ناجائز بچے اور بیمار معاشرہ
تحریر ۔ ابوذر منجوٹھہ
لیہ سے عمر شاکر صاحب کی وال سے ایک تصویر دیکھی جو کہ کوڑے پر پڑی تھی اور جس کو پولیس نے مقدمہ درج کرنے کے بعد مقامی تنظیم کے حوالے کر دیا جس کو دفنا دیا گیا۔ مجھے اس معصوم بچی کے ساتھ ساتھ پورا بیمار معاشرہ دفن ہوتا نظر آرہا تھا۔یہ کوئی پہلی تصویر نہ تھی نہ یہ پہلی بچی تھی آپ کو ایسے واقعات سُن پڑھ چکے ہوں گے جن میں کوڑے میں بچوں کی نعشیں پڑی ملیں گی یا کسی کتے کے منہ میں کسی بچے کی بازوں ، ٹانگ دیکھی ہوگی۔آپ کو ایک اور تصویر نظر آئی ہو گی جس میں ایک معصوم بچی جو کہ 6یا 7سال کی ہوگی اس کے ساتھ کسی نے زیادتی کر کے اس کو قتل کر دیا ہم کسی طرف جا رہے ہیں یہ کسی کو پتہ نہیں ۔
یہ سچ ہے آپ کو یہ کڑوا سچ قبول کرنا ہوگاآپ کو سارا گند یورپ امریکا میں نظر آتا ہے لیکن پاکستان کے اندر ایسے بہت سے واقعات ہوتے ہیں جن کی آج تک رپورٹ ہی نہیں کی جاتی اور اس سب کے لیے ہم سب صرف قصوروار عورت کو ہی ٹھہراتے ہیں۔ہم کو کچھ چیزیں تسلیم کرنا ہوگا ان میں سے ایک ہے سیکس انسان کی Basicضرورت ہے جیسے ہمیں بھوک لگتی ہے اور ہمیں کھانا کی طلب محسوس ہوتی ہے اسطرح یہ بھی انسان کی ضرورت ہے لیکن صرف ہم نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے مسئلہ کا حل نکالا ہوا ہے کہ ہوا کچھ بھی نہیں ۔اسلامی قوانین کے مطابق بدکاری کی سزا سزائے موت بھی ہو سکتی ہے ۔ایک واقعہ میرے نظر سے گزارا جہاں ایک عورت نے ایک بچے کو جنم دیااور اس کو خدا کے در پر جا کر چھوڑ دیا کہ اب اللہ اور اس کے بندے اس کا خیال کریں گے وہاں کے مولوی صاحب کو جب پتہ چلا کہ یہ بچہ ناجائز بچہ ہے اور کوئی مسجد کی سیڑھیوں پر چھوڑ گیا ہے تو انہوں نے سارے نمازیوں کے ساتھ مل کر اس بچے کو سنگسار کروا کے مروا دیا مجھے کوئی بتا دے کہ اس میں بچے کا کیا قصور ہے؟جس کو قتل کیا گیا پہلے اس کے ماں باپ نے اور اس کے بعد اُس مولوی اور اس کے حمایتوں نے اسے مار ڈالا۔
مرحوم ایدھی صاحب ایسے موقع پر بہت یاد آتے ہیں جنہوں نے پورے پاکستان میں تین سو سے زیادہ سنٹر پر اپنے جھولے رکھے جس میں ایسے بچوں کو مارنے کی بجائے ان کے جھولے میں ڈال دیا جاتا اور ایدھی مرحوم ان کی ولدیت میں اپنا نام لکھوا دیتے تھے ۔ ان کی زندگی میں بیس بائیس ہزار بچوں کی ولدیت میں ایدھی کا نام لکھا گیا تھالیکن ایک مولوی صاحب نے ان کو بھی نا چھوڑا کیونکہ ان کی نظر میں ایدھی صاحب گناہ کو پرموٹ کر رہے ہیں۔
اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے انسان کی ضرورتوں کو سمجھتا ہے اس لیے وقت پر شادی کا حکم ہے۔لیکن ہمارے معاشرے نے شادی کو اتنا مہنگا کر دیا ہے کہ کوئی شادی کے متعلق نوجوان سوچ بھی نہیں سکتا اس لیے وہ اپنی ضرورت جو ناجائز طریقے سے پورا کرنے کے صورت میں ایسے راستے اپناتا ہے جو کہ غلط ہیں۔آج کے معاشرے میں شادی مہنگی اور زناء سستا ہوگیا ہے۔جہیز کی لعنت آج بھی موجود ہے جس کی وجہ سے کئی غریب کی بچیوں کے بالوں میں چاندی آگئی ہے۔گناہ بڑھیں گے نہیں تو کیا کم ہوں گے اس کے لیے ہمیں سب کو مل کر سوچنا ہوگا اور شادیوں کو سستا کرنا ہوگا ورنہ نتیجے آ پکے سامنے ہیں۔آپ نے کبھی کسی ایسی بس میں سفر کیا ہو جس میں روڈ ہوسٹس لڑکی ہوتو آپ کو ہمارے معاشرے کے متعلق پتہ چلے گا کہ جو 1000روپیے کے کرایہ میں اپنا حق سمجھا ہوتا ہے کہ کسی طرح اس لڑکی کو ہاتھ لگ جائے ۔ایک اور مسئلہ ہے جو قابلِ غور ہے وہ ہے کہ بچے وقت سے پہلے بالغ ہو رہے ہیں اس میں ایک کردار ہماری غذاکا ہے آپ نے آئے دن ٹی وی پر دیکھا ہوگا کہ کیسی مرغی کی آلائشوں سے اور مردہ جانوروں سے تیل نکالے جاتے ہیں اور وہ کیسے ہم خود استعمال کرتے ہیں اور کیسے ہمارے بچے استعمال کرتے ہیں خیر سے ایک اور اہم چیز جس نے کردار ادا کیا ہے وہ ہے نقلی دودھ۔ میرے ایک دوست نے لاہور ایک دوکان والے سے کھلے دودھ کی فرمائش کی تو دوکان والے نے کہامیرے پاس خشک دودھ ہوتا ہے آپ یہ لے لیں یہ بہترین ہوتا ہے خالص ہوتا ہے اُس نے کمال جواب دیا کہ اس دودھ میں وہ مزا کہاں جو کہ 100روپیے میں کھاد، بالصفاء پاؤڈر آئل اور کیمیکل ملے دودھ میں اکھٹا مل کر آتا ہے وہ بیچارہ ہم دونوں کا منہ دیکھتا تھا ۔جو کہ بالصفا پاؤڈر کے ذریعے سے بنایا جاتاہے ۔آکسی ٹوسن کا نام ضرور آپ نے سنا ہوگاآکسی ٹوسن کا استعمال آج کل جانوروں میں بہت زیادہ ہو گیا ہے اس سے جانور جلدی بہت سارا دودھ دیے دیتا ہے اور اس کے نقصانات کیا ہے جو بھی وہ دودھ استعمال کرتا ہے خصوصآ بچے وہ وقت سے پہلے بلوغت کو پہنچتے ہیں۔
ہم کس طرف جا رہے ہیں کیسے ہم اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو رہے ہیں ہمارے معاشرے میں اس بچے کو حرامی کہتے ہیں جو ناجائز تعلق سے پیدا ہوتا ہے اور میری نظر وہ انسان حرامی ہے جس نے اس کو پیدا کرکے چھوڑ دیا ۔ہمیں ایسے واقعات کی روک تھام کرنی ہوگی اس کا طریقہ ہے وقت کی شادیاں اور شادیوں کو آسان کرنا ہوگا۔ہم ایک بیمار معاشرے میں رہتے ہیں ہمیں یہ مانتے ہوئے اس کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ قتل ہونے والے بچے بروز قیامت ہمارا گریبان بھی ضرور پکڑیں گے۔