نقطہ نظر ۔۔۔
عادت چھوڑی نہیں جاتی
راحت عائشہ . کراچی۔
"ایک زمانہ تھا کہ کراچی اور سندھ میں جب چھٹی کا دل کرتا تھا ایک ہڑتال کرلیتے تھے اور آرام سے ٹی وی دیکھا کرتے تھے لیکن جب سے ملک میں آپریشن ضربِ عضب اور سندھ میں آپریشن ضربِ غضب شروع ہوا ہے، ہم لوگ ترس گئے تھے گھر میں بیٹھنے کو، اوپر سے وفاقی حکومت نے یومِ اقبال کی چھٹی ختم کرکے اور ستم ڈھا دیا تھا۔ وہ تو اللہ بھلا کرے سندھ کی صوبائی حکومت کا جس نے اپنی "بے چاری عوام” کا بھرپور خیال کیا ہے اور اس سال سے شاہ لطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی چھٹیوں کا رواج ڈالنے کے ساتھ ہولی، دیوالی اور ایسٹر کی چھٹیوں کا بھی اضافہ کردیا ہے۔ اب سمجھ نہیں آرہا ہے کہ "اِس” منہ سے "کس” منہ کا شکریہ ادا کریں۔ بہرحال شکریہ سائیں سرکار کہ آپ نے ہمیں آرام کرنے کا موقع بڑے آرام سے فراہم کردیا۔۔۔۔
خبر کچھ یوں ہے کہ وزیر اعلی سندھ کے سینئر مشیر جناب مولا بخش چانڈیو نے سید قائم علی شاہ کے حکم مبارک پر صوبے بھر میں ہولی کھیلنے، دیوالی کے پٹاخے پھوڑنے اور ایسٹر کے انڈے رنگنے اور بانٹنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے اوراس نوٹیفکیشن کو ٹوئیٹر پر سب سے پہلے شئیر کرنے والی بختاور بھٹو ہیں ۔ گویا وہ بھی چھٹیوں کی نیند کو ترسی بیٹھی تھیں اس لیے چھٹی کی خبر میں سب پر بازی لے گئیں، لیکن اس نوٹیفیکیشن کا اگر زرا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس نوٹس کی سرکاری حیثیت کیا ہے؟ نہ ہی اس پر کوئی قانونی حیثیت درج ہے، حتیٰ کہ تاریخ کی جگہ بھی خالی ہی پڑی ہے اور نہ کسی کے دستخط اس نوٹیفیکیشن پر موجود ہیں۔ بھنگ والی سرکار کسی یار دوستوں کی اڑائی ہوئی کہانی ہے حقیقت میں ایسا کچھ نہیں۔۔ یہ تو آپ بھی جانتے ہیں افواہ تو ہوتی ہی پھیلنے کے لیے ہے۔
عام طور پر مہذب قوموں میں عام تعطیل کا دن آگہی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ قومی تعطیلات کو ان کے شایانِ شان منانا اور آنے والی نسلوں کو ان سے بہرہ ور کرنا ایک مہذب معاشرے کی پہچان ہے۔ پاکستان میں قومی اعزاز میں منائی جانے والی تعطیلات کچھ ذیادہ ہونے کے باعث سالِ رواں میں حکومتِ سندھ نے کچھ "غیر ضروری تعطیلات” کو ختم کرنے کا اعلان کیا جو قومی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہی تھیں۔ ان میں یومِ دفاع چھ ستمبر، اقبال ڈے نو نومبر، گیارہ ستمبر، عیدالفطر اور عید الاضحیٰ کے تیسرے چوتھے دن بھی شامل ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ صوبے کو ترقی کی راہ پر لانے کے لیے دن رات مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں جس کے لیے وہ امیر غریب، آقا محکوم، اکثریت اور اقلیت (عقلیت میں بھی ) میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے۔
چونکہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور ملک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی ستانوے فیصد آبادی مسلم اکثریت کی ہے، جبکہ دو فیصد ھندو اور ایک اعشاریہ چھ فیصد عیسائی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار مکمل طور پر کسی صوبے بھر میں اقلیتی تہواروں پرعام تعطیل کی جاۓ گی۔ اس خبر کو انڈیا میں بھی بڑے ذوق و شوق سے سنا گیا بلکہ بڑے بڑے اخباروں نے تو اس خبر کو تصویروں کے ساتھ اپنے اخبار کی زینت بنایا جن میں ھندوستان ٹائمز اور انڈیا ٹائمز سر فہرست ہیں۔
قومی اسمبلی میں تین نئی تعطیلات کی منظوری دی گئی۔ اس سلسلے کی پہلی تعطیل بروز جمعرات چوبیس مارچ دو ہزار سولہ کو ہوگی جو کہ "کلوزڈ ہالی ڈے” پر جاۓ گی۔
کلوزڈ ہالی ڈے کی اصطلاح بھی بہت خوب ہے۔ تعطیل کا وہ دن جو اتوار یا کسی اور چھٹی کے دن آجائے تو اگلے دن دے دی جاتی ہے۔( کلوزڈ ہالی ڈے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ایک مخصوص طبقے کے مذہبی تہوار پر ملک کے سرکاری و غیر سرکاری ادارے بند ہوں۔)
ہولی کا تہوار ہندوؤں میں سردیوں کے آخری پورے چاند کی رات کو منایا جاتا ہے جو پاکستان ہندوستان کے مطابق 23 مارچ کو ہوگی لیکن چونکہ تئیس مارچ یومِِ پاکستان ہے لہذا یہ تعطیل چوبیس کو منتقل کر دی گئی ہے۔ دوسری تعطیل دیوالی کی ہوگی جس میں آتش بازی اور پٹاخے پھوڑ کر اپنے دیوتاؤں کو راضی کیا جاتا ہے۔ ابھی ہم ایک بسنت کے متحمل نہیں ہو پارہے ہیں۔ ہر سال نہ جانے کتنی گردنوں پر دور پھر جاتی ہے۔ اس آتش زنی کے بعد قائم علی شاہ کتنے راضی ہو پاتے ہیں یہ تو اللہ ہی جانے۔
دو اور ایک فیصد آبادی کی خاطر دی جانے والی تیسری تعطیل ایسٹر ہوگی جو عیسائیوں کا مذہبی تہوار ہے جو اپریل کے مہینے میں چودھویں کے چاند کے بعد جو پہلا اتوار آئے اس دن منایا جاتا ہے۔ چونکہ یہ تو منایا ہی اتوار کو جاتا ہے لہذا قومی و صوبائی ترقی کے لیے اس کے اگلے دن تمام اقلیت و اکثریت اپنے گھروں میں آرام فرما ہوگی جن میں سرکاری و غیر سرکاری ادارے، اسکول کالج اور یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں۔ البتہ لازمی سروس کے اداروں کو خدا معلوم کیوں چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ کھلے رہ سکتے ہیں۔
کچھ بد اندیش دشمنوں کا یہ بھی خیال ہے کہ پاکستان کو خاصے عرصے سے سیکیولر ریاست بنانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور اب بھی کی جارہی ہیں اور یہ اسی سلسلے کی ایک مظبوط کڑی ہے جو زہرِ ہلاہل کو قند میں ڈال کر قوم کے آگے پیش کیا جا رہا ہے، لیکن کہنے والوں کی سنتا کون ہے؟ آپ بھی اسے ناک پر بیٹھی مکھی کی طرح اڑا دیجیے گا آرام میں خلل نہ آنے پائے حضور اتنے عرصے بعد تو مفت چھٹی ہاتھ لگی ہے۔ ویسے بھی بقول غالب
؎ مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
افسوس اس بات کا ہے کیا ہم اپنے بچوں کو اب ان رسومات کے بارے میں تعلیم دیں گے جنہیں ہمارے آبا واجداد ہندوؤں کے ساتھ رہ کر اپنا نہ سکے، جن سے بچنے کے لیے ہمیں ایک الگ ملک بنانا پڑا؟ ہم اپنے ملک میں رہنے والی اقلیتوں کا احترام کرتے ہیں، انہیں عزت دیتے ہیں لیکن میری وزیرِ اعلیٰ سندھ سے ایک گزارش ہے کہ خداراآپ یہ تعطیلات فقط متعلقہ اقلیتوں کو دیجیے اورضرور دیجیے لیکن اس سے پہلے ان کے حقوق فراہم کیے جاتے تو وہ ان کے لیے شاید زیادہ مفید ثابت ہوتے اور پاکستان کی نئی نسل کو اپنے قومی و مذہبی معاملات و متعلقات سے منسلک وابستہ دنوں سے جوڑیے، یہ آپ کا نہ صرف نئی نسل پر بلکہ پاکستان پر بھی احسان ہو گا۔ یاد رہے کہ
پاکستان کا اک مقصد تھا
مقصد پاکستان نہیں تھا
سائیں سرکار چلتے چلتے ایک گزارش اور سن لیجیے۔ سائیں سرکار چھٹیاں کچھ
سوچ کر بڑھائیے کہیں ایسا نہ ہو کہ اس چکر میں آپ کو "چھٹی والی سرکار کا
خطاب دے کر آپ ہی کی چھٹی نہ ہوجائے”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ ،مختلف اہم ترین مو ضوعات پر نقطہ نظر کے عنوان سے قارئین کی تحریریں نیک نیتی سے شا ئع کی جا تی ہیں ادارہ کا ان سے متفق ہو نا ضروری نہیں ۔۔۔ ایڈ من