لکھاری خدمت کارڈ
تحریر: افضال احمد
آرٹسٹ ہمارے معاشرے کا بہترین طبقہ ہیں جو ثقافت کو پروموٹ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا ’’آرٹسٹ خدمت کارڈ‘‘ جاری کرنا یقیناًایک عظیم کارنامہ ہے۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف دن رات عوام کی خدمت میں مصروف ہیں۔ دلی خوشی ہوئی کہ غریب آرٹسٹوں کو وزیر اعلیٰ پنجاب ’’خدمت کارڈ‘‘ کی صورت میں ایک عظیم تحفہ دینے جا رہے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف پاکستان میں موجود کسی بھی شعبے سے بے خبر نہیں ہیں۔ ہم سب بے صبری سے کام لیتے ہوئے ناجانے حکومت کے خلاف کیا کچھ کہہ بیٹھتے ہیں دراصل حقیقت تو یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف پاکستان کے ہر شعبے کو بہترین بنانے کی کوشش میں ہیں‘ بس بجٹ کی ایڈجسٹمنٹ کرنے میں تھوڑا وقت لگتا ہے۔ ہمیں بے صبری کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے ‘ حکمرانوں سے اچھی اُمید رکھنی چاہئے۔ اس کے ساتھ ہم یہ بھی کہیں گے کہ تقریبات پر پابندی سے فنکاروں کے مالی حالات بہت خراب ہو چکے ہیں۔ ’’آرٹسٹ خدمت کارڈ‘‘ کے ساتھ ساتھ اگر شادی بیاہ کے موقع پر اور دیگر تقریبات کے موقع پر ساؤنڈ پر پابندی ختم کر دی جائے تو یہ بھی خادم اعلیٰ کی طرف سے فنکاروں کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔
غریب آرٹسٹوں کو جب وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی طرف سے ’’آرٹسٹ خدمت کارڈ‘‘ کی خوشخبری دی گئی تو خدا کی قسم غریب آرٹسٹوں کے برسوں سے مرجھائے چہروں پر رونق آگئی ۔بہت سے غریب فنکار تو خوشی کے مارے رونے لگے اور جھولی اُٹھا کر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو دعا دینے لگے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے اس بہترین کارنامے سے غریب فنکاروں کے گھر میں موجود ٹھنڈے چولہے بھی گرمی پکڑیں گے۔ غریب فنکاروں کے پاس ایک وقت کی روٹی ہوتی ہے تو دوسرے وقت کی روٹی کھانے کیلئے اپنے قیمتی آرٹ کو ’’کوڑیوں‘‘ کے بھاؤ بیچ دیتے ہیں۔ بڑے بڑے آرٹسٹوں کے واقعات موجود ہیں جنہوں نے ایک وقت کی روٹی کی خاطر اپنے قیمتی فن کو چند ’’ٹکوں‘‘ میں بیچ ڈالا‘ لیکن خدا ہمارے سروں پر وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا سایہ ہمیشہ ہمیشہ سلامت رکھے انہوں نے غریب فنکاروں کیلئے ’’آرٹسٹ خدمت کارڈ‘‘ کے اجرا کی جو خوشخبری سنائی ہے اس سے غریب فنکاروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔
وزیر اعلیٰ شہباز شریف کیلئے ہمیشہ دعاگو رہتا ہوں ۔ بلا شبہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی غریب لکھاریوں کی طرف بھی توجہ ضرور ہو گی بس تھوڑا وقت درکار ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سے ایک چھوٹی سی گزارش ہے کہ غریب لکھاریوں کیلئے بھی ’’شہباز شریف لکھاری خدمت کارڈ‘‘ جاری کئے جائیں۔ مجھ جیسے نوجوان غریب لکھاری جو معاشرے کے سدھار میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ہمیں ’’پھوٹی کوڑی‘‘ بھی نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ ہم جیسے نوجوان لکھاریوں کو لوگوں کے طعنے سننا پڑتے ہیں کہ ’’دنیا کو جینا سیکھا رہے ہو تمہیں کیا ملتا ہے؟ مفت میں پورے معاشرے کے سدھار کا تم نے ٹھیکہ اُٹھا رکھا ہے؟ تمہیں کوئی اور کام نہیں جو مفت میں تحریریں لکھ لکھ کر ’’سماج سیوا‘‘ کر رہے ہو؟‘‘ یہاں تک کہ مجھ سمیت بہت سے غریب لکھاریوں کے گھر والے بھی ان کے خلاف ہو چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھئی! کوئی ’’پیسے کمانے والا‘‘ کام کرو یہ کیا مفت میں تحریریں لکھ لکھ کر اپنا وقت برباد کر رہے ہو۔
وزیر اعلیٰ شہباز شریف نوجوان طبقے سے خاص محبت رکھتے ہیں اور نوجوانوں میں موجود ٹیلنٹ کی بے پناہ قدر کرتے ہیں۔ ایک عرصہ بیت گیا کہ میں معاشرے کے سدھار کیلئے دن رات محنت کرکے مضامین و کالم لکھ رہا ہوں لیکن مجھے اس کے بدلے میں صرف لوگوں کی دعاؤں کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ میرے نزدیک لوگوں کی دعا بہت بڑا اجر ہے لیکن ہم لکھاریوں کو بھی پیٹ لگا ہے جو غذا مانگتا ہے‘ جسم ہے جو کپڑا مانگتا ہے۔ سچ ہے کہ مانگنا ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے چاہئے لیکن اللہ تعالیٰ اس دنیا میں انسان کی مدد وسیلے کے ذریعے کرتے ہیں ‘ بے حد خوشی ہو گی کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف ہم نوجوان غریب لکھاریوں کا وسیلہ بن جائیں۔
وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے بڑے بڑے لکھاریوں‘ شاعروں‘ادیبوں‘ دانشوروں کو تو نوازا ہے لیکن ہم چھوٹے غریب لکھاریوں کو ہر پلیٹ فارم پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہم نوجوان غریب لکھاریوں کی امید کی آخری کرن صرف وزیر اعلیٰ شہباز شریف ہی ہیں۔ شاکر شجاع آبادی جنوبی پنجاب کے نامور شاعر ہیں اس شاعر کی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت دیگر مخیر حضرات نے مختلف انداز میں مالی سپورٹ کی۔ ہم جیسے نوجوان غریب لکھاری کہاں جائیں؟ کس سے اپنے حق کی بات کریں؟ کیا یہ پرانے لکھاری‘ پرانے ادیب‘ پرانے شاعر پہلے نوجوان نہ تھے؟ یہ سچ ہے کہ اُن کی نوجوانی میں پاکستان میں تعلیم کا معیار بہتر نہ تھا لیکن نواز شریف اور شہباز شریف نے اقتدار میں آتے ہی تعلیم کے شعبے سمیت دیگر شعبوں کو ترقی کی طرف گامزن کیا۔
پرانے لکھاریوں کو پڑھ پڑھ کر ہی موجودہ نوجوان لکھاریوں میں لکھنے کا جذبہ پیدا ہو رہا ہے۔ پرانے لکھاریوں کا بے حد شکر گزار ہوں اور ان کی بہت عزت و احترام کرتا ہوں۔ پرانے وقتوں میں کوئی کوئی تعلیم حاصل کر پاتا تھا۔ کوئی کوئی لکھاری ہوا کرتا تھا‘ کوئی کوئی شاعر ہوا کرتا تھا۔ پرانے وقتوں میں جو لکھاری‘ شاعر‘ ادیب‘ دانشور بن جاتا لوگ اسے سر کا تاج بنا لیتے تھے۔ اس برق رفتار اور مہنگائی کے دور میں ہم جیسے نوجوان غریب لکھاری کہاں جائیں؟ جو ایک وقت کی روٹی نہیں کما سکتے‘ اپنی تعلیم کیسے پوری کریں؟ غربت کی وجہ سے بہت سے لکھاری تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور بہت سے تو تعلیم حاصل ہی نہ کر سکے لیکن معاشرے میں سدھار کے لئے دن رات تحریریں لکھ رہے ہیں۔
بہت سے کم تعلیم و اَن پڑھ لکھاری پاکستان میں موجود ہیں جن کی تحریروں میں ایسے ایسے الفاظ ملتے ہیں جو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان کی تحریر میں بھی نہیں ملتے۔ کم تعلیم یافتہ لکھاری اپنی تعلیم اور غربت کی وجہ سے معاشی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے اور تعلیم یافتہ امیر لکھاری ٹوٹی پھوٹی تحریریں لکھ کر بھی معاشرے میں کامیاب ہے۔ میں واضح کرتا چلوں کہ میں کسی لکھاری کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہا۔ دراصل تنقید کرنا میرے مزاج میں شامل ہی نہیں جس کا ثبوت میری اب تک لکھی تمام تحریریں ہیں۔ تمام تعلیم یافتہ لکھاری میرے لئے استاد کی حیثیت رکھتے ہیں اور میں اپنے اساتذہ کی بہت عزت و قدر کرتا ہے۔
بہت سے نوجوان غریب لکھاریوں کو لکھاری کا شعبہ چھوڑتے ہوئے دیکھا ۔ جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ غریب نوجوان لکھاری دن رات محنت کرکے تحریریں تو لکھتے ہیں لیکن انہیں کوئی معاوضہ نہیں ملتا‘ اُلٹا سماج میں بسنے والے لوگ اور گھر والوں کے طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نوجوانوں میں موجود ٹیلنٹ کی قدر کرتے ہیں جس کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے طلبہ میں کھیل، تقریری و تحریری مقابلے کروائے اور پوزیشن ہولڈر طلبہ کو انعامات سے نوازا تا کہ ان کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ طلبہ میں لیپ ٹاپ تقسیم کئے‘ نوجوانوں کیلئے سستا سفری نظام بنانے کیلئے میٹرو جیسے تحفے دیئے‘ بہت سے نوجوانوں کی تعلیم کا خرچہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف ذاتی جیب سے برداشت کر رہے ہیں‘ غریب خاندانوں کی ہر طرح سے مالی سپورٹ کرتے ہیں۔
غریب لکھاری ہاتھ پر ہاتھ دھرے سرکاری و مخیر حضرات کی امداد کے انتظار میں نہیں بیٹھے‘ جس سے جتنا ہو سکتا ہے محنت مشقت کرتا ہے‘ بہت سے لکھاری موچی‘ رکشہ ڈرائیور‘ سیلز مین‘ مختلف پرائیویٹ شعبوں میں نوکریاں کرتے ہیں لیکن اتنی محنت کرنے کے باوجود گھر کا راشن پانی‘ بچوں کے اخراجات‘ بہنوں کی شادیاں‘ ماں باپ کی دوائیوں جیسے اخراجات پورے نہیں کر پاتے کیونکہ 8 سے 10 ہزار ماہانہ آمدن میں کچھ نہیں ہوتا۔ گھروں کے کرائے‘ بجلی‘گیس، پانی کے بل ہی پورے نہیں ہوتے۔ میں خود بھی 8 ہزار ماہانہ تنخواہ پر پرائیویٹ ملازمت کرتا ہوں۔ شہباز شریف غریبوں کا ہر شعبے میں ساتھ دیتے ہیں۔
غریب لکھاری لڑکیوں کو بھی اگر ’’شہباز شریف لکھاری خدمت کارڈ‘‘ دیئے جائیں تو وہ بھی اپنی شادی و جہیز کا مناسب انتظام کر سکتی ہیں۔ بہت سی غریب لڑکیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھروں میں بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں۔مجھ جیسے غریب لکھاری کم آمدن کے باعث غیر شادی شدہ بیٹھے ہیں کیونکہ آج کل لڑکی والوں کو کروڑ پتی داماد ہی چاہئیں۔
بلا شبہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف میرٹ کی قدر کرتے ہیں ‘ نیچے والا عملہ ہم جیسی غریب عوام کو دھوکا‘ فراڈ دیتا ہے لیکن شہباز شریف خود دل کے بہت اچھے انسان ہیں۔ کہتے ہیں کھیلوں کے میدان آباد ہوتے ہیں تو ہسپتال ویران ہوتے ہیں اسی طرح اگر اصلاحی تحریروں کی بات کی جائے تو یہ تحریریں انسان کے دل و دماغ کو آباد کرتی ہیں اور انسان میں و روشن خیالی پیدا کرتی ہیں۔ امید ہے کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف ہم غریب ’’اَن پڑھ‘ کم تعلیم والے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ‘‘ لکھاریوں کی طرف توجہ ضرور کریں گے۔ ہمارے گھروں کے ٹھنڈے چولہوں کو بھی ’’شہباز شریف لکھاری خدمت کارڈ‘‘ کی ضرورت ہے۔آخر میں یہ کہوں گا کہ لکھاری خدمت کارڈ کی تجویز کو یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم تمام لوگوں کو بھکاری بنانا چاہتے ہیں یہ دراصل عبوری امداد ہو گی اصل مسئلہ غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ ہے۔
افضال احمد