چک 105میں صو بائی وزیر خوراک بلال یسین کی اوپن انکوائری
زہریلی مٹھائی سے جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین نے صوبائی وزیر کوبتایا کہ نشتر ہسپتال میں مریضوں کو علاج معالجہ کے دوران انجکشن لگانے کے بعد مریضوں کی حالت بتدریج خراب ہونا شروع ہو جاتی تھی انہیں سر درد اور تیز بخار ہو جاتاتھا اور قے آنے کا سلسلہ مریض کی ہلاکت تک جاری رہتا تھا۔انہوں نے صوبائی وزیر کو بتایا کہ جن لوگوں نے نشتر ہسپتال سے علاج کروانے سے انکار کر دیا ان کی زندگیاں محفوظ رہیں جبکہ دیگر علاج کروانے والے افراد ہلاکتوں کا شکار ہوئے۔
لیہ(صبح پا کستان) صوبائی وزیرِ خوراک بلال یٰسین نے کہا ہے کہ لیہ میں زہریلی مٹھائی کھانے سے26افراد کی ہلاکت کے معاملے کی چھابین کے لیے اعلیٰ طبی ماہرین پر مشتمل خصوصی ٹیم جامع اور مفصل انکوائری کرئے گی یہ انکوائری شفاف و میرٹ کی بنیاد پر مکمل کی جائے گی اور اس میں اگر کوئی ڈاکٹر یا طبی عملہ غفلت و کوتاہی کا مرتکب پایا گیا تو اس کے خلاف سخت تادیبی
کاروائی عمل میں لائی جائے گی ۔یہ بات انہوں نے آج یہاں چک نمبر105ایم ایل میں اوپن انکوائری کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہی، اوپن انکوائری میں ڈائر یکٹر فوڈ اتھارٹی پنجاب عائشہ ممتاز ،ڈی سی او لیہ رانا گلزار احمد ، ڈی پی او لیہ محمد علی ضیاء، ایم این اے صاحبزادہ فیض الحسن سواگ،سابق صوبائی وزیر ملک احمد علی اولکھ ،سابق ایم پی اے ملک عبدالشکور سواگ،اے سی کروڑ محمد تنویر یزداں،ڈائریکٹر ہیلتھ ڈی جی خان ڈاکٹر شاہد حسین بھٹی ، ایم ایس نشتر ہسپتال ملتان ڈاکٹر عاشق حسین ملک ،اے ایم ایس نشتر ہسپتال ملتان ڈاکٹرصدیق ثاقب ، ایس ایم او نشتر ہسپتال ڈاکٹر عبدالقادر خان ،انچارج آئی سی یوڈاکٹر عمار، ای ڈی او صحت لیہ ڈاکٹر امیر عبداللہ سامٹیہ ،ای ڈی او صحت مظفر گڑھ ،ڈسٹرکٹ فزیشن لیہ ڈاکٹر ظفر اقبال ملغانی ،پتھالوجسٹ ڈاکٹر محمد اعظم ایم ایس ڈی ایچ کیوہسپتال لیہ، ڈاکٹر غلام مصطفی گیلانی ۔زہریلی مٹھائی سے جاں بحق ہونے والے مرحومین کے ورثاء زہریلی مٹھائی سے متاثرہ افراد اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نمائندہ افراد اور ذرائع ابلاغ کے نمائندے موجود تھے۔صوبائی وزیر نے زہریلی مٹھائی سے ایک ہی گھرانے کے 13افراد کے سربراہ عمرحیات ،نیاز حسین ، غلام اکبر اور زاہد بی بی سے فرداً فرداً زہریلی مٹھائی کھانے سے متعلقہ معاملات ڈی ایچ کیو ہسپتال لیہ و نشتر ہسپتال ملتان میں فراہم کردہ طبی سہولیات کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کیں ۔اس موقع پر صوبائی وزیر کو ڈائر یکٹر صحت ڈی جی خان ،ای ڈی او صحت لیہ ، ڈسٹرکٹ فزیشن لیہ و ایم ایس ڈی ایچ کیو ہسپتال لیہ میں فراہم کردہ طبی سہولیات کے بارے میں بریفنگ کے دوران بتایا کہ ہسپتال میں چوبیس مریض آئے تھے جن کے زہر کے بارے میں مقامی طبی ماہرین و ملک کے دیگر ممتاز ڈاکٹر صاحبان تاحال زہر کی نوعیت کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کر سکے تاہم مریضوں کو دستیاب طبی سہولیات کی فراہمی کا عمل بروئے کار لایا گیا تھا اور شدید متاثرہ مریضوں کو نشتر ہسپتال ریفر کیا گیا ۔انہوں نے مزید بتایاکہ ان کے 30سالہ میڈیکل پریکٹس میں ایسا سنگین و جان لیوا واقع پہلی بار سامنے آیا ہے ۔صوبائی وزیر کو ایم ایس نشتر ہسپتال ڈاکٹر عاشق حسین نے طبی سہولیات کے بارے میں بریفنگ دی جبکہ زہریلی مٹھائی سے جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین نے صوبائی وزیر کوبتایا کہ نشتر ہسپتال میں مریضوں کو علاج معالجہ کے دوران انجکشن لگانے کے بعد مریضوں کی حالت بتدریج خراب ہونا شروع ہو جاتی تھی انہیں سر درد اور تیز بخار ہو جاتاتھا اور قے آنے کا سلسلہ مریض کی ہلاکت تک جاری رہتا تھا۔انہوں نے صوبائی وزیر کو بتایا کہ جن لوگوں نے نشتر ہسپتال سے علاج کروانے سے انکار کر دیا ان کی زندگیاں محفوظ رہیں جبکہ دیگر علاج کروانے والے افراد ہلاکتوں کا شکار ہوئے۔انہوں نے نشتر ہسپتال میں ڈاکٹر و ں وپیرا میڈیکل سٹاف کی جانب سے عدم توجگہی ،لاپرواہی اور علاج معالجہ میں غفلت کی شکایت کی اور ڈی ایچ کیو ہسپتال لیہ کی جانب سے ایمبولینس فراہم نہ کیے جانے کے بارے میں صوبائی وزیر کو آگاہ کیا ۔صوبائی ورثاء کی جانب سے مبینہ طور پر علاج معالجہ میں غفلت اور عدم توجہگی کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ایم ایس نشتر ہسپتال سے وضاحت طلب کی جس پر ایم ایس نے بتایا کہ نشتر ہسپتال میں روزانہ 25سو سے زائد مریض علاج کے لیے آتے ہیں جن میں سے 100مریضوں کو آئی سی یو میں داخل کیا جاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ لیہ سے ریفر کیے گئے 50مریضوں کا علاج معالجہ کیا گیا جن میں سے ابھی تک 3مریض ہسپتال میں داخل ہیں جب کہ باقی ڈسچارج کر دئے گئے ہیں انہوں نے صوبائی وزیر کو بتایا ہسپتال میں مریضوں کو دستیاب بہترین طبی سہولیات اور لواحقین کی ممکنہ حد تک نگہداشت و دیکھ بھال اور تمام طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے بھر پور اقدامات عمل میں لائے گئے۔صوبائی وزیر نے ایم ایس نشتر ہسپتال سے وضاحت طلب کی کہ جو مریض علاج ادھورا چھوڑ کر واپس آگئے ان کا جانیں بچ گیں مگر جن مریضوں کا علاج معالجہ کیا گیا ان کا ہلاکتوں کا سبب کیا ہے۔جس کا ایم ایس نشتر ہسپتال تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔اس پر صوبائی وزیر نے سخت نوٹس لیتے ہوئے قیمتی انسانی جانوں کے ضائع کے سنگین اور افسوس ناک المیہ قرار دیا اور کہا کہ حکومتِ پنجاب طبی شعبے کی بہتری اور علاج معالجے پر سالانہ اربوں روپے خرچ کر رہی ہے اس لیے وزیر اعلیٰ پنجاب نے انہیں اپنے خصوصی نمائندہ کے طور پر حقائق کے تعین کے لیے فرائض سونپے ہیں اور اس سلسلہ میں فرانزک رپورٹ آتے ہیں اعلیٰ طبی ماہرین پر مشتمل خصوصی ٹیم حقائق کی چھان بین کرے گی ۔انہون نے مزید کہا کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب اس انتہائی حساس المیے کے بارے میں بروئے کار لائے گے اقدامات کی براہ راست نگرانی کر رہے ہیں اور حکومتِ پنجاب دکھ کی اس گھڑی میں لواحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے اور وہ وزیراعلیٰ پنجاب کے نمائندے کے طور پر ورثاء کے ساتھ اظہارِ تعزیت کے لیے آئے ہیں جو وزیر اعلیٰ پنجاب کا متاثرہ خاندانوں کے لواحقین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا عملی ثبوت ہے ۔