پاکستان ناقابل تسخیرہے
اسدملک
پاکستان کا پچاسواں یومِ دفاع جہاں ہمیں تجدید عہد، تجدیدِ وفا کا موقع میسر کرتا ہے وہاں یہ ہمیں ایک قوم کی باہمی یگانگت کی لازوال داستان بھی سناتا ہے جس میں پاکستانی عوام اپنی افواج کے شانہ بشانہ دشمن کے سامنے نہ صرف سینہ سپر ہوئیں بلکہ اُسے ایک ایسی عبرت ناک شکست سے بھی دوچار کیا کہ جس کا غم اور تکلیف کی کرائیں آج بھی سنائی دیتی ہیں۔ آج بھی بھارتی افواج ، اچانک سوتے میں بڑبڑاتے ہوئے اُٹھ بیٹھتی ہیں اور خوف کے گہرے سائے اُن کی خوفزدہ نگاہوں میں اپنی جا ء بنائے ہوئے ہیں۔موجودہ تناظر پر نظرڈالنے سے ذرا پہلے ہمیں تاریخ کے اُس سنہری دور کو یاد کر لینے کی ضرورت ہے کہ جس کی دھاک آج بھی بنیے کے دل و دماغ پر بیٹھی ہوئی ہے۔ ستمبر کی بارود آلود فضاؤں میں داخل ہوتے ہیں تو کیا آپ کوکچھ سنائی دیا! ٹھاہ۔۔۔ٹررر۔۔۔ڈھم ڈھم ڈھ۔۔۔جی ! یہ ریفل جی تھری کے فلش ہیڈر سے لپکتی گولی کی للکارہے جب کہ وہ دوسری ایل ایم جی کے ریکائل بوسٹر سے اچھلتی کودتی ، جوش میں چنگاڑتی گولیوں کی پکار ہے۔ جی ہاں ! یہ دھماکے دارآواز میدانِ جنگ کی ملکہ توپ کے دہانوں سے برستے ہوئے گولوں کی بانگِ حرب ہے۔
ذرا آگے بڑھئے تو کیاآپ کو کچھ دکھائی بھی دیا! نہیں !! تو میرے ساتھ دیکھئے۔ وہاں اس طرف جہاں پہاڑ کے سینے پر پہاڑ سا شیر کھڑا ہے ، جہاں ندی میں سرخ پانی بہہ رہاہے یہ نائیک سیف علی خان کے لاجونتی لہو کا رنگ ہے جو ٹوٹے پھوٹے بے ترتیب کشمیری لشکروں کی ڈھال بن چکا ہے۔وہاں دیکھئے! یہ اُوڑی سیکٹرکی تَل پترہ پہاڑی ہے جس نے کیپٹن سرور سے جی دار سپاہی کوجب اپنے سینے میں جگہ دی تو پہاڑبن گئی۔اِدھرلکشمی پور کا محاذ میجر طفیل کے پیروں تلے روندا جارہا ہے جب کہ دوسری طرف برکی محاذ کے پہلو میں بی آر بی کنال میجر عزیز بھٹی کے نعرۂ لَا تَذَرکے جواب میں صدائے اللہ اکبر بلندکرتی ہوئی رواں دواں ہے۔اُدھر زمیں کی آنکھ سے آسماں کی طرف تو دیکھئے! راشد منہاس سا شاہین دھرتی ماں کے قدموں کو چومنے چلا آرہاہے۔اِدھر ہلی سیکٹر کو میجر اکرم نے ہلا کے رکھ دیا ہے۔اُدھر سلیمانکی کے ہیڈ ورکس پر میجرشبیر شریف ، ہرار خوردکے گاؤں کی فصیلوں پرسوار محمد حسین اور پل کنجری پر لانس نائیک محفوظ نے سبز ہلالی پرچم لہرا دیا ہے جب کہ کارگل کے برف پوش پہاڑوں پر کیپٹن کرنل شیر خان اور حوالدار لالک جان نے ایک نئی تاریخ لکھ ڈالی ہے۔
یہ میرے وطن کی سرحدوں کی تصویر ہے جہاں بارود کی خوشبو، سرد ہوا اور رات کی تاریکی، تاریکی بھی ایسی جو جان لیوا، بم دھماکے اور کانوں اندرسائیں سائیں سناٹا جو روح تک خوف ہی خوف بھر دے ۔ میرا ناتواں وجُود کل بھی وہیں موجُود تھا اور آج بھی وہیں سرِ بسجود ہے ۔ یہاں میرے آس پاس بکھرے لا تعداد لاشے اور شہیدوں کے اجسام ہیں۔ خون سے بھرے گہرے سرخ بادل اور ان سے برستی لہر در لہر تیز بارش ہے جس میں، میں نہ جانے کیسے زندہ تھا؟ مجھے نہیں خبر کہ رات کی تاریکی کب تلک چھائی رہی، سرد ہوا میں نغمۂ لہو رنگ کب تلک گنگناتا رہا اور شہدائے وطن کے لیے دَفِ خیرکب تلک دھن دھناتا رہا ۔ مگر قسم ہے اس ذات کی جب صبح ہوئی تو میں نے خود کو شہیدوں کے جسموں سے بننے والے جہانِ نو میں پایا جسے پاکستان کہا اورجہاں بے جان لاشوں کی پُر نور آنکھوں میں وَلَاتَقُوْ لُوْلِمَنْ یَّقْتُلْ فی سبیل اللہ اَمْوات بَلْ اَحْیاء وَ لَکنْ لَاْ تَشْعَرُوْنْ اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں اُنہیں ہرگز مردہ مت کہو وہ تو زندہ ہیں اور تم اُن کا شعور نہیں رکھتے، کی سنہری تحریر جگمگا رہی تھی۔
وطنِ عزیز پاکستان کی بنیاد مٹی گارے کی دیواروں پر نہیں ،شہدا کے لہو سے رکھی گئی ہے۔اس حقیت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جو قومیں اپنے غازیوں اور شہیدوں کے افکارو کردار کو مناتی اور زندہ رکھتی ہیں وہ ہمیشہ امر ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں اپنے اسلاف کی قربانیوں کو مشعلِ راہ بنانے کی روایت بھی پرانی ہے۔ آج کا دن جہاں ہمیں شہداء کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا موقع دیتا ہے وہاں موجودہ حالات میں سینہ سپر افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ دشمن کو ایک بار پھر سے عبرت ناک شکست کا متقاضی بھی ہے۔ آج ہمیں ہمہ جہتی دشمن کی چالوں کا سامنا ہے ، کہیں تو دہشت گردی کی صورت، کہیں سرحدی در انازی کی صورت، کہیں کرپشن اور کہیں پر انداونی و بیرونی معاملات جن سے نہ صرف افواج پاکستان بطریقِ احسن نبٹ رہی ہی بلکہ آنے والے دنوں میں اس کے نئے امکانات کو بھی معدوم کرنے میں پیش پیش ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج بھی ہماری افواج کی قربانیوں پر تحسین اور ہر محاذ پر ڈٹ جانے کا جواں حوصلے میں ہماری عوام ساتھ ساتھ ہیں ۔ آج بھی ہماری مائیں فوجی پتروں کو یہ دعا دے کر رخصت کررہی ہیں کہ بیٹا! دھرتی ماں کے پیروں کی خاک ہی جنت کا دروازہ ہے۔آج بھی بوڑھا باپ اپنے جوان بیٹے کو واطن کے دفاع پر قربان کر دینے میں فخر محسوس کرتا ہے ۔ آج بھی بھائی اپنے فوجی بھائی کے ساتھ شانہ بشانہ مورچوں تک جانے اور دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں سب سے آگے نظر آتا ہے۔ آج بھی ہماری بہنیں اپنے سروں کی چادروں کا امام ضامن بنا کر بھائیوں کے کندھوں سے باندھ رہی ہیں۔ آج بھی بیویاں اپنے شوہروں کو تلوار تھامتے ہوئے فخر سے سرحدوں کی جانب روانہ کرتی ہیں اور آج بھی بچے اپنے شہید و غازی باپ کے تمغوں کو سینوں پر سجا کر چھاتہ تان لیتے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار بھی کسی طور ممکن نہیں کہ غازیانِ وطن کے کارناموں کا اندازہ تمغہ و اسلحہ کی چمک اور جھنکار سے نہیں کیا جاتا بلکہ ٹوٹی ہوئی تلواروں،بکھری ہوئی زرہوں، بہتے لہو، دہکتی روح اور ڈوبتے سورج کی سرخی سے کیا جاتا ہے ۔ آج وطنِ عزیز پاکستان کا ہر بچہ ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ ملکی استحکام کے لیے کوشاں ہے۔ آج ہمارے بیچ اُن بچوں کی شہادتوں کا لہو بھی روشن ہے کہ جنہوں نے معصوم جانوں کو اپنے وطن کی نئی صبح کی خاطر لٹادیا لیکن یہ بات روزِ روشن کی طرح پوری دنیا میں واضح ہے کہ پاکستان کسی بھی اندرونی و بیرونی سازش کا قلع قمع کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے جبھی تو میں نے کہا کہ پاکستان ناقابلِ تسخیر ہے۔ ان جذبات کے ساتھ اجازت چاہوں گا:
تری شہادت
وطن پہ قربان ہونے والوں کا سلسلہ ہے
یہ سلسلہ ہے
مرے وطن کی بقاء کا ضامن
یہ وہ بقا ہے جو دشمنوں کی تمام سوچوں سے بالاتر ہے
*۔۔۔*۔۔۔*