مت سمجھو ہم نے بھلا دیا۔
عفت بھٹی
16 دسمبر ہماری تاریخ کا ایک سیاہ دن ۔طلوع ہونے والا سورج بھی نہیں جانتا تھا کہ اس کی ننھی کرنوں کو دیکھ کر آنکھ کھولنے والے ننھے منے چاند تارے جو چہلیں کرتے اسکول جا رہے ہیں کبھی نہ لوٹ پائیں گے۔ماؤں کا فی امان اللہ کہنا بھی آج ان کی حفاظت نہ کر پائے گا تقدیر کچھ اور ہی باب لکھ چکی ہے جس کا اذن آچکا ہے۔کسے معلوم تھا
کہ آج طلوع ہونے والی صبح کتنی تاریک ہونے والی ہے۔ دوسال پیچھے چلتے ہیں۔
16 دسمبر 2014ء کو تحریک طالبان پاکستان کے 7 دہشت گرد ایف سی (فرنٹیئر کور) کے لباس میں ملبوس پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں پچھلی طرف سے داخل ہوگئے اور ہال میں جا کر اندھا دھند فائرنگ کی اس کے بعد کمروں کا رخ کیا اور وہاں پر بچوں کو گولیاں ماریں، سربراہ اداراہ کو آگ لگائی، 9 اساتذہ، 3 فوجی جوانوں کو ملا کر کل 144 ہلاکتیں اور 113سے زائد زخمی ہوئے۔ہلاک ہونے والے 132 بچوں کی عمریں 9 سے 18 سال کے درمیان تھیں ۔ پاکستانی آرمی نے 950 بچوں و اساتذہ کو اسکول سے باحفاظت نکالا۔ ایک دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جبکہ 6 مارے گئے
یہ پاکستانی تاریخ کا مہلک ترین دہشت گردانہ حملہ تھا۔اب اس دل گداز واقعے کو دو برس بیت چکے ہیں مگر اس کی یاد سے آج بھی دل میں ٹیسیں اٹھتی ہیں۔گرچہ سکول دوبارہ آباد ہو گیا اس باغ میں پھرسے بلبلیں چہکنے لگیں بچوں کی آوازیں اور چہلیں پھر سے شروع ہو گئیں مگر یہ واقعہ کبھی ذہن سے محو نہ ہو گا ۔ اس کے بعد فوج اور قوم کے مشترکہ عزم سے آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا اور شمالی وزیرستان اور دیگر مشتبہ علاقوں سے چن چن کر دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کو نیست و نابود کر دیا گیا اور دو سال کی مدت میں دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج کمی آتی گئی ۔
سولہ دسمبر کو بلیک ڈے کے نام سے موسوم کیا گیا پچھلے سال گورنمنٹ نے چھٹی کا اعلان کیا تھا مگر اس سال گویا وقت نے اس پہ گرد ڈال دی اور ہم نے جیسے اقبال ڈے کو فراموش کر دیا ویسے آج اس دن کو بھی عام دن سمجھ لیا۔ آئندہ سالوں تک یہ یاد بھی فراموش کر دی جائے گی۔۔پاکستانی قوم بلاشبہ ایک بہادر قوم ہے ۔اپنے ملک کے لیے کسی قربانی سے کبھی دریغ نہ کرنے والی غیور قوم جو اپنی نسل نو کو قربان کرنے کے بعد بھی سر جھکانا نہیں سیکھا۔یہی جذبہ ہے جو ملک عزیز کو قائم رکھے ہوئے ہے۔اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔
16 دسمبر 2014ء کو تحریک طالبان پاکستان کے 7 دہشت گرد ایف سی (فرنٹیئر کور) کے لباس میں ملبوس پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں پچھلی طرف سے داخل ہوگئے اور ہال میں جا کر اندھا دھند فائرنگ کی اس کے بعد کمروں کا رخ کیا اور وہاں پر بچوں کو گولیاں ماریں، سربراہ اداراہ کو آگ لگائی، 9 اساتذہ، 3 فوجی جوانوں کو ملا کر کل 144 ہلاکتیں اور 113سے زائد زخمی ہوئے۔ہلاک ہونے والے 132 بچوں کی عمریں 9 سے 18 سال کے درمیان تھیں ۔ پاکستانی آرمی نے 950 بچوں و اساتذہ کو اسکول سے باحفاظت نکالا۔ ایک دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جبکہ 6 مارے گئے
یہ پاکستانی تاریخ کا مہلک ترین دہشت گردانہ حملہ تھا۔اب اس دل گداز واقعے کو دو برس بیت چکے ہیں مگر اس کی یاد سے آج بھی دل میں ٹیسیں اٹھتی ہیں۔گرچہ سکول دوبارہ آباد ہو گیا اس باغ میں پھرسے بلبلیں چہکنے لگیں بچوں کی آوازیں اور چہلیں پھر سے شروع ہو گئیں مگر یہ واقعہ کبھی ذہن سے محو نہ ہو گا ۔ اس کے بعد فوج اور قوم کے مشترکہ عزم سے آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا اور شمالی وزیرستان اور دیگر مشتبہ علاقوں سے چن چن کر دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کو نیست و نابود کر دیا گیا اور دو سال کی مدت میں دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج کمی آتی گئی ۔
سولہ دسمبر کو بلیک ڈے کے نام سے موسوم کیا گیا پچھلے سال گورنمنٹ نے چھٹی کا اعلان کیا تھا مگر اس سال گویا وقت نے اس پہ گرد ڈال دی اور ہم نے جیسے اقبال ڈے کو فراموش کر دیا ویسے آج اس دن کو بھی عام دن سمجھ لیا۔ آئندہ سالوں تک یہ یاد بھی فراموش کر دی جائے گی۔۔پاکستانی قوم بلاشبہ ایک بہادر قوم ہے ۔اپنے ملک کے لیے کسی قربانی سے کبھی دریغ نہ کرنے والی غیور قوم جو اپنی نسل نو کو قربان کرنے کے بعد بھی سر جھکانا نہیں سیکھا۔یہی جذبہ ہے جو ملک عزیز کو قائم رکھے ہوئے ہے۔اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔