مٹھائی کھا کر مرنے والےاور ہماری بے حسی
تحریر محمد عمر شاکر
مرنے والوں پر سیاست یا صحافت نہیں کرنی چاہیے مگر حکمران کے سوئے ہوئے ضمیر ارباب اختیار کو انکے فرائض منصبی یاد کرانا تو حق بنتا ہے الکامل المبرد عربی کہاوتوں کی کتب ہے جس میں ایک عربی کہاوت ہے کہ چھوٹا نقصان بڑے نقصان سے بچاتاہے ضلع لیہ کا صوبہ پنجاب کے پسماندہ ترین اضلاع میں شمار ہوتاہے ضلع بھر میں سینکڑوں بڑی یا چھوٹی مٹھائی بسکٹ کیک دودھ دہی فروخت کرنے والی دکانیں ہیں جب سے یہ ضلع بنا ماضی میں یہاں ڈی سی جبکہ اب ڈی سی او تعینات ہوتے رہے ہیں مگر سیاسی آقاؤوں کی خوشنودی ڈی سی او آفس کی نرم و گداز کرسی اور موسم سرما میں گرم جبکہ موسم گرما میں سرد ہوا دینے والے ڈوئیل اے سی اور چا پلوسی کرتے ماتحت آفیسران کے دلنشیں جملوں کے سبب بھی حاکم لیہ کی کرسی پر تعینات رہنے والے آفیسر نے یہ چیک کرنا ہی گوارا نہیں کیا کہ اسکے ضلع میں محکمہ صحت کے آفیسران کیا کیا گل کھلا رہے ہیں انسانی جانو ں سے کیا کیا کھلواڑ ہو رہے ہیں حضرت امام حسین ؑ کا قول ہے کہ برائی کے خلاف جتنی دیر کے بعد آواز اٹھائی جائے گی اتنا بڑا کفارہ دینا پڑے گا قبل ازیں تو ناقص مٹھائی کھانے سے معدے میں تکلیف کیسٹرول کا بڑھ جانا شوگر ہو جانا جیسے موذی امراض تو بڑھ ہی رہی تھیں مگر ضلع لیہ کی تحصیل کروڑ کے نواحی گاؤں چک نمبر 105میں نو مود بچے کی پیدائش میں تقسیم کی جانے والی مٹھائی سے تیس کے قریب نوجوان معصوم بچے بوڑھے داعی اجل کو ہسپتالوں کے بیڈز پر ایڑہیاں رگڑ رگڑ کر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے مقامی افراد اپنے پیاروں کو مٹی میں دفنا دفنا کر رنج و الم کے نشان بنے ہوئے ہیں انکی رو رو کر آنکھیں پتھرا گئی ہیں اعصاب جواب دے گئے ہیں قبریں کھود نے کا کام بھی اب ایک رفاحی فلاحی تنظیم فلاح انسانیت فاونڈیشن کے رضا کاروں نے سنبھا لا ہوا ہے جبکہ ان گنت افراد ابھی تک ہسپتالوں میں زیرعلاج ہیں اموات میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے بلاشبہ ضلع لیہ میں یہ حادثہ بہت بڑا حادثہ ہے اس کے ذمہ داران کون ہیں
؟؟؟انکا تعین ممکن ہو سکے گا ؟؟؟کیاانہیں سزا مل سکے گئی ؟؟؟؟نامور وکلا کے دلائل کرسی انصاف پر بیٹھے جج صاحب کو اپنے دلائل سے رام کر لیں اور ملزمان سزا سے بچ جائیں گئے ؟؟؟کیا سیاسی پنڈتوں کی چال بازیوں سے فریقین میں صلح ہو جائے گئی اور ملزمان سزا سے بچ جائیں ؟؟؟؟ کیا سرمائے دار زرعی ادویات چائنہ پڑی فروخت کرنے والے سرمائے کا استعمال کر کے درمیانی راستہ نکال کر بچ جائیں گئے ؟؟؟ ضلع بھر میں ایسے سینکڑوں کار خانے ہیں جہاں ناقص اشیاء تیار کی جاتی ہیں اور ہزاروں ایسی دکانیں ٹھیلے رہڑیاں ہیں جہاں یہ اشیاء فروخت کی جاتی ہیں ۔۔۔قارئین نہ صرف جوان بوڑھے اس سے بیمار ہو کر ڈاکٹروں کے کلینکوں کو آباد کر رہے ہیں بلکہ معصوم بچوں سکول جاتے طلبہ طالبات کی کثرت ان اشیاء کے کھانے سے بیماریوں میں مبتلاء ہو رہے ہیں ۔۔۔ کسی بھی چائلڈ شپیلسٹ سے پوچھ لیں وہ بازار میں فروخت ہونے والی ناقص اشیاء کا رونا رو ئیں گئے ۔۔۔قانون کیوں خاموش ہے اگر پوڈر چرس شراب کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی جا سکتی ہے تو انسانیت کے ان قاتلوں کے خلاف کیوں کاروائی نہیں کی جا سکتی ہے ؟؟ ؟؟سکولز کی کنٹینز پر مضر صحت اشیاء کی فروخت کی جا رہی ہیں ۔۔۔ڈسٹرکٹ پولیس آفس لیہ میں سابق ڈی پی او لیہ شوکت عباس نے پولیس آفیسران پولیس ملازمین اور سائلین کے لئے کنٹین بنوائی مگر ان کی تبدیلی کے ساتھ ہی ڈی پی اوآفس کی وہ کنٹین بند کر دی گئی اور ڈی پی او آفس میں چھپر ہوٹل بنا دیا گیا ۔۔۔ کیا ہمارے مزاج ہی یہ ہیں کہ ہم چھپر ہوٹلوں کے بنچوں ٹوٹی کرسیوں کو پنکھے کے نیچے اچھے فرنیچر پر بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔۔۔۔میڈیکل سٹور کے لائسنسوں کو کرائے پر لیکر میڈیکل سٹور کے کاروبار کے چرچے تو پرانے تھے مگر اس سانحہ کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ اس ملک میں زرعی ادویات کے فروخت کرنے کے لائسنس بھی کرائے پر سرمایہ دار لیکر زرعی ادویات فروخت کر رہے ہیں ۔۔۔ محکمہ زراعت کے آفیسران کے علم میں یہ تمام مک مکاو ہوتا ہے ۔۔۔۔تیس سے زائد افراد کی وفات کا واقع اسلام آباد کراچی لاہور پشاور کوئٹہ یا کسی بڑے شہر یا اس کے نواح میں ہوتا تو میڈیا کی لائیو کوریج کئی دنوں تک متواتر ہوتی نامور سیاست دان اپنی سیاسی دکانیں چمکاتے سماجی تنظیمیں اپنے کیمپ لگاتے مگر جنوبی پنجاب کے پسماندہ گاؤں میں اتنے بڑے سانحہ کوئی کسی بھی ٹاپ ٹن نیوز چینل کے ابتدائی طور پر کوئی اہمیت دی نہ کوئی لائیو پروگرام ہوا ۔۔۔ علاقائی رپوٹرز کے چیخنے چلانے توجہ دلانے پر میڈیا کی ڈی ایس اینجیز یہاں پہنچی ۔۔۔ پورا گاؤں سوگ میں ڈوبا اور علاقہ غم زدہ تھا ان حالات میں مقامی افراد کو کون کھانا کھلاتا کسی کو کسی کی ہوش نہ تھی ۔۔۔ شرح غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے والی عوام سے ٹیکس لینے والے ریاستی اداروں نے قیامت صغری کے اس منظر میں مقامی لوگوں کے کھانے کا کوئی بندو بست نہ کیا ۔۔۔۔۔ کسی بھی سماجی تنظیم نے اس طرف توجہ نہ دی تو فلاح انسانیت فاونڈیشن کے رضا کاروں نے مقامی لوگوں انکے مہمانوں اور علاقے کے دوسرے افراد کے لئے کھانے کا بلا امتیاز بند و بست کیا ۔۔۔مٹھائی کھا کر مرنے والے تو مر گئے کچھ ہسپتالوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں ۔۔۔۔ مگر ریاستی حکومتی اداروں کے کسی ذمہ دار نے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستعفی ہونے کا اعلان نہ کیا ہے ۔۔۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سرکاری آفیسران تو ہمہ وقت ایک ہی دعا مانگنے میں مصروف عمل ہیں کہ وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نہ آجائیں ۔۔۔۔ اگر وہ آگئے تو دو چار آفیسران کو معطل کچھ کو نو کری سے برخاست کر جائیں گئے ۔۔۔۔ ضلع بھر میں ایک فیصد بھی مٹھائی دودھ فروخت کرنے والی دکانیں محکمہ صحت یا دوسرے اداروں سے رجسٹرڈ نہ ہیں جب بھی کوئی فرض شناش آفیسر آتا ہے تو سختی ہوتی ہے منتھلی کا ریٹ بڑھ جاتا ہے تحریر کے ابتداء میں عربی زبان کی کہاوت لکھی تھی کہ چھوٹا نقصان بڑھے نقصان سے بچا جاتا ہے ریاستی ادارے ابھی بھی ہوش کے ناخن لیں آفیسران بالا اپنی ذمہ داریاں سمجھیں اور کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والے افراد کو رجسٹرڈ کرتے ہوئے افضان صحت کے اصولوں کے معیار کے مطابق فروخت کرنے کا پابند بنائیں اللہ ناکرئے کہ مستقبل میں ایسا کوئی واقعہ رو نما ہو حکومت پنجاب کی طرف سے مرحومین کے ورثا کو پانچ پانچ لاکھ کے امدادی چیک دیے جا رہے ہیں گھرانے کے سر براہ کو جب یہ چیک دیے گئے تو اس نے انتہائی غم زدہ لہجے میں کہا کہ میرا خاندان ختم ہو گیا گھرانا اجڑ گیا میں اس امدادی رقم کا میں کیا کر وں ؟؟؟ اس سوال کا کوئی جواب ہے کسی کے پاس؟؟؟