صحافی کے قتل کو 9 سال گزر گئے، پولیس اب تک لاعلم
پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر میر پور خاص کے لیے اردو روزنامہ جنگ کے رپورٹر اور بیورو چیف زبیر احمد مجاہد کے قتل کو نو سال گزر چکے ہیں اور پولیس کی جانب سے ان کا مقدمہ اب تک کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ درحقیقت، میں معاملہ آج بھی کرائم برانچ حیدرآباد میں پھنسا ہوا ہے۔
زبیر مجاہد کے خاندان نے کئی دروازے کھٹکھٹائے اور انصاف طلب کیا لیکن یہ سب بے سود و بے کار گیا۔ زبیر مجاہد کی بیوہ رشیدہ زبیرنے جنوری 2008ء میں اس وقت کے گورنر سندھ؛ جون 2008ء میں وزیر اعلیٰ سندھ؛ عدالت عظمیٰ پاکستان کے چیف جسٹس اور سابق وزیر داخلہ سندھ کو کئی خط (بذریعہ ڈاک) بھیجے جن میں انصاف کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن کسی کا کوئی جواب نہیں ملا۔
تقریباً 30 سالوں سے صحافت سے وابستہ زبیر مجاہدکو ممکنہ طور پر جبری مشقت اور نجی عقوبت خانوں جیسے مسائل پر اپنی رپورٹنگ اور خبروں کی وجہ سے 23 نومبر 2007ء کو قتل کیا گیا تھا، جو مقامی جاگیردار پولیس کی پشت پناہی سے چلاتے تھے۔ میر پور خاص میں اسٹیشن ہاؤس آفسر، اسسٹینٹ سپرنٹینڈنٹ پولیس اور ان کے ڈرائیور کی جانب سے نور محمد اور ننگر کیریو پر نامی دو بھائیوں پر تشدد کے حوالے سے 6 جون 2007ء کوجنگ میں چھپنے والی خبر کے ردعمل میں ان کو موت کی دھمکیاں ملی تھیں۔
مقتول صحافی کے بیٹے سلمان مجاہد کے مطابق ان کے والد کو ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) عبد اللہ شیخ کی جانب سے موت کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ زبیر مجاہد کو گرفتار بھی کیا تھا، انہیں مختلف طریقوں سے پریشان کیا، سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور مجاہد کے دوستوں کو بھی دھمکایا۔
زبیر مجاہد نے اپنی اہلیہ کو بتا دیا تھا کہ اگر ان کے ساتھ یا اہل خانہ میں سے کسی کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آیا تو مقدمہ ڈی پی او کے خلاف درج کروایا جائے۔
اپنے ہفتہ وار کالم "جرم و سزا” میں زبیر مجاہد با اثر جاگیرداروں کی ناانصافی کے واقعات اور پولیس کے مظالم پر روشنی ڈالتے تھے۔ اپنے اہل خانہ سمیت اغوا کیے گئے جبری مزدور منو بھیل کے مشہور کیس کی رپورٹنگ کرنے پر اسٹیشن ہاؤس افسر درجے کے چار پولیس اہلکار گرفتار ہوئے تھے۔
زبیر مجاہد کے قتل کے بعد اردو روزنامہ جسارت میں ظہیر احمد کے شائع ہونے والے کالم کے مطابق "منو بھیل جیسے معاملات کی خبروں کے بعد ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس کی گرفتاری کی خبریں موضوع بن گئی تھیں اور زبیر مجاہد ان خبروں کی وجہ سے مقبول ہوگئے تھے۔ مجاہد نے اپنی خبروں میں پولیس نظام کی خامیوں کی طرف اشارہ کیا۔ اپنے قتل سے سات دن قبل 14 نومبر 2007ء کو جنگ میں شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں میرپور خاص میں نئے ڈی آئی جی کی تقرری پر بات کی اور بتایا کہ اس سال سات ڈی آئی جیز کی تقرری اور تبادلے ہو چکے ہیں۔
مقدمہ مقتول صحافی کے بھائی چودھری افتخار آرائیں کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔ مقتول صحافی کی جانب سے حکومت کو لکھے گئے خطوط کے مطابق سب ڈویژنل پولیس افسر (ایس پی او) عطا محمد نظامانی کی قیادت میں ایک چھ رکنی ٹیم قتل کی تحقیقات کر رہی تھی لیکن کوئی سیر حاصل نتائج نظر نہیں آئے۔
اس معاملے کی پیروی کرنے والے مجاہد کے قریبی عزیز خالد پرویز کے مطابق مجاہد کو بہت قریب سے ہدف بنایا گیا۔ ان کی شرٹ میں گولی کا سوراخ نہیں لیکن ان کے بنیان میں موجود تھے؛ جس سے لگتا ہے کہ پستول ان کے پیٹ پر رکھ کر گولی چلائی گئی تھی۔
مجاہد اپنے صحافی دوست واحد پہلوانی کے ساتھ موٹر سائیکل پر گھر جا رہے تھے، جنہوں نے گولی لگتے وقت مجاہد کے ساتھ اپنی موجودگی کی تصدیق کی تھی۔ پہلوانی کا کہنا تھا کہ "میں گھر جاتے ہوئے مجاہد کے ساتھ تھا جب غلط سمت سے آنے والی ایک موٹر سائيکل ہمارے پاس سے گزری، اسی دوران دھماکے کی ایک آواز سنائی دی لیکن میں سمجھا کہ ہماری موٹر سائیکل کا ٹائر پھٹ گیا ہے۔ لیکن اسی وقت مجاہد اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے کیونکہ خون نہیں نکل رہا تھا اس لیے میں سمجھا کہ مجاہد کو دل کا دورہ پڑا ہے، میں انہیں جاوید آرائیں کی گاڑی میں سول ہسپتال میر پور خاص لے گیا، جہاں مجھے پتہ چلا کہ مجاہد کو گولی ماری گئی تھی اور وہاں ان کا انتقال ہوگیا۔