مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیاتھی
خضرکلاسرا
وزیراعظم نوازشریف کا اپنی پوری سیاسی زندگی میں اس بار لیہ کا تیسری بار دورہ تھا ۔اس دور ہ کی اہمیت یوں تھی کہ نواز حکومت پانچ سال مکمل کرنے سے ایک سال کی دوری پر کھڑی ہے ۔اس صورتحال میں وزیراعظم نوازشریف اس کوشش میں مصروف ہیں کہ ایک طرف پانامہ کیس کے معاملے پر تحریک انصاف،پاکستان پیپلزپارٹی ،جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کوعوام کی عدالت میں بھی ناکامی سے دورچار کیجائے اور اس تاثر کو تقویت دی جائے کہ نواز حکومت عوام میں مقبول جماعت کی حیثیت رکھتی ہے ۔ادھر وزیراعظم نوازشریف اس بات کو بحیثت سنیئر سیاستدان جانتے ہیں کہ الیکشن2018ء تیزی سے قریب آرہاہے جوکہ ان کی سیاسی زندگی کا اہم الیکشن ہوگا اور اس الیکشن کو اپنے حق میں کرنے کیلئے عوام کا اعتماد حاصل کرنا بے حدضروری ہوگا۔دوسری طرف اس بات کو بھی لیگی قیادت جان چکی ہے کہ پانامہ کے فیصلہ کے بعد ڈان لیکس کا معاملہ اسی طرح حکومت کے سر پر تلوار کی طرح لٹک رہاہے جیسے کہتے ہیں کہ آسمان سے گرا اور کجھور میں اٹکا ۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ وزیراعظم نوازشریف اب تک بحرانوں کو دھکیلتے اپنی حکومت کی مدت پوری کرنے کی طرف کامیابی سے بڑھ رہے ہیں لیکن شہر اقتدار کی صورتحال پانامہ فیصلہ کے بعد جس تیزی کیساتھ تبدیل ہورہی ہے ،اس میں واقفان حال اس بات کااشارہ دے رہے ہیں کہ نواز حکومت کیلئے اب سب اچھا نہیں ہے ، سیاسی بھونچال آسکتاہے، اب تو جدہ کے امکان بھی رد کیجارہاہے بلکہ اور طرف اشارے مل رہے ہیں۔ادھر ڈان لیکس کے معاملے پر سول اور فوجی قیادت کے درمیان تعلقات پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں جوکہ لیگی قیادت کیلئے نیک شگون نہیں ہے۔دوسری طرف اپوزیشن وزیراعظم نوازشریف کا گھیراؤ کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دے رہی ہے۔
بہرحال وفاقی دارلحکومت کے سیاسی معاملات میں الجھے وزیراعظم نوازشریف کا دورہ لیہ انتہائی اہم تھا ۔ہماری توقع تھی کہ لیہ کے لیگی ارکان اسمبلی وزیراعظم نوازشریف کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ،تھل بالخصوص لیہ کے عوام کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی کے حامل منصوبوں کے بارے میں مکمل آگاہی دیں گے اور وزیراعظم کو عوام کی موجودگی میں اس بات پر مجبور کریں گے کہ وہ اہم منصوبوں کا اعلان کرکے جائیں لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ بدقسمتی سے ارکان اسمبلی کی توجہ مسائل کی بجائے خوشامد پر مرکوز رہی،یوں بات شیر اور گیڈروں کے شکار کی طرف نکل گئی ۔راقم الحروف نے خبریں کے کالم میں اس طرف تفصیل کیساتھ توجہ دلائی تھی کہ وزیراعظم نوازشریف کے دورہ کو لیہ تونسہ پل تک محدود نہ کیا جائے بلکہ عوامی مطالبات کو وزیراعظم نوازشریف کے سامنے رکھا جائے جوکہ تھل بالخصوص لیہ کے عوام کیلئے بے حد اہم ہیں ۔ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ارکان اسمبلی کی طرف سے وزیراعظم سے تھل ڈویثرن ،تھل میڈیکل کالج ، انجئنرنگ یونیورسٹی ،زرعی یونیورسٹی ،ائرپورٹ،تلہ گنگ ،میانوالی ،بھکر ،لیہ ،مظفرگڑھ سے ملتان تک موٹروے تک کا مطالبہ کرنے میں شرم محسوس کیوں کی گئی ہے ؟ اسی طرح اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور او ربہاؤ الدین یونیورسٹی ملتان کی طرز پر ایک بڑی پایہ کی تھل میں یونیورسٹی کا مطالبہ کیوں نہیں کیاگیاہے ؟ دوسری طرف نشتر ہسپتال ملتان ،بہاول وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور طرز کے ٹیچنگ ہسپتال جیسے ادارے کیلئے وزیراعظم کو اعلان کرنے کی درخواست کیوں نہیں کی گئی ہے ؟ وزیراعظم نوازشریف کی اس طرف توجہ مبذول کیوں نہیں کروائی گئی ہے کہ تھل جوکہ میانوالی ،بھکر ،جھنگ ،لیہ اور مظفرگڑھ کے علاقہ پر مشتمل ہے ، یہاں پر بہاولپور کی طرح تین اضلاع میں تین میڈیکل کالج کیوں نہیں بنائے جاتے ہیں ،اسی طرح بہاولپور کی طرح یہاں پر تین اضلاع میں تین دانش سکول کیوں قائم نہیں کئے جارہے ہیں ۔کوٹ سلطان اور فتح پور کو رائیونڈ کی طرح تحصیل کا درجہ دینے میں کیا امر مانع ہے ؟ لیہ کے عوام جوکہ سندھ دریا کے کٹاؤ کا بری طرح سامنا کررہے ہیں ، انکی زندگیاں اور زمینوں کے بچاؤ کیلئے سپر اور دیگر حفاظتی اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جارہے ہیں ؟ مان لیا کہ لیہ تونسہ پل ایک بڑ امنصوبہ ہے اور جس کا سنگ بنیاد تیسری بار رکھا گیاہے لیکن دیگر منصوبے بھی تو تھل بالخصوص لیہ کے عوام کوضرورت ہیں اور کچھ نہیں تو وزیراعظم سے دیگر منصوبوں کا وعدہ ہی لے لیاجاتا۔پل کے ایک منصوبہ کے ہنگامہ میں دیگر اہم منصوبوں پر مٹی تو نہیں ڈالی جاسکتی ہے ۔جس طرح ملتان ،بہاولپور میں وویمن یونیورسٹی کا قیام ضروری ہے ،اسی طرح تھل کے عوام بھی اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ حکومت ان کو بھی خواتین کی تعلیم کیلئے یونیورسیٹاں بناکر دے،اسی طرح ائر یونیورسٹی ملتان کی طرح تھل کے طالب علموں کو بھی ائریونیورسٹی کی ضرورت ہے ۔میانوالی بھکر ، جھنگ اورلیہ میں سٹرکوں اور شاہراؤں کا یہ حال ہے کہ ایک طرف تھل کے عوام تریموں پر کھڑے ہوتے ہیں تو دوسری طر ف میانوالی کی موسی خیل پہاڑی ان کیلئے عذاب بنی ہوتی ہے ۔بھکر اور میانوالی کے لوگ پانچ گھنٹے کے سفرکے بعد ڈویثرنل ہیڈکوارٹر سرگودھا پہنچتے ہیں ،ادھر لیہ کے لوگ ڈویثرنل ہیڈکوارٹر ڈیرہ غازی خان میلوں سفر کے بعد پہنچ پاتے ہیں جبکہ میانوالی ،بھکر،لیہ جھنگ اور کوٹ ادو پر ایک بہترین ڈویثرن قائم کیا جاسکتاہے لیکن یہاں کی عوام کو سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان کے سفر میں الجھایاہواہے۔ہائی کورٹ بنچ بھی اسی طرح تھل کے عوام کی ضرورت ہے، جیسے ملتان اور بہاولپور کے عوام کو ہائی کورٹ بنچوں کی ضرورت ہے۔ ظلم کی انتہاء تھل کے عوام پر یوں کی جارہی ہے کہ بھکر میں گیس کا دفتر تک قائم نہیں کیاگیا ہے ان کو دوسرے ضلع میں جاکر کنکشن کی درخواست دینی پڑتی ہے لیکن کوئی بھکر کا کوئی رکن اسمبلی اس بات پر شرمندہ نہیں بلکہ دھٹائی کیساتھ عوام کی خواری کو انجوائے کررہاہے سرائیکی کے معروف دانشور رانا اعجاز سے بہاولپور میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے بھی اتفاق کیاکہ تھل کیساتھ انصاف نہیں ہو رہاہے ۔راقم الحروف نے رانا صاحب کو امیددلائی کہ وزیراعظم کا دورہ تھل بالخصوص لیہ کیلئے خوشیاں لائیگا لیکن کھودا پہاڑا نکلا چوہا اور وہ بھی مرا ہوا ۔ایسی صورتحال کے بعد رانا اعجاز صاحب سے رابط ہی نہیں کیا وگرنہ انہوں نے حکمرانوں پر کم اور راقم الحروف پر زیادہ غصہ نکالنا تھا۔
ہمارے خیال میں وزیراعظم نوازشریف کو بھی اس بات کا بھرم رکھنا چاہیے تھاکہ وہ تھل بالخصوص لیہ میں بحیثت وزیراعظم موجود تھے اور عوام کی کثیر تعداد ان کے استقبال کیلئے حاضر تھی ،یوں کیا ہی اچھا ہوتاوزیراعظم نوازشریف تھل کے عوام کیلئے کوئی یونیورسٹی ،میڈیکل کالج ،زرعی یونیورسٹی،موٹروے ،ائیرپورٹ ،انجئنرنگ یونیورسٹی،وویمن یونیورسٹی ،ائر یونیورسٹی ،تھل ڈویثرن کے اعلان کیساتھ ساتھ دریائے سندھ کے کٹاؤ کی روک تھام کیلئے سپراور دیگر منصوبوں کا اعلان تو کر ہی آتے اس میں ان کی بھی سیاسی ساکھ رہ جاتی اورتھل کے عوام کی امیدوں پر بھی پانی نہ پھرتا اور سالوں بعد لیہ تونسہ پل کی طرح دیگر منصوبوں کے سنگ بنیاد کی تختی بھی کبھی نہ کبھی لگ ہی جاتی ۔اس صورتحال دلجوئی کیلئے شعر حاضر ہے ۔ نہ آتے مگر اس میں تکرار کیاتھی۔۔۔۔۔ مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیاتھی