ملاقاتیں اور باتیں
انٹرنیٹ کے اس دور میں دنیا گلوبل ویلج میں تبدیل ہو چکی ہے کتاب لکھنا پڑھنا ماضی کا قصہ بنتا جارہا ہے ماضی کے درباری شعراء اور تاریخ دانوں کی طرح سرمایہ داروں اور خاندانی وجاہت رکھنے والے افراد کنبے کی دور حاضر کے مطابق سوچ تبدیل ہو رہی ہے اور انٹرنیٹ پر بھی فرضی
طبقے سے تعلق رکھنے والے محمد صابر عطاء نے ہمیشہ اپنے طبقے کی ترجمانی کی صابر عطاء کا سفر پر خطر اور خار دار کانٹوں پر جاری ہے محمد صابر عطا ء ہمیشہ کچھ نئے کر گزرنے کی دھن میں رہتاہے اس کی کتاب ملاقاتیں اور باتیں بھی اس کے اسی شوق کی ایک کڑی ہے محمد صابر عطاء نے اس کتاب میں تیس ان افراد کے انٹریو شامل کیے جن کے کام انتہائی اہمیت کے حامل تھے مگر وسائل کی کمی یا قسمت کی ستم ظریفی کہ معاشرے میں انہیں ان کی صلاحیتوں کے مطابق اہمیت نہ دی گئی صابر عطاء نے ایسے سینکڑوں افراد کو تلاش کیا انکے انٹریو کیے اور انہیں مختلف قومی اخبارات میں شائع کرایا محمد صابر عطاء کی کتاب ملاقاتیں اور باتیں کا فور کلر خوبصورت سرورق جوجی اور جوجو نے تیار کیا کتاب کی اشاعت کا اہتمام سانول سنگت پاکستان جوکہ بین الاقوامی شہرت یافتہ عطاء اللہ عیسویٰ خیلوی کی تنظیم ہے نے کیا صابر عطاء اسکا مرکزی عہدیدار ہے کتاب دستک پبلی کیشرملتان نے شائع کی کتاب کا انتساب صابر عطاء نے اپنے دادا ابو ملک اللہ ڈیوایا اور انکے قریبی دوست نوابزادہ نصراللہ خان (بابائے جمہوریت) مرحوم اپنی اولاد محمد نادر عطاء،رفعت محمود اور اپنی بیٹیوں اور ادب دوست ڈاکٹر عقیل احمد کے نام کیاہے کتاب کی اشاعت میں خصوصی تعاون ہنگر فری فاونڈیشن پاکستان اور عوامی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن نے کیا صابر عطاء کتاب کے ابتدائیہ میں عاجزی انکساری کا دامن پکڑتے ہوئے رقم طراز ہے کہ میں یہ دعویٰ تو نہیں کرتا کہ میں نے کوئی بڑا کام کیا لیکن میں ہمیشہ ایسے لوگوں کی تلاش میں ضرور رہا ہوں کہ جہنوں نے گوشہ نشینی میں رہتے ہوئے بڑے کام کیے یہ لکھتے ہوئے وہ قاری سے اپیل بھی کرتا ہے کہ کتاب کی فہرست دیکھ کر کتاب بند کرنے کی بجائے بند نہ کریں یہ معمولی اشخاص جوکہ شائد آپ کو یا د نہ ہوں مگر ان افراد نے دور دراز پسماندہ علاقوں میں رہتے ہوئے ادب ثقافت سماج سیوا کے لئے ایسے کام کیے جو سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل تھے ساتھ ہی صابر عطاء قارئین کی آراء کا بھی منتظر ہے ساتھ ہی صابر عطاء روز نامہ پاکستان ملتان سمیت قومی اخبارات کے احباب کا احسان مندہے جہنوں نے ان گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے والے افراد کے انٹریوز
تحریروں کو صابر عطاء کے قلم سے تحریر ہونے کے بعد شائع کیا صابر عطاء نے بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے کتاب کے اختتام پر اپنے ان دوستوں کو بھی یاد رکھا جو صابر عطاء کے دیرینہ ساتھی اور اسکی توجہ کے طالب ہیں اردو ادب میں صابر عطاء جسے معمولی کام کہہ رہا ہے وہ بڑا عظیم کام ہے اس کتاب کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی اس کتاب کی اشاعت سے نئے لکھاریوں میں لکھنے کا نیاجزبہ پروان چڑھے گا اس معاشرے میں صحافت کرنا جہاں غریب مریض ایڑیاں رگڑ کر مر جاتا ہے مگر ڈاکٹر میٹنگ میں مصروف رہتاہے جہاں بیٹی کی پیدائش پے لیا جانے والا قرضہ باپ بیٹی کی جوانی کے بعد بالوں سفیدی تک نہیں اتار سکتا اور بیٹی بن بیاہی اور باپ سود در سود قرضہ اتارتے مر جاتاہے جنگل کا بھی کوئی قانون ہوتاہے جنگل سے بد تر معاشرے میں خبروں کی تلاش میں سر کرداں حساس طبعیت کا مالک صابر عطاء ایک شخص نہیں ایک تحریک ہے کبھی سیلاب زدگان کی امداد میں مصروف عمل تو کبھی زلزلہ زدگان کے لئے امدادی سامان اکٹھا کر نے کے ساتھ اجتماعی شادیوں کا پروگرام ترتیب دیتے ہوئے نظر آتا ہے اگلے ہی لمحے تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لئے خون کے عطیات اکٹھے کرتے ہوئے کسانوں کے حقوق کے لئے سر کرداں صابر عطاء نے یادیں اور باتیں شائع کر کے نیا کام سر انجام دیا عبدالطیف ابو شامل میگزین ایڈیٹر روز نامہ ایکسپریس صابر عطا ء کے بارے رقمطراز ہیں کہ صابر عطا کو پہلی ملاقات میں میں نے نو آموز سمجھا مگر چھپا رستم نکلا وہ صحافی ہے خلق خدا کے دکھوں میں گھل کر کچھ کر گزرنے کی دھن اس پر سوار ہے صابر عطاء بنے ہوئے راستے کی بجائے اپنا راستہ خود بنانے میں سر کرداں ہے وہ کوئی بیساکھیاں بھی استعمال نہیں کرنا چاہتا صابر عطاء کی شاعری کو خراج تحسین دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صابر عطا ء جاگیر داروں سرمایہ داروں اور وڈیروں کے جبڑوں میں پھنسی ہوئی دکھی معتوب مقہور مغضوب لاچار اور بے بس خلق خدا کی آوازبننے کے مراحل طے کر رہاہے اور وہ یہ سفر عزم ہمت حوصلے سے کامیابی سے طے کر لے گا
ملاقاتیں اور باتیں ادب شناش حلقوں اور نسل نو کے صابر عطاء کی گرانقدر تصنیف ہونے کے ساتھ ساتھ نئے لکھاریوں کے لئے نئی سمت کا راہ دکھاتی مشعل ہے