے نہلا دیا شمی بائی نے اس کی بلائیں لیں ۔دیکھیں شمی بائی اب اس ہیرے کو مارکیٹ میں لے ہی آئیں۔قسم خدا کی قیامت برپا کر دے گی اور آپکی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔نواب ریحان نے پان منھ میں رکھ کر انگلیوں سے کتھا چاٹتے ہوئے کہا۔۔ارے نہیں نواب صاحب ابھی بچی ہےسولہ کا سن ہے اور میرے بڑھاپے کا آخری سہارا۔شمی بائی نے جواب دیا۔پردے کے پیچھے کھڑی دیا کا دل دہل گیا۔اسے ہر طرف کالے کلوٹے خوفناک مرد اپنی ہوسناک نظروں سے تکتے نظر آئے ۔مانا اسے رقص سے عشق تھا مگر نواب ریحان کی بات نے اس میں خوف بھر دیا۔اسے ماں اور ماہ رخ خالہ یاد آئیں جو ایڈز میں مبتلا تھیں اور زندگی کے دن پورے کر رہی تھیں۔کوٹھے پہ رونمائی کی بہت بڑی تقریب منعقد ہوتی اور نئ نویلی طوائف رقص کے بعد رونمائی کے لیے پیش کی جاتی۔اس دن سب سے بڑی بولی لگانے والے کے لیے چاند رات ہوتی یہی اس کوٹھے کا دستور تھا۔رات ماں سے لپٹی دیا نے اشاروں سے سارا قصہ ماں کے گوش گذار کیا۔نیلم بائی نے اسے اپنی کمزور بانہوں میں سمیٹ لیا ۔اور فکر میں گھر گئی برسوں پہلے وہ محبت میں پاگل ہو کر گھر سے بھاگ آئی تھی اور بے وفا نے اسے نکاح کے بعد تصرف میں لا کر چند ماہ بعد کسی کو فروخت کر دیا ۔اور اس نےشمی بائی کے کوٹھے پہ دام کھرے کر لیے۔جہاں آٹھ ماہ بعد دیا نے جنم لیا دس سال تک نادیہ عرف نیلم بائی دلوں پہ اپنے رقص کی بدولت راج کرتی رہی اور شمی کے خزانے بھرتی رہی پھر بیماری نے اس کا حسن جوانی سب چھین لیا اور بیماری بھی ایڈز جیسی مہلک اب وہ کچھ عرصے کی مہمان تھی۔ سختی کے باوجود جب شمی افیون کے نشے میں دھت ہوتی تو دیا دبے قدموں ماں کے پاس چلی آتی۔
آج اس کی رونمائی تھی بڑا جشن تھا ۔دیگوں میں انواع اقسام کے کھانے پک رہے تھے گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئیں تھیں۔دیا آج کسی اپسرا سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔اس سے قبل کے قرعہ فال کسی کے نام نکلتا خوفناک دھماکہ ہو گیا یکے بعد دیگرے دھماکوں نے ساتھ کے علاقے کے ساتھ بازار حسن کو بھی لپیٹ میں لے لیا ۔دیا شدید زخمی حالت میں اسلم کو ملی۔جو کراچی سے اپنے دوست کو ملنے آیا تھا اور وہ اسے ہسپتال لے گیا مگراس کی حالت کے پسش نظر کراچی شفٹ کیا گیا اسلم کو اس کا رشتہ دار سمجھتے ہوئے ساتھ بھجوا دیا ۔ایک ماہ بعد جب دیا تندرست ہوئی تو اسلم اسے اپنے گھر لے آیا ۔قوت گویائی سےمحروم دیا اسکو نجات دہندہ سمجھتے ہوئے اس کی خدمت کرتی ۔مگر اسلم کا سرد رویہ اس کی سمجھ سے باہر تھا ۔اسلم بھی کیا کرتا وہ ہو بہو نادیہ تھی جو کبھی اس کی خاطر گھر چھوڑ آئی تھی۔۔