رؤف کلاسرا کی بستی جیسل میں
محمدشاہد رانا ۔بھکر
محمدشاہد رانا ۔بھکر
بستی جیسل میں ایک شام‘ ایک رات‘ ایک صبح اور دن کا کچھ پہر گزارنے کے بعد جب میں لیہ پہنچا تو میں نے سب سے پہلے کالج روڈ پر واقع ’’سہولت بازار ‘‘میں لگے بُک سٹال سے رؤف کلاسرہ کی کتاب’’ایک سیاست کئی کہانیاں‘‘ خریدی۔ جب میں اُسی روز رات گئے رؤف کلاسرہ کے لکھے گئے سیاست کے بڑے کرداروں کے پروفائل پڑھ رہا تھا اور رؤف کے توسط سے اُن کی سیاسی زندگی کے بعض گوشوں کے بارے آگاہی حاصل کر رہا تھا تو اس لمحے مجھے شدت سے احساس ہوا کہ عالمی صحافی اورینا فلاسی کے سٹائل میں لکھے گئے مجھے رؤف کلاسرہ کی اس پروفائل پر مبنی کتاب کو بہت پہلے پڑھ لینا چاہیے تھا۔ میں ایک قاری کی حیثیت سے رؤف کلاسرہ کے ساتھ مختلف سیاستدانوں کی کہانیوں کو جاننے اور ان سے ملنے کیلئے مختلف شہروں اور مقامات کاسفرکرتا توہرنئے ’’سفر ‘‘سے پہلے میں چشم تصور میں رؤف کلاسرا کی آبائی بستی’’جیسل‘‘ پہنچ جاتا۔
اس سے قبل کے آپ بھی رؤف کلاسرہ کی کتاب ’’ایک سیاست کئی کہانیاں‘‘ خریدنے کیلئے نکل پڑیں آئیے رؤف کلاسرہ کی جنم بھومی جیسل کلاسرہ کی طرف چلتے ہیں۔
یہ موسم گرما کی ایک نسبت گرم شام تھی جب میں رؤف کلاسرہ کی بستی سے تعلق رکھنے والے اپنے دوست مظہر عباس کے ہمراہ لیہ سے بستی جیسل کیلئے روانہ ہوا۔ لیہ سے کوٹ سلطان کی طرف جانے والی سڑک پر بیس منٹ کی مسافت کے بعد ہم مشرق کی طرف جانے والے لنک روڈ پر مڑے تو مظہر عباس نے بتایا کہ رؤف کلاسرہ نے اپنی کوششوں سے بستی جیسل کو ’’ماڈل ولیج‘‘ کا درجہ دلوا کر گاؤں میں سڑک‘ بوائز و گرلز ہائی سکول‘ شفاخانہ حیوانات اور سب سے بڑھ کر گیس کی سہولت فراہم کروائی ہے۔ جب مظہر عباس مجھے اپنے گاؤں کی ترقی کیلئے کی جانے والی رؤف کلاسرہ کی کوششوں کے بارے بتا رہا تھا تو یقین جانیئے مجھے رؤف کلاسرہ کی یہ ادا بہت پسند آئی۔اور مجھے لگا کہ اپنے کالموں اور ٹی وی چینلز پر اپنی گفتگو میں بے بس اور لاچار لوگوں کے حق میں آواز بلند کرنے والے رؤف کلاسرہ کے اندر یقیناً اپنی بستی کے لوگوں کی محرومیوں کو دور کرنے کا درد بھی موجود ہے۔
جیسل میں اپنے قیام کے دوران بستی کے جن چند لوگوں سے ملاقات ہوئی انھوں نے جو بات مجھے انتہائی مسرت کے ساتھ بتائی وہ یہ تھی کہ’’ ہماری بستی میں سوئی گیس آ گئی ہے‘‘۔ اس لمحے میں نے اُن کے لہجے میں رؤف کلاسرہ کیلئے ایک احترام کی جھلک دیکھی۔ میں گاؤں کے مخصوص ماحول کی وجہ سے بستی کی کسی خاتون کو نہ مل سکا۔ لیکن گیس کی سہولت کا سب سے بڑا فائدہ خواتین کو ہوتا ہے۔ کسی آبادی میں گیس کی آمد کیلئے انتظار اور امید کی جو کیفیت خواتین کے اندر پائی جاتی ہے مجھے اس کا بخوبی احساس ہے اس لیے کہ میری ماں گزشتہ سال ہا سال سے میرے آبائی قصبہ کلورکوٹ میں سوئی گیس کی آمد سے متعلق بے چینی سے منتظر رہی ہے۔ میری ماں کی وہ امید اور بے چینی خواتین کو سوئی گیس سے پہنچنے والی سہولت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
ہم جیسل میں جانے والی پکی سڑک سے گزرتے ہوئے مظہر عباس کے بڑے بھائی اظہر عباس کی حویلی میں پہنچے۔ جنہوں ہماری تواضع کی۔
گاڑی کو اظہر عباس کی حویلی کے سامنے کھڑا کرنے کے بعد ہم موٹرسائیکل پر سوار ہو کر شام ڈھلے ہی بستی جیسل میں گھومنے نکل کھڑے ہوئے۔ کیونکہ سورج غروب ہونے سے پہلے میں بستی جیسل کے مختلف مقامات کا نظارہ کرنے اورانھیں کیمرہ کی آنکھ سے محفوظ کرنے کا خواہاں تھا۔ جس میں ادب دوست نوجوان مظہر عباس کی پھرتی میرے کام آئی۔ اور ہم گاڑی کی بیرونی سڑک پر قائم سرکاری تعلیمی اداروں اور عمارات کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرتے ہوئے بستی جیسل میں داخل ہوئے اور جیسل کی کچھ معدوم ہوتی عمارات کا نظارہ کیا ان پرانی عمارتوں کے ڈھانچے بستی کلاسرہ کی قدامت کی داستان سنا رہے تھے۔ ہم نے بستی جیسل کے اس گورنمنٹ پرائمری سکول کی عمارت کو بھی کیمرہ کی آنکھ میں محفوظ کیا جہاں کبھی رؤف حروف تہجی سے کھیلتا تھا۔ لیکن اب نہ کھیل کا وہ کھلا میدان اور نہ ماضی کہ وہ کچے پکے کمرے بلکہ اب وہاں سکول کی نوتعمیر شدہ عمارت ہے جسے چاروں طرف سے پختہ چاردیواری نے گھیر رکھا ہے۔
شام کے سائے ڈھل چکے تھے۔ سورج دریائے سندھ کے اس پار مغرب میں اپنی آخری کرنیں بکھیر رہا تھا۔ اب ہم بستی جیسل سے نکل کوٹ ادو جانے والی سڑک پر آ گئے۔ ہماری منزل نزدیکی اڈا حافظ آباد تھی۔ جہاں رؤف کلاسرہ کا ایک ہم جماعت ایک چھوٹے سے کولڈ کارنر کے ذریعے اپنی روزی روٹی کا بندوبست کیے ہوئے ہے۔
بزلہ سنج غلام شبیر عرف جگو نے ہمارا بڑی پرتپاکی سے استقبال کیا۔ اور جب ہم نے اسے بتایا کہ ہم رؤف کلاسرہ کے ساتھ گزرے اس کے بچپن کے دنوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو اس نے انتہائی خوشدلی سے رؤف کلاسرہ کے ساتھ بچپن میں بیتے دنوں کا قصہ سنایا۔ جگو نے بتایا کہ رؤف کلاسرہ ہمارے ساتھ مل کر شرارتیں بھی کرتا تھا لیکن بچپن سے ہی پڑھائی پر بھی توجہ دیتا تھا اور تعلیم پر اس کی اسی توجہ نے اُسے آج بڑے مقام پر پہنچایا ہے۔ جگو کے لہجے میں رؤف کلاسرہ کیلئے ایک اپنائیت تھی اور رؤف سے دیرینہ رفاقت کی جھلک اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ جگو نے بڑے پرجوش لہجے میں یہ واقعہ بھی بتایا کہ’’ جب بستی جیسل کے پرائمری سکول سے پنجم کا امتحان پاس کرنے کے بعد قریبی قصبہ کے ہائی سکول میں داخل ہوئے تو ایک دن رؤف کے جوتے سکول میں گم ہو گئے تو واپسی پر اس نے (جگو نے) اپنے جوتے رؤف کو پہننے کیلئے دیئے تھے۔‘‘
یہ واقعہ بیان کرتے وقت جگو کے لہجے میں رؤف سے رفاقت کی حلاوت تھی۔
رؤف کے بچپن کے دوست جگو سے ملنے کے بعد ہم واپس بستی جیسل آگئے۔ رات مظہر عباس کے بھائی کے گھر قیام کیا۔ اظہر عباس کے نو تعمیر شدہ مکان کے صحن میں جو اُس رات نیند آئی اس کا لطف آج بھی ہمارے دماغ کو تمانیت دیتا ہے۔
اگلی صبح ناشتہ کے بعد ہم رؤف کلاسرہ کے آبائی گھر کا بیرونی نظارہ کرنے کے بعد واپسی کیلئے روانہ ہوئے۔ لیکن مظہر نے واپسی پر بستی سے نکلتے ہوئے ایک زیر تعمیر کوٹھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مکان رؤف کلاسرہ کے بھانجے تعمیر کروا رہے ہیں وہاں پہنچے تو رؤف کے بھانجے ڈاکٹر منصور کلاسرہ اور راشد اقبال کو تعمیراتی کام کی نگرانی کرتے ہوئے پایا۔
ایک غیر رسمی ماحول میں ’’ہماچے‘‘ پر بیٹھ کر منصور کلاسرہ اور اس کے چھوٹے بھائی راشد اقبال سے گفتگو کرنا اچھا لگا۔ ڈاکٹر منصور کلاسرہ لیہ کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں اکنامکس پڑھاتے ہیں جبکہ ان کے چھوٹے بھائی تعلیمی نظم و نسق کے مضمون میں پی ایچ ڈی کر رہے
ہیں۔
ڈاکٹر منصور کلاسرہ نے بتایا کہ رؤف کلاسرہ وقتاً فوقتاً بستی جیسل آتے رہتے ہیں۔
اس روز بستی جیسل کلاسرہ میں ہماری ملاقات یقیناً رؤف کلاسرہ سے نہیں ہوئی تاہم ایک ٹی وی چینل کے پروگرام کے توسط سے اُن دنوں ہماری رؤف کلاسرہ سے مواصلاتی ملاقات رہی۔ رؤف کلاسرہ بحیثیت صحافی جس بے باکانہ انداز میں بے حسی اور معاشرتی نا انصافیوں کے خلاف آواز اٹھاتا ہے وہ اُسی کا خاصہ ہے۔ تھل کی مٹی سے جنم لینے والے اس سپوت نے خارزار صحافت میں بہت کم عرصہ میں ایک نڈر صحافی کے طور پر اپنی پہچان بنائی ہے۔ رؤف کلاسرہ کے بارے انھی خیالوں میں گم ڈاکٹر منصور کلاسرہ سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کر کے ہم واپس لوٹ آئے۔
اس سے قبل کے آپ بھی رؤف کلاسرہ کی کتاب ’’ایک سیاست کئی کہانیاں‘‘ خریدنے کیلئے نکل پڑیں آئیے رؤف کلاسرہ کی جنم بھومی جیسل کلاسرہ کی طرف چلتے ہیں۔
یہ موسم گرما کی ایک نسبت گرم شام تھی جب میں رؤف کلاسرہ کی بستی سے تعلق رکھنے والے اپنے دوست مظہر عباس کے ہمراہ لیہ سے بستی جیسل کیلئے روانہ ہوا۔ لیہ سے کوٹ سلطان کی طرف جانے والی سڑک پر بیس منٹ کی مسافت کے بعد ہم مشرق کی طرف جانے والے لنک روڈ پر مڑے تو مظہر عباس نے بتایا کہ رؤف کلاسرہ نے اپنی کوششوں سے بستی جیسل کو ’’ماڈل ولیج‘‘ کا درجہ دلوا کر گاؤں میں سڑک‘ بوائز و گرلز ہائی سکول‘ شفاخانہ حیوانات اور سب سے بڑھ کر گیس کی سہولت فراہم کروائی ہے۔ جب مظہر عباس مجھے اپنے گاؤں کی ترقی کیلئے کی جانے والی رؤف کلاسرہ کی کوششوں کے بارے بتا رہا تھا تو یقین جانیئے مجھے رؤف کلاسرہ کی یہ ادا بہت پسند آئی۔اور مجھے لگا کہ اپنے کالموں اور ٹی وی چینلز پر اپنی گفتگو میں بے بس اور لاچار لوگوں کے حق میں آواز بلند کرنے والے رؤف کلاسرہ کے اندر یقیناً اپنی بستی کے لوگوں کی محرومیوں کو دور کرنے کا درد بھی موجود ہے۔
جیسل میں اپنے قیام کے دوران بستی کے جن چند لوگوں سے ملاقات ہوئی انھوں نے جو بات مجھے انتہائی مسرت کے ساتھ بتائی وہ یہ تھی کہ’’ ہماری بستی میں سوئی گیس آ گئی ہے‘‘۔ اس لمحے میں نے اُن کے لہجے میں رؤف کلاسرہ کیلئے ایک احترام کی جھلک دیکھی۔ میں گاؤں کے مخصوص ماحول کی وجہ سے بستی کی کسی خاتون کو نہ مل سکا۔ لیکن گیس کی سہولت کا سب سے بڑا فائدہ خواتین کو ہوتا ہے۔ کسی آبادی میں گیس کی آمد کیلئے انتظار اور امید کی جو کیفیت خواتین کے اندر پائی جاتی ہے مجھے اس کا بخوبی احساس ہے اس لیے کہ میری ماں گزشتہ سال ہا سال سے میرے آبائی قصبہ کلورکوٹ میں سوئی گیس کی آمد سے متعلق بے چینی سے منتظر رہی ہے۔ میری ماں کی وہ امید اور بے چینی خواتین کو سوئی گیس سے پہنچنے والی سہولت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
ہم جیسل میں جانے والی پکی سڑک سے گزرتے ہوئے مظہر عباس کے بڑے بھائی اظہر عباس کی حویلی میں پہنچے۔ جنہوں ہماری تواضع کی۔
گاڑی کو اظہر عباس کی حویلی کے سامنے کھڑا کرنے کے بعد ہم موٹرسائیکل پر سوار ہو کر شام ڈھلے ہی بستی جیسل میں گھومنے نکل کھڑے ہوئے۔ کیونکہ سورج غروب ہونے سے پہلے میں بستی جیسل کے مختلف مقامات کا نظارہ کرنے اورانھیں کیمرہ کی آنکھ سے محفوظ کرنے کا خواہاں تھا۔ جس میں ادب دوست نوجوان مظہر عباس کی پھرتی میرے کام آئی۔ اور ہم گاڑی کی بیرونی سڑک پر قائم سرکاری تعلیمی اداروں اور عمارات کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرتے ہوئے بستی جیسل میں داخل ہوئے اور جیسل کی کچھ معدوم ہوتی عمارات کا نظارہ کیا ان پرانی عمارتوں کے ڈھانچے بستی کلاسرہ کی قدامت کی داستان سنا رہے تھے۔ ہم نے بستی جیسل کے اس گورنمنٹ پرائمری سکول کی عمارت کو بھی کیمرہ کی آنکھ میں محفوظ کیا جہاں کبھی رؤف حروف تہجی سے کھیلتا تھا۔ لیکن اب نہ کھیل کا وہ کھلا میدان اور نہ ماضی کہ وہ کچے پکے کمرے بلکہ اب وہاں سکول کی نوتعمیر شدہ عمارت ہے جسے چاروں طرف سے پختہ چاردیواری نے گھیر رکھا ہے۔
شام کے سائے ڈھل چکے تھے۔ سورج دریائے سندھ کے اس پار مغرب میں اپنی آخری کرنیں بکھیر رہا تھا۔ اب ہم بستی جیسل سے نکل کوٹ ادو جانے والی سڑک پر آ گئے۔ ہماری منزل نزدیکی اڈا حافظ آباد تھی۔ جہاں رؤف کلاسرہ کا ایک ہم جماعت ایک چھوٹے سے کولڈ کارنر کے ذریعے اپنی روزی روٹی کا بندوبست کیے ہوئے ہے۔
بزلہ سنج غلام شبیر عرف جگو نے ہمارا بڑی پرتپاکی سے استقبال کیا۔ اور جب ہم نے اسے بتایا کہ ہم رؤف کلاسرہ کے ساتھ گزرے اس کے بچپن کے دنوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو اس نے انتہائی خوشدلی سے رؤف کلاسرہ کے ساتھ بچپن میں بیتے دنوں کا قصہ سنایا۔ جگو نے بتایا کہ رؤف کلاسرہ ہمارے ساتھ مل کر شرارتیں بھی کرتا تھا لیکن بچپن سے ہی پڑھائی پر بھی توجہ دیتا تھا اور تعلیم پر اس کی اسی توجہ نے اُسے آج بڑے مقام پر پہنچایا ہے۔ جگو کے لہجے میں رؤف کلاسرہ کیلئے ایک اپنائیت تھی اور رؤف سے دیرینہ رفاقت کی جھلک اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ جگو نے بڑے پرجوش لہجے میں یہ واقعہ بھی بتایا کہ’’ جب بستی جیسل کے پرائمری سکول سے پنجم کا امتحان پاس کرنے کے بعد قریبی قصبہ کے ہائی سکول میں داخل ہوئے تو ایک دن رؤف کے جوتے سکول میں گم ہو گئے تو واپسی پر اس نے (جگو نے) اپنے جوتے رؤف کو پہننے کیلئے دیئے تھے۔‘‘
یہ واقعہ بیان کرتے وقت جگو کے لہجے میں رؤف سے رفاقت کی حلاوت تھی۔
رؤف کے بچپن کے دوست جگو سے ملنے کے بعد ہم واپس بستی جیسل آگئے۔ رات مظہر عباس کے بھائی کے گھر قیام کیا۔ اظہر عباس کے نو تعمیر شدہ مکان کے صحن میں جو اُس رات نیند آئی اس کا لطف آج بھی ہمارے دماغ کو تمانیت دیتا ہے۔
اگلی صبح ناشتہ کے بعد ہم رؤف کلاسرہ کے آبائی گھر کا بیرونی نظارہ کرنے کے بعد واپسی کیلئے روانہ ہوئے۔ لیکن مظہر نے واپسی پر بستی سے نکلتے ہوئے ایک زیر تعمیر کوٹھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مکان رؤف کلاسرہ کے بھانجے تعمیر کروا رہے ہیں وہاں پہنچے تو رؤف کے بھانجے ڈاکٹر منصور کلاسرہ اور راشد اقبال کو تعمیراتی کام کی نگرانی کرتے ہوئے پایا۔
ایک غیر رسمی ماحول میں ’’ہماچے‘‘ پر بیٹھ کر منصور کلاسرہ اور اس کے چھوٹے بھائی راشد اقبال سے گفتگو کرنا اچھا لگا۔ ڈاکٹر منصور کلاسرہ لیہ کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں اکنامکس پڑھاتے ہیں جبکہ ان کے چھوٹے بھائی تعلیمی نظم و نسق کے مضمون میں پی ایچ ڈی کر رہے
ہیں۔
ڈاکٹر منصور کلاسرہ نے بتایا کہ رؤف کلاسرہ وقتاً فوقتاً بستی جیسل آتے رہتے ہیں۔
اس روز بستی جیسل کلاسرہ میں ہماری ملاقات یقیناً رؤف کلاسرہ سے نہیں ہوئی تاہم ایک ٹی وی چینل کے پروگرام کے توسط سے اُن دنوں ہماری رؤف کلاسرہ سے مواصلاتی ملاقات رہی۔ رؤف کلاسرہ بحیثیت صحافی جس بے باکانہ انداز میں بے حسی اور معاشرتی نا انصافیوں کے خلاف آواز اٹھاتا ہے وہ اُسی کا خاصہ ہے۔ تھل کی مٹی سے جنم لینے والے اس سپوت نے خارزار صحافت میں بہت کم عرصہ میں ایک نڈر صحافی کے طور پر اپنی پہچان بنائی ہے۔ رؤف کلاسرہ کے بارے انھی خیالوں میں گم ڈاکٹر منصور کلاسرہ سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کر کے ہم واپس لوٹ آئے۔
محمدشاہد رانا ۔بھکر