پولیس قانون سے بالاتر کیوں؟
شاہداقبال شامی
ہمارے ملک کی پولیس اپنے منفی رویے کی وجہ سے مشہور ہے ہمارے معاشرے میں ان کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا لوگ ان کو دیکھ کر اپنا راستہ بدل لیتے ہیں اور ان کے ساتھ تعاون کم ہی کیا جاتا ہے ،شریف اور ایماندار لوگ پولیس والوں کے ساتھ میل جول کم ہی رکھتے ہیں،تھانا ان کے لیے ایک برے سپنے جیسا ہے ،پولس کے ساتھ لوگوں کا رویہ عموماٹھیک نہیں ہوتا،اس میں سب سے اہم وجہ پولیس کا اپنا کردار ہے کیونکہ لوگ پولیس کو اور پولیس والے بھی خودکو قانون سے بالاترسمجھتے ہیں اور یہ بات حقیقت کے قریب تر بھی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پولیس آرڈینس میں2010کی ترمیم کے بعد 155سی کے تحت 13سالوں میں پولیس اہلکاروں کے خلاف4ہزارسے زائد مقدمات کا اندراج ہوالیکن کوئی بھی افسر یا اہلکار سزا کی زد میں نہ آسکا،پولیس اختیارات کے ناجائزاستعمال،رشوت خوری اور دیگر چھوٹی بڑی بدعنوانیوں میں ملوث اہلکار صرف مقدمات تک ہی محدود رہے۔حیران کن امر یہ ہے کہ75فیصداندارج مقدمات میں ملوث ملزمان کو گرفتار تک نہ کیا جاسکا ،بعدازاں متاثرین کو وقتی تسلیوں کے لیے درج کیے گئے مقدمات کا اخراج بھی افسران کی ہدایت پرکردیا جاتا ہے۔
2002میں سابقہ پولیس نظام کو تبدیل کرتے ہوئے جہاں انویسٹی گیشن ونگ اور دیگر اصلاحات پیدا کی گئیں تھیں وہاں سال 2010میں پولیس نے اس سابقہ ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے مجسٹریٹی اختیارات بھی حاصل کیے تھے،اس پولیس گردی کے خلاف بنائی جانے والے سیکشن 155سی کے تحت محکمہ پولیس سے رشوت ستانی اختیارات کے ناجائز استعمال اور دیگر بد عنوانیوں کو ختم کرنے کے لیے پولیس اہلکاروں کو بھاری سزائیں اور جرمانہ کرنے سمیت محکمہ پولیس سے برطرف کرنے کا مسودہ تیار کیا گیا تھامگر اس مسودہ کے اختیارات پولیس ایکٹ محکمہ پولیس نے اپنے دائرہ اختیارمیں کر لیے تھے،سال2010میں مجسٹریٹی اختیارات چھیننے کے بعد155سی تحت درج کیے گئے مقدمات کے مدعی شہریوں کو ڈرا دھمکا کر یا پھر تفتیشی افسران سے ملی بھگت کر کے یاپھرماہرقانون دانوں کے ذریعے قانونی باریکیوں کا استعمال کرکے باآسانی مقدمات کا اخراج شروع کر دیا،یہی وجہ ہے کہ2002 سے لے کراب تک ایسی کوئی مثال نہیں پائی جاتی جس میں کسی پولیس افسریا اہلکار کو سزا دی گئی ہو،محتاط اعدادوشمار کے مطابق2002میں نئے پولیس نظام کے رائج ہونے کے بعد 2003میں پولیس اہلکاروں اور افسران کے خلاف سب سے زیادہ540مقدمات کا اندراج کیا گیا جو کہ وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ بتدریج کم ہوتا گیا،2004میں503،2005میں 490،2006میں481،2007میں492،2008میں327،2009میں287،2010میں241،2011میں458،2012میں211اور2013میں199،2014میں192اور2015میں درج ہونے والے مقدمات کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
ایسے واقعات کے بعد عوام کا اعتماد کیسے اپنے محافظوں پر رہے گا،عوام کے محافظ اپنے آپ کو قانون سے برتر سمجھتے ہیں اور ان کا رویہ ہتک آمیز ہوتا ہے،اپنی وردی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں،لوگوں کو بلاوجہ تنگ کرنا ان کا معمول ہے،چیکنگ کے دوران تو یہ کسی کو انسان نہیں سمجھتے،ہاں البتہ صاحب حیثیت اور بڑی گاڑی والے کو جھک کر ملتے اور پورے پروٹوکول کے ساتھ ان کے ہر ناجائز کام کو جائز قرار دلوا کر منزل مقصود تک پہنچانا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں۔یہ دوہرا رویہ تو ایک طرف مایوسی پھیلاتا ہے تو دوسری طرف عیاشی اور بدمعاشی کو فروغ دیتا ہے۔
موجودہ دور میں پولیس کی تنخواہ اور مراعات دوسرے تمام محکموں کے ملازمین سے زیادہ ہے۔پھر بھی اس کے ملازمین رشوت لینا ضروری سمجھتے ہیں جو جتنی زیادہ رشوت لیتا ہے وہ اتنا ہی معتبر اور قابل عزت سمجھا جاتا ہے ۔ان کا رویہ روز بروز بگڑتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے عوام کے اندر ان سے نفرت بڑتی جا رہی ہے ضروری امر ہے کہ اب اس محکمہ کا قبلہ درست کرنے کے لیے مثبت،تیز اور دیر پا اقدامات کی ضرورت ہے۔جب تک عوام کے اندر سے ان کے خلاف خوف،غصہ اور غلط فہمیاں دور نہ کی جائیں گی اس وقت تک ہمارے معاشرے سے جرائم کا خاتمہ ناممکن نظرآتا ہے۔پولیس کو اپنے روریہ کو تبدیل کرنا ہو گا،ان پر ایک مضبوط مانیٹرنگ نظام لانا ہو گا جو ان کو سیدھی راہ پر رکھے ،صرف”ماڈل پولیس”نام رکھنے سے تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ ان کی تربیت کی طرف بھرپوردھیان دینا ہو گا،ان کے ذہن میں بٹھانا ہو گا کہ وہ عوام کی خدمت کے لیے ہیں اور ان کو اس پر راسخ کرنا ہو گا کہ کسی بے گناہ کو نہ چھیڑیں اور کسی گنہگار کو نہ چھوڑیں۔
پولس والوں کے مسائل بھی بے شک ہیں ان کی چھٹیوں کا سب سے اہم مسئلہ ہے لیکن ان کو حل بھی کیا جاسکتا ہے ۔عوام کی خدمت اولین ترجیح ہونی چاہیے ،معاشرے کو بنانے اور بگاڑنے میں پولیس کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے،کالی بھیڑیں ہر محکمہ میں موجود ہیں جن کی وجہ سے فرض شناس،ایمانداراور عوامی خدمت کرنے والے بھی معتوب ٹھہرتے ہیں،کالی بھیڑوں کو چن چن کر محکمہ سے نکالا جائے اگر کوئی پولیس آفیسر بھی کسی کیس میں ملوث ہو،ملزم یا مجرم ہو تو اس سے بھی کسی قسم کی رعایت نہ دی جائے،قانون کی نگاہ میں سب کو برابر قرار دیا جائے،قانون کے لمبے ہاتھوں کو صحیح طورپر استعمال کیا جائے نہ کہ منفی طور پر،ہمارے تھانے پولیس سٹیٹ بن چکے ہیں اور عوام کے خادم صاحب ثروت اور سیاسی قائدین کے حکم کی بجا آوری کو ہی اپنی ڈیوٹی سمجھنے لگے ہیں جو ایک غلط روش ہے پولس نظام کو درست کرناانتہائی ضروری ہے ان کا آڈٹ بھی ہونا چاہیے ان کی آمدنی کے ذرائع پر کڑی نگرانی رکھنی پڑے گی ایک دن میں کوئی بھی ادارہ ٹھیک نہیں ہوسکتا،اس کیلیے مسلسل کڑی محنت سخت نظام اور وقت درکار ہے ۔
شاہداقبال شامی
اٹک
0312.6697071