پولیس اور عوام ۔۔۔کیا فاصلے کم ہوں گے؟
از تحریر ملک ابوذر منجوٹھہ
سکندر اعظم جب دنیا کو فتح کرنے کے لیے نکلا تو ایک وقت ایسا آیا کہ اس کو فوج میں موجود جنگجو جو بہت زیادہ عرصے سے گھر سے دور تھے گھر کی یاد ستانے لگی ،سکندر اعظم کی حکم عدولی شروع ہوتی نظر آنے لگی ۔لشکر میں بے سکونی کیفیت چھانے لگی اور پیش قدمی روک دی گئی سکندر اعظم اس سب سے پریشان نظر آنے لگا اس نے اپنے اُستاد ارسطو سے مشورہ لینے کا سوچا اپنے لشکر کا ایک جگہ پر پڑاؤ کروا دیا اور اپنا ایک خاص ایلچی کو خط لکھ کر اُرسطو کی طرف بھیج دیا۔
ایلچی نے بھی سکندراعظم کے حکم پر تیز رفتاری سے اپنا سفر پورا کیا اور ارسطو تک جا پہنچا ۔ارسطوکو سکندر اعظم کا خط پیش کیا۔ارسطو نے خط پڑھنے کے بعد اپنی جگہ سے اُٹھا اور ایلچی کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ارسطو ان دنوں بیمار تھا وہ ایلچی کے ساتھ اپنے باغ میں پہنچا اور اپنے مالی کو حکم دیا کہ سڑے ہوئے پرانے درخت جڑھ سے اُکھاڑ پھینکوں اور اس کی جگہ نئی پنیری لگاؤ۔مالی نے اپنے مالک کا حکم مانا اور بہت تگ و دو کے ساتھ سڑے ہوئے پرانے درختوں کوں کو اُکھاڑ کر نئے پودے لگادیے اور ایلچی کو بغیر کسی بات کے جانے کو کہا۔
ایلچی بغیر کسی چوں چراں کے واپسی کی راہ لی اور سکندر اعظم کے پاس پہنچا سکندر اعظم اپنے استاد کے طرف سے خط کی انتظار میں تھا ایلچی نے آکر بتایا کہ ارسطو نے بغیر خط کے اس کو بھیج دیا ہے کوئی جواب نہیں دیا اس سب سے سکندر اعظم کو پریشانی ہوئی اور اس نے ایلچی کو پوری روداد سنانے کا کہا ایلچی نے ساری کہانی بیان کی کہ کس طریقہ سے خط پڑھ کر وہ اپنے باغ میں لے گئے اور اپنے کام میں مصروف ہو گئے اور مجھے جانے کا حکم دے دیا۔
سکندراعظم کی سمجھ میں اپنے استاد کا پیغام آچکا تھا اس نے اپنے استاد کے حکم مطابق اپنی فوج سے حکم عدولی کرنے والے جنگجوؤں کو نکال باہر کیا اور ان کی جگہ نئے بھرتی کی نئے آنے والے جنگجوؤں نے پرجوش انداز میں جنگ لڑی اور دنیا کو فتح کرنے کے لیے نکل پڑے۔سکندر اعظم کی کہانی تو یہاں تک ختم ہوگئی ۔لیکن پنجاب پولیس کی کہانی ابھی رہتی ہے ۔ میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم پنجاب پولیس اور مولاجٹ کے کردار کا ذکر کیا تھا وہ ایک رُخ تھا اگر دوسرے رُخ کی بات کی جائے تو جس تھانے میں لوگ جانے سے ڈرتے تھے جس میں بیٹھا اسٹیشن ہاؤس آفیسر کو ایسے سمجھا جاتا تھا کہ آپ بات کرنے جائیں گے تو وہ بس آپ کو گرفتا ر کر لے گا۔ اُس کی کچھ وجوہات یہ تھیں کہ اُس وقت پولیس میں بہت کم پڑھے لکھے لوگ تھے تھپڑ گالی سے کم تو کسی سے بات کی ہی نہیں جاتی تھی ۔لیکن اب وقت بدل رہا ہے دنیا گلوبل ویلیج میں تبدیل ہو رہی ہے ضلع لیہ میں کیپٹن (ر) محمد علی ضیاء جیسے نوجوان ڈی پی او صاحب جو کہ جوان سوچ کے مالک ہوں تمام نئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے خوب واقف ہوں سوشل میڈیا سے جڑے ہوئے ہوں جس سے برائے راست خبر پر ایکشن لیتے ہوں تو وہاں ضرور لوگوں کا اعتماد پولیس کے محکمہ پر بڑھنا ہے ۔ مجھے لیہ کے تھانہ کوٹ سلطان کے تین ایس ایچ اوز سے ملنے کا موقع ملا سرفراز گاڈی ، شاہد رضوان مہوٹہ اور اصغر لغاری صاحب تینوں میں ایک بات مشترک نظر آئی ہے کہ تینوں اچھی سوچ اور خصوصیت کے مالک تھے ۔یہ نوجوان ہیں پڑھے لکھے
ہیں مجرم سے نہیں جرم سے نفرت کرنے والے لوگ ہیں اس طرح کے اور بھی بہت سے نوجوان اچھی سوچ کے لوگ اس محکمہ میں
موجود ہیں وجہ بدنامی وہ ہوتے ہیں جو صاحب سے بڑے صاحب بنے ہوئے ہوتے ہیں ۔ دوسرا کردار اگر دیکھا جائے تو وہ ہے سوشل میڈیا کا کردار اور پبلک ریلشننگ آفیسر کا ہے عرفان فیض کے کردار کا ذکر نہ کیا جائے تو بات ادھوری رہے گی پہلے ہم لوگوں کو صرف پولیس کی متعلق منفی چیزیں ہی سننے کو ملتی رہی تھیں لیکن محکمہ میں پبلک ریلشننگ آفیسر کے ہونے کی وجہ سے پولیس کے متعلق مثبت کردار اُبھر کر لوگوں کے سامنے آ رہا ہے لوگوں کا پولیس پر اعتماد بڑھتا نظر آتا ہے آئی جی صاحب سے گزارش ہے کہ آپ پولیس میں سے سیاسی پریشر کو کم کروائیں ،کرپٹ ، اور کالی بھیڑوں کے خلاف ایکشن لیں اور ان کو جڑھوں سے اُکھاڑ پھینکیں جن کی توندیں حرام کھا کھا کر بڑھ گئی ہیں ان سب نکال کر نئے نوجوان لے آئیں جو پڑھے لکھے ہوں جو ملک کو جرم سے پاک دیکھنا چاہتے ہوں ۔پولیس والے بھی انسان ہیں 24گھنٹے ڈیوٹی ٹائمنگ کی بجائے لوگ بڑھائیں ڈیوٹی کو دو حصوں دن اور رات کی ڈیوٹی میں بدل دیں تازہ دم ہوں گے تو جرم کے خلاف بھی بہتر لڑیں گے ۔ان کو ماہانہ کی بنیاد پر Evaluateکروائیں جن کو کارکردگی صفر ہے ان کو جبری ریٹائر کروائیں جن لوگوں نے اچھی کارکردگی دکھائی ہو ان کو انعام سے نواز دیں پھر دیکھیں تبدیلی کیسے نہیں آتی ۔اگر یہ سڑے ہوئے درخت رہیں گے تو یقین جانیں ان کو دیکھ کر کبھی عوام کو تحفظ کا احساس نہیں ہوتا بلکہ خوف محسوس ہوتا ہے کہ ہم سے ہی کچھ نہ چھین لیں ۔ہمارے ایسے نوجوان جنہوں نے اپنے فرائض کو پوار کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا سلام ہے ان شہداء پر ان کی ماؤں پر جنہوں نے ایسے شیروں کو جنم دیا جنہوں نے اپنی جان کی پروا نہیں کی اپنے فرائض کے لیے ۔ 04اگست جب یوم شہدا پولیس منایا جائے گا تو میں پنجاب کے تمام شہریوں کو درخواست کرتاہوں آپ اس دن جا کرجہاں بھی آپ کو کوئی پولیس اہلکار ملے اس کا شکریہ ادا کریں ان کو عزت دیں یقین جانیں آپ محسوس کریں گے وہ فرد خود کو تبدیل کرے گا وہ زیادہ محنت سے اور محبت سے لوگوں کے کام آئے گا۔
ملک ابوذر منجوٹھہ