شاہد رضوان چاند
نوجوان نسل کا تخلیق کار شاعر , نامور پولیس آفیسر
محمد عمر شاکر
نوجوان نسل کا تخلیق کار شاعر , نامور پولیس آفیسر
محمد عمر شاکر
نرم لہجہ عاجزی انکساری سے ہر جاننے اور نہ جاننے والے شخص سے ملنے والا خوبرو نوجوان شاہد رضوان چاند شاعر جبکہ پنجاب پولیس میں شاہد رضوان مہوٹہ کے نام سے جانا جاتا ہے شاہد رضوان بیک وقت پولیس آفیسر اور شاعر ہے دور حاضر میں محکمہ پولیس کی ملازمت چوبیس گھنٹے کی ملا زمت ہے
سپریم کورٹ آف پاکستان ہائیکورٹس شیشن کورٹس سپیشل کورٹس آئی جی ڈی آئی جی آر پی ڈی پی او ڈی ایس پی کے سامنے مختلف مقدمات کی مثلیں پیش کرنا سیاسی نمائندوں پارلیمانی شخصیات کو بھی رام رکھنا عیدین کے موقع پر اپنے گھر سے کوسوں میل دور ٹریننگ کیمپوں میں مساجد سے باہرڈیوٹی دینا اور اپنے بچوں سے دور لوگوں کے بچوں کو نئے کپڑے پہنے اپنے والدین کی انگلی پکڑ کر نماز عید پڑھ کر واپس جانا حسرت بھری نگا ہوں سے دیکھنا اور نمناک آنکھوں سے اپنے بچوں اور گھرکو یاد کرنا الغرض ان حالات میں پولیس آفیسر فائلوں ہی میں گم رہتا ہے مگر شاہدرضوان چاندجس نے چوہدری محمد بشیرمہوٹہ کے گھرفتح پور کی فضاووں میں تیرہ مارچ انیس صد اکیاسی کو آنکھ کھولی ایم اے ایل ایل بی تک تعلیم حاصل کی اور معاشرے میں روائتی پولیس آفیسر بن کر رہنے کی بجائے محنتی جانفشا ں آفیسر بن کر محکمہ پولیس کا عوام میں مورال بلند کرنے اور اپنی زبان کی مٹھاس اور مظلوموں کی مدد کر کے پولیس اور عوام میں پیدا خلیج کم کرنے کے لئے کوشاں ہے ضلع بھر برسوں پرانے قتل کے کیس اغوا برائے تاوان ڈکیتی کے ملزمان جو کہ عرصہ دراز ٹریس نہیں ہورہے شاہدرضوان نے ٹریس کیے ملزمان گرفتار ہوئے اسکی پیشہ وارانہ قابلیت پر آئی جی پنجاب کی طرف سے خصوصی انعامات اور سرٹیفکیٹس سے نوازا گیا شاہد رضوان نے روائتی پولیس بن کر زندگی گزارنے کی بجائے اپنے اندرکے چھپی ہوئی خدادادشاعری کی صلاحیت پر بھی کام کیا اس کی دو تصنیفات پہلاشاعری مجموعہ ا بھی تم لوٹ سکتے ہو اوردوسر ا شاعری مجموعہ زندگی اک اداس شام شائع ہو چکیں ہیں شاہد رضوان چاند کی تصنیفات کی تقریب رونما ئی سانول سنگت پاکستان اور پریس کلب چوک اعظم کے اشتراک سے میونسپل کمیٹی چوک اعظم کے جناح ہال میں منعقد ہونے والے تیسرے تھل میلہ میں کی گئی جس میں جنوبی پنجاب کی نامور ادبی شخصیات کیساتھ ساتھ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر غازی صلاح الدین ڈپٹی ڈائریکٹر تعلقات عامہ رانا اعجاز محمود دانشور منور بلوچ نغمہ نگار منشی منظور جنرل سیکرٹری پریس کلب چوک اعظم محمد عمر شاکر اور پولیس آفیسران نے بھی شرکت کی جب کہ اس تقریب کا اہتمام نامور شاعر مصنف سانول سنگت پاکستان مرکزی عہدیدار ملک صابرعطا تھہیم نے کیا شاہد رضوان چاند محبت کی تلاش میں سرگرداں شاعر ہے حساس طبعیت کا شاعر اپنی عملی زندگی میں بھائی کے ہاتھوں بھائی کا قتل جوان اولاد کے ہاتھوں بوڑھے والدین کی تزلیل طاقت اور دولت کے نشے میں مست انسانوں میں حرص ولالچ دیکھتا ہے مگر پھربھی شاہدرضو ان مایوس نہیں وہ شاعری کے ذریعے محبت تقسیم کرتے ہوئے محبت کا متلاشی ہے منور بلوچ نے انسانوں کے درمیان نفرت کے تعلق پر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ اب قلم بھی مر رہا ہے میرے خیال میں قلم سے مراد انکا ادب ہے اور شاہد رضوان کو خراج پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انسان کے ساتھ ساتھ قلم مر رہا ہے انسان مر جائے تو شائد کام چلتا ہے مگر قلم کے مرنے سے ایک عہد کی موت ہے اس پر آشوب عہد میں شاہد رضوان چاند بطور انسان اپنا رشتہ قلم سے قائم رکھے ہوئے ہے شاہد رضوان جانتا ہے اس میں زندگی ہے ،مسکراہٹیں ہیں ،سویرا ہے،بارشیں ہیں ،پھول ہیں،کلیاں اور جگنو ہیں ۔۔شاہد رضوان جانتا ہے جہاں جگنو زندہ رہتے ہیں وہاں اندھیرا ممکن نہیں۔۔۔
شاہد رضوان قلم سے شاعری اور انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھتا ہے شائد یہی وجہ ہے کہ وہ پنجاب پولیس سے پٹرولنگ پولیس میں گیا مگر پھر پنجاب پولیس میں واپس آگیا
شاہد رضوان چاند کو بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر ادیب کالم نگار نا صر ملک نے سادہ لوح تخلیق کار کے نام سے منصوب کیا ہے
شاہد رضوان زندگی اک اداس شام میں حمد باری کا اختتام یوں کرتا ہے
عمل ہے پاس ان کے اب نہ کوئی اور راستہ ہے
تجھے اعجال سے صرف نظر کرنا پڑے گا
خدائے لم یزل اے مالک ملجا
تجھے ہی در گزر کرنا پڑے گا
دو شاعری کی کتابوں کا مصنف ہونے کے باوجودشاہد رضوان سراپا عاجزی انکساری میں ڈوبتے ہوئے میں اور میری شاعری میں لکھتا ہے کہ میں ابھی سیکھ رہا ہوں میری شاعری کی کتابیں ،میرے الفاظ ،میری سوچیں،میرے خیالات و افکار اہل علم و دانش اور عام قارئین کی نگاہ قبولیت پاکر انمول ہو جائیں یا تعمیری تنقید کی زد میں آ کر قابل اصلاح کا درجہ پاجائیں دونوں صورتوں میں میں خود کو کامیاب سمجھوں گا پہلی صورت میں مجھے ایک اور کامیاب کاوش پہ خوشی ہو گی دوسری صورت میں میرے اندر مزید سوچنے اور لکھنے کا جذبہ پیدا ہو گا
یہ ایک حقیقت ہے کہ پولیس کی سخت جانفشانی ملازمت کیساتھ ساتھ ایسے خوبصورت الفاظ میں شاعری لکھنا صرف چاند کا ہی کام ہے گجرات کی جنم مٹی کے سپوت تھل کے ریگزار میں مقیم شاہد رضوان نے ابھی محکمانہ طور پر شاہد رضوان مہوٹہ اور ادبی طور پر شاہد رضوان چاند کے نام سے ابھی کامیابی کی کئی منازل طے کرنا ہیں نسل نو کاوہ ایک تخلیق کار شاعر کے طور پر نمائندہ ہو گاجس لگن محبت او ر ولولے سے شاہد رضوان نے اپنا سفر جاری رکھا ہوا ہے امید ہے کہ محکمہ پولیس کیساتھ ساتھ ادب کی دنیا میں بھی وہ اپنی منفرد پہچا ن بنا لے گا
شاہد رضوان قلم سے شاعری اور انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھتا ہے شائد یہی وجہ ہے کہ وہ پنجاب پولیس سے پٹرولنگ پولیس میں گیا مگر پھر پنجاب پولیس میں واپس آگیا
شاہد رضوان چاند کو بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر ادیب کالم نگار نا صر ملک نے سادہ لوح تخلیق کار کے نام سے منصوب کیا ہے
شاہد رضوان زندگی اک اداس شام میں حمد باری کا اختتام یوں کرتا ہے
عمل ہے پاس ان کے اب نہ کوئی اور راستہ ہے
تجھے اعجال سے صرف نظر کرنا پڑے گا
خدائے لم یزل اے مالک ملجا
تجھے ہی در گزر کرنا پڑے گا
دو شاعری کی کتابوں کا مصنف ہونے کے باوجودشاہد رضوان سراپا عاجزی انکساری میں ڈوبتے ہوئے میں اور میری شاعری میں لکھتا ہے کہ میں ابھی سیکھ رہا ہوں میری شاعری کی کتابیں ،میرے الفاظ ،میری سوچیں،میرے خیالات و افکار اہل علم و دانش اور عام قارئین کی نگاہ قبولیت پاکر انمول ہو جائیں یا تعمیری تنقید کی زد میں آ کر قابل اصلاح کا درجہ پاجائیں دونوں صورتوں میں میں خود کو کامیاب سمجھوں گا پہلی صورت میں مجھے ایک اور کامیاب کاوش پہ خوشی ہو گی دوسری صورت میں میرے اندر مزید سوچنے اور لکھنے کا جذبہ پیدا ہو گا
یہ ایک حقیقت ہے کہ پولیس کی سخت جانفشانی ملازمت کیساتھ ساتھ ایسے خوبصورت الفاظ میں شاعری لکھنا صرف چاند کا ہی کام ہے گجرات کی جنم مٹی کے سپوت تھل کے ریگزار میں مقیم شاہد رضوان نے ابھی محکمانہ طور پر شاہد رضوان مہوٹہ اور ادبی طور پر شاہد رضوان چاند کے نام سے ابھی کامیابی کی کئی منازل طے کرنا ہیں نسل نو کاوہ ایک تخلیق کار شاعر کے طور پر نمائندہ ہو گاجس لگن محبت او ر ولولے سے شاہد رضوان نے اپنا سفر جاری رکھا ہوا ہے امید ہے کہ محکمہ پولیس کیساتھ ساتھ ادب کی دنیا میں بھی وہ اپنی منفرد پہچا ن بنا لے گا