معاشرے کا اخلاقی انحطاط
ڈاکٹر عفت بھٹی
انسان ایک معاشرتی حیوان ہے ۔یہ ایک مشہور مقولہ ہے جس سے۔انکار مفر نہیں ۔آدم وحوا کا زمین پہ آنا ہی اس بات۔سے۔تعبیر تھا کہ ایک معاشرہ وجود میں لایا جائے ایک ایسا معاشرہ جو رشتوں کی کڑیوں سے جڑا ہوا ہو ..ماں باپ۔ بہن۔ بھائی۔عزیز اقربا۔ہمسائے برادری قوم ملک انسانیت۔یہ سب ایسی خوبصورت کڑیاں ہیں جومعاشرے کو مضبوطی سے باندھے رکھتی ہیں۔اگر یہ رشتے اور روابط درست ہوں تو معاشرہ درست ان میں نقص پیدا ہو جائے تو معاشرہ تنزلی ۔بےاعتمادی۔انتشار کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کی کوکھ میں خودغرضی۔لوٹ مار۔ظلم و نا انصافی اور بے ایمانی ۔رشوت ستانی۔کی ذریات پلنے لگتی ہیں اور معاشرہ انحطاط کا شکار ہو جاتا ہے۔
موجودہ دور پہ نظر دوڑائی جاتی ہے تو مجھے معاشرے میں سماجی برائیوں کی دوڑ میں اخلاقی برائیاں سر فہرست نظر آتی ہیں اور قابل افسوس بات تو یہ کہ ان میں ہماری نوجوان نسل بری طرح مبتلا ہے ۔ اور اسی وجہ سے ہم ترقی کے بجائے تنزلی کی جانب جا رہے۔ایک وہ دور تھا کہ ہاتھوں میں کتابیں تھامے استاد۔کے جوتے سیدھے کیے جاتے تھے۔اب وہ عہد ہے کہ بیشتر ہاتھوں میں موبائل نظر آتے ہیں کتابیں کم نظر آتی ہیں۔ ایک لطیفہ نظر سے گذرا کہ دو دن کے لیے موبائل سروس بند تھی تو گھر والوں کے پاس بیٹھ گیا پتہ لگا یار اچھے لوگ ہیں یہ بھی۔ خیر یہ تو ایک لطیفہ تھا بات ہو رہی تھی معاشرتی اقدار کی جو کہ قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔بچوں اور والدین کے درمیان ایک خلیج حائل ہو چکی ہے جسے ہمارا ماڈرن معاشرہ جنریشن گیپ کے نام سے موسوم کرتا ہے ۔اس کے نتیجے میں بچے بزرگوں کی صحبت اور نگرانی سے دور ہوتے جا رہے اور یہ دوری ہمارے بچوں کی تربیت میں تبدل لا رہی یہ ایسا زہر ہے جسے اخلاقی اقدار کا خاموش قاتل قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔ہم اس کے نتائج سے مانند کبوتر بے خبر ہیں۔ میرے ذہن میں بارہا سوال اٹھتا کہ اس تباہی کا ذمہ دار کون ہے تو اس کا جواب ہے ہم بڑے ۔کیونکہ زمانے کی بھیڑ چال کے ساتھ چلتے چلتے مصروفیت کے اژدحام میں ہم اپنا آج تو سنوار رہے مگر اپنا کل کھو رہے ہیں ۔کچھ کوتاہی کہہ لیں یا نفسا نفسی کہ ہم معاشرے میں رہ کر بھی اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت نہیں کر پائے۔اور یہ اسی کا خمیازہ ہے کہ آج کی نئی نسل مشرقی اقدار سے دور اورمغرب کے قریب تر ہے۔ہمارے بچے اللہ اکبر کے بجائے oh my God اور جے ہو کے ذیادہ قریب ہیں۔مغرب اور انڈیا کا کلچر ان پہ وہی نتائج مرتب کر رہا جو کبھی مسلمانوں کے زوال کا آمد بجنگ تھا ۔اور تاریخ کے صفحہ قرطاس پہ لکھا گیا۔ہم پاکستانی ہیں اور مسلمان قوم ہیں۔مگر اب حال یہ ہے کہ ہم نے ان دونوں شناختوں سے دوری اختیار کر لی ہے رسم و رواج ہمیں ہندوؤں کے بھاتے ہیں اور زندگی ہم مغرب کے مادر پدر آزاد معاشرے کی سی گذارنا چاہتے اسلام اور اس کے قوانین سے دوری کو ماڈرن ازم اور آزادی کے نام کے خوبصورت ریپر میں لپیٹ دیا ہے ۔اس میں میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے کیونکہ وہ رہنما کی سیٹ پہ براجمان ہے بچے اس کی سنتے اور عمل کرتے ہیں ۔میرے قارئین کو یہ بات شاید عجیب لگے مگر یہ ایک تلخ حقیقت اورزہر ہلاہل ہے ۔آپ اپنے گھر کے ماحول اور بچوں پہ غورکریں ان کے لباس ان کا رہن سہن ان کا کھانا پینا ان کی بول چال سب میڈیا کی عکاس ہے۔مغربی لباس دوپٹے سے بے نیازی ۔روزمرہ میں ہندی الفاظ کا چناؤ۔ اپنے ملک سے بے زاری ۔مغرب سے دلداری۔مخرب اخلاق ویب سائیٹیس اور گھٹیا مواد کا دیکھنا پڑھنا ۔بچوں کا دن رات فیس بک اور انٹر نیٹ کا استعمال اخلاق سوز گفتگو اور چیٹنگ ۔فیس بک فرینڈز کا کریز ۔تھرل کے لیے اخلاقیات کی حدود پار کرنا۔اور انجوائے کے نام پہ غیر اخلاقی حرکات۔یہ سب تباہیاں نہیں تو اور کیا ہے۔کسی نے ٹھیک ہی کہا اب جنگ کے قواعد بدل گئے پہلے یہ ہتھیاروں سے لڑی جاتی تھی اب اس کو میڈیا کے تھرو وائرل کر دیا گیا ہے۔نئی نسل کو مخرب اخلاق چیزوں کی طرف لگا دیا اور پھر یہ ہوا کہ ہماری نئی نسل کی توجہ بٹ گئی وہ اپنی اقدار کو چھوڑ کے مادر پدر آزادی کی طرف جا رہی ۔اخلاقی و نفسی گراوٹ کے کئی بہانے تراشے گئے ۔معاشرے میں ایسے ایسے کیسز سامنے آئے کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا ۔.اور اس میں حکومت کا بھی برابر کا ہاتھ ہے اگر وہ مواصلات کے شعبے میں ترویج کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ مخصوص ویب سائیٹس ہی کو آن کیا جائگا تو بہتری آسکتی ۔اس کے علاوہ تحریری لٹریچر ۔مواصلاتی لٹریچر۔میڈیا کے ڈرامے۔الغرض بہت کچھ بدلنے کی ضرورت ہے۔اور درحقیقت اپنی نسل نو پر توجہ دے کر ہی ملکی اور معاشرتی انحطاط کا ازالہ کر سکتے ہیں۔۔