ناول .. سکندراعظم
(مصنف ۔ امان اللہ کاظم )
تبصرہ : شیخ اقبال حسین
امان اللہ کاظم کے ناولوں میں پائی جانے والی خوبیاں انہیں دوسروں سے ممتاز رکھتی ہیں اولاً اما ن اللہ کاظم کے ناولوں کے سر ورق کی شخصیت کی پیدائش سے موت تک کی مکمل داستان ملتی ہے دوئم کوئی غیر روائتی واقعہ ان میں شامل نہیں ہے ۔سوئم اسلامی مشاہیر پر متستر قیض نے جو الزامات لگائے ہیں ان کا ٹھوس جواب موجود ہے ان ناولز میں کوئی فرضی نہیں ہیں تحریر میں بیان وزبان کی لطافت اور ادبی رنگ موجو د ہے ۔کوئی ایسا جملہ موجود نہیں ہے جو ادب اور اخلاقیات سے گرا ہوا ہو ۔ہر نئے عنوان کے بعد کسی نامور شاعر کا ایسا قطعہ دیا گیا ہے جو دیئے گئے عنوان پر پورااترتا ہے ۔’’سکندر اعظم‘‘بھی انہی خوبیوں سے آراستہ پیراستہ ایک ناول ہے اس ناول میں جہاں سکندراعظم کے خاندان اور مہمات پر روشنی ڈالی گئی ہے وہاں یونان کی تاریخ کو بھی بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔اہل یونان یافث بن نوح ؑ کی نسل سے تعلق رکھتے تھے تہذیب و تمدن کے لحاظ سے یونانی مصریوں کے پیرو تھے ۔ابتدائی دور میں یہاں ہر شہر کا اپنا دیوتا تھا جن کی وہ پوجا کرتے تھے ان دیوتاؤں کی شکلیں زیادہ تر جانوروں سے ملتی جلتی تھیں ۔یونانیوں کا سب سے بڑا دیوتا جسے وہ کل بنی نوع انسان کا باپ سمجھتے ہیں زیوس یو جیو پی ٹر کہلاتا ہے یہ دیوتا علاقہ تھسلی جسے تراکیہ یا تھریس بھی کہا جاتا ہے ایک بلند وبالا پہاڑ اولیمپیا کی چوٹی پر قیام پذیر تھا اس کی زمین و آسمان پر حکومت تھی بجلی اس کی تلوار او رتقدیر اسکی قوت تھی ۔سکندر یونان کے اندھے شاعر ہیومر کی شہرہ آفاق نظم ایلیڈ اور آڈیسے کا شیدائی تھاان کتابوں کو وہ ہمیشہ اپنے سینے سے لگائے رکھتا تھا فیلقوس نے تعلیم کی طرف سکندر کی بے رغبتی دیکھ کر اسے میزا کی درسگاہ میں ارسطو کے پاس بھیج دیا جس نے اسے پوری تندہی سے ہر نوع کی تعلیم کے زیور سے آراستہ کر دیا سکندر فطری طور پر بہت ہی ذہین تھا اس لئے وہ اپنے ہم جماعتوں سے ہمیشہ بازی لے جاتا تھا ۔
اگر سکندر کی عمر نے ابھی جوانی کی حدوں کو نہیں چھوا تھا مگر جسمانی طور پر وہ ایک بھر پور جوان ک شبیہ پیش کرتا تھا ۔ایک روز صبح سویرے میزاجاتے ہوئے اس کی مڈ بھیڑ میں ایک نہایت ہی حسین و جمیل دوشیزہ سے ہوگئی جو ستھیائی نسل کی تھی اور یونانی زبان سے نابلد تھی اس کے سر پر انگوروں کا ٹوکرا تھا سکندر کے ساتھ ٹکرانے کے بعد وہ ٹوکرا اس کے سر سے گر گیا ۔سکندر نے اس کے سراپے کو دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا اس کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوگئیں اور اس نے دیوانہ لڑ کی کی بانہوں میں بھر لیا اور اسے قریبی جھاڑیوں میں لے گیا وہ پہلی بار ایسی لذتوں سے ہمکنار ہواتھا جن سے پہلے آشنا نہ تھا ۔جھاڑیوں سے کپڑے جھاڑ کر جب وہ باہر آیا تو نشے میں جھوم رہا تھا جبکہ لڑکی کا لہنگا سکڑ کر اس کے گھٹنوں کے اوپر آچکا تھا اس کی گول گول اور چاندی جیسیعریاں پنڈلیاں جذب و مستی کی داستان بیان کر رہی تھیں دونوں ننگے پاؤں تھے ۔دور کھیت میں کام کرتے ہوئے مردوں اور عورتوں نے سکندر کو لڑکی سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ ’’کل شام اسی جگہ آنا ہماری دوبارہ ملاقات ہوگی ‘‘سکندر نے اپنے لباس سے وہ بیش قیمت بکسوا الگ گیا (جو اس کی ماں نے اسے تحفتاً دیا تھا )اور لڑکی (درخت خورشید)کو دیتے ہوئے کہا ’’اسے میری محبت کی نشانی کی طور پر اپنے پاس رکھ لو ۔جب جب میں اسے دیکھو گی تب تب ہماری لمحاتی صحبت کی یاد تیرے دل میں تازہ ہوجائے گی ۔میرا نام سکندر ہے اور میں سلطنت مقدونیہ کا ولی عہد ہوں ۔‘‘
اولمپیاس کو معلوم ہوا تو اس نے اس دوشیزہ کو ہمیشہ کیلئے غائب کر و ا دیا ۔سکندر اسے بادلوں کی طرح اپنے بیوسی فالس پر سوا ر ہو کر ڈھونڈتا رہا مگر وہ عنقا ہو گئی تھی اولمپیاس کی فیلقوس سے نفرت روز بروز فزوں سے فزوں تر ہوتی چلی گئی اس لئے فیلقوس نے تنگ آکر اپنے ایک سردار اٹالوس کی سترہ سالہ بھتیجی قلو پطرہ سے شادی کر لی اولمپیاس نے بیس سالہ بیٹے سکندر کو باپ سے متنفر کر نے کی بھر پور کوشش کی اور اسے ذہن نشین کر ادیا کہ وہ فیلقوس کی بجائے ’’زیوس دیوتا‘‘کا بیٹا ہے کچے ذہن کے نوجوان نے ماں کی محبت میں اندھے ہو کر اس کی ہاں میں ہاں ملادی۔
اولمپیاس نے ایک سازش کے تحت فیلقوس کو ایک زرخرید غلام کے ہاتھوں قتل کروادیا اور سکندر کو مقدونیہ کے تخت شاہی پر بٹھا دیا نوجوان سکندر کا خون کافی گرم تھا اس نے ایک ایک کر کے تما م یونانی ریاستوں کو سوائے اسپارٹا کے صرف دوسال کی قلیل مدت میں (یعنی 336ق م تا 334ق م )اپنے زیر نگیں کر لیا ’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘کے مصداق اس نوجوان شاہ مقدونیہ کے اندر ایک فاتح عالم چھپا بیٹھا۔تمام یونانی ریاستوں نے اسے اپنا سالار اعظم مقرر کر دیا اور اسے ایشیاء پر یلغار کرنے کی اجازت دے دی ۔چنانچہ 334ء ق م میں صرف پینتیس ہزار فوج کے ساتھ درہ دانیال کو عبور کرتے ہوئے ایران پر حملہ کر دیا ۔گرینی کس او ر اسوس کے میدان میں شاہ ایران دار پوش سوم کو پے در پے عبرتناک شکستوں سے دوچار کر دیا وادی سند ھ سے بحیرہ روم تک اور مصر سے منگولیا تک عظیم الشان سلطنت کا مالک دار یوش اپنی سلطنت میں منہ چھپاتا پھر رہا تھا ۔
سکندر آگے بڑھا اور اس نے بابل ،طائر ،فلسطین ،غزہ اور حتیٰ کہ مصر تک ایرانی سلطنت کو پامال کر ڈالا پھر سوس کے مقام پر دارایوش کو آخری شکست دیکر پورے ایران پر اپنا تسلط قائم کر لیا اس جنگ و جدل میں سکندر کو پانچ سال لگ گئے تھے ۔سکندر نے334ق م سے 327ق م تک اسکندریہ کے نام پر پانچ شہر آباد کئے جنہوں آج کل اسکندریہ،ہرات ،قندھار،کابل اور فوقند کہتے ہیں ۔سکندر نے 327میں کوہ ہندوکش کو عبور کر کے ہندوستان کی طرف قدم بڑھائے ۔اس نے لڑائی کئے بغیر ٹیکسلا کے حکمران راجہ امبھی کو مطیع کر لیا جبکہ پورس کے ساتھ دریائے جہلم کے کنارے ایک خون ریز جنگ کے بعد جہلم سے دریائے بیاس تک کا علاقہ فتح کر لیا ۔وہ سال کے عرصے میں یعنی (327تا325ق م )سکندر نے کوہ ہندوکش سے دریائے بیاس تک کا علاقہ فتح کر لیا ۔اب اس کی فوج نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا پس اسے واپسی کا سفر اختیار کرنا پڑا ۔واپسی کے سفر میں ملتان میں اکی مڈھ بھیڑ ملوئی قوم سے ہوئی جو بڑی طاقتور اور وحشی قوم تھی ۔ملتان فتح تو ہو گیا مگر سکندر کے سینے میں تیر اس طرح پیوست ہو ا کہ اس کے پھیپھڑے تک اتر گیا ۔تیر تو نکال لیا گیا اور اس کا زخم جراحوں کے علاج سے وقتی طور پر مندمل ہو گیا مگر بالآخر اسی زخم نے اس کی جان لے لی ۔سکندر ملتان سے دریائے سند ھ کے راستے ٹپالہ پہنچا یہ شہر حیدرآباد کے کہیں آس پاس’برہمن آباد‘کے مقام پر واقع تھا ۔یہاں اس نے فوج کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا ایک حصے کو سمندری راستے کے ذریعے خلیج فارس کے ذریعے پہنچنا تھااس حصے کا کماندار سکندر کا نامور امیر البحر نیارکس تھا ۔جبکہ دوسرے حصے کو اس کی اپنی زیر کمان گدروسیہ (مکران)کے صحرائی علاقے سے گزر کر ایران میں داخل ہونا تھا ۔دونوں راستے سکندر اور نیارکس کے لئے ان دیکھے تھے مگر ایک سال تک سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے دونوں قافلے جنوبی ایران کے شہر گلاس کردا پہنچنے اور پھر وہاں سے نیارکس خلیج فارس کے ذریعے فرات پہنچا اور وہاں پہنچتے ہی اس کی موت واقع ہوگئی ۔سکندر کو اپنے امیر البحر کی موت کا بے حد افسوس ہوا ۔سکندر تخت جمشید پہنچا جو ایران کا پہلا دارالحکومت تھا وہاں اس نے انتظامی امور سمٹائے اور پھر سوس پہنچا جو ایران کا چوتھا دارالحکومت تھا سکندر بابل کو اپنا دارالحکومت بنانا چاہتا تھا مگر مذہبی پروہتوں نے اسے بابل جانے سے منع کیا کیونکہ وہاں اس کی جان کو خطرہ تھا مگر سکندر نے کسی کی نہ مانی اور بابل جاپہنچا ۔سکندر نے قبل ازیں وقفے وقفے سے تین شادیاں کی تھیں پہلی شادی دار پوش کے مرحوم امیر البحرین ممنون کی بیوی برسین سے ،دوسری شادی دار یوش کے قاتل صوبیدار بسوس کی بیٹی روشنک سے ۔یہ لڑکی سکندر کو بہت پسند تھی کیونکہ اس کی شکل اس کی پہلی محبت دختر آفتاب سے ملتی تھی جس کے ساتھ اس نے اپنی جوانی کے ابتدائی ایام میں میزا جاتے ہوئے جھاڑیوں میں تمتع کیا تھا ۔
بابل کے قیام کے دوران سکندر کو روشنک نے بتایا کہ بچے کی ماں بننے والی ہے مگر افسوس اس فاتح عالم نے اپنی آنکھوں سے اپنے ولی عہد کو نہ دیکھا ۔ملتان میں لگے ہوئے تیر کا زخم عود کر آیا اور اس کے پھیپھڑے میں درداُٹھا ،بخار آیا ۔دریائے فرات میں نہانے کا بہانہ بنا اور پھر 13جون323ق م میں مقدونیہ کے افق سے طلو ع ہونے والا سورج فرات کے گہرے پانیوں میں ڈوب گیا موت کے وقت اس کی عمر 32سال آٹھ ماہ تھی ۔یہ عظیم فاتح چند ہی سالوں میں آندھی کی طرح مقدونیہ سے اُٹھا اور صرف دس سال کی قلیل مدت میں دنیائے معلوم پر چھا گیا ۔آج تک کوئی ایسا فاتح نہیں ہوا جس نے اتنی چھوٹی سی عمر اور قلیل مدت میں زمانہ کی عظیم سلطنتوں سے ٹکر لے کر انہیں زیر کیا ہوا اور ایک عالم پر چھا گیا ۔یہی وجہ ہے کہ امان اللہ کاظم نے اس فاتح عالم کی حیات کو ناول کی صورت کتابی شکل میں محفوظ کیا ہے ۔اس عظیم فاتح کی مہمات کے علاوہ امان اللہ کاظم نے اس کے رومانس کو بھی بیان و زبان کی لطافت کے ساتھ ادبی رنگ میں اتنا مزین کیا ہے کہ قاری مکمل ناول پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا ۔