شب و روز زندگی قسط 22
تحریر :۔ انجم صحرائی
ناز سینما کے ساتھ ریڈ ایریا گلی کے نکڑ ریلوے روڈ پر ایک سرائے نما ہوٹل بھی ہوا کرتا تھا یہ جگہ تو محکمہ اوقاف کی تھی مگر ایک وکیل اس پر قابض تھے خیر یہ جگہ کرایہ پر لے کر ساجن شاہ نے ہوٹل بنایا تھا ۔ ساجن شاہ بھی ایک بہت منفرد کردار تھے ایک زمانہ مشہور ٹرانسپورٹ کمپنی نیوخان سے وابستہ رہے اور ڈرائیوری کرتے رہے بعد میں پتہ نہیں کیا سمائی کہ ہوٹل کر لیا مجھے نہیں پتہ کہ ان کی مادر زبان کیا تھی مگر بڑی تستعلیق اردو بڑے دھیمے لہجے میں بو لتے تھے خوبصورت انسان تھے ڈاکٹر خیال کے مدا حوں میں سے تھے اسی لئے ہماری بھی ان کے سا تھ یاد اللہ ہو گئی۔
ڈاکٹر خیال ان دنوں اپنی خود نوشت خرابی نا مہ لکھ رہے تھے جس کی اقساط روزنامہ امروز ملتان میں شا ئع ہوا کرتی تھیں ۔ ڈاکٹر خیال پینے پلا نے کا بھی شغل کیا کرتے تھے ساجن شاہ کے ہوٹل میں دو تین کچے کمرے بھی تھے انہیں کمروں میں سے ایک کمرہ بادہ نو شوں کی میزبا نی کے لئے بھی مختص تھا ۔ عمو ما ڈاکٹر خیال اکیلے ہی یہ شغل کرتے لیکن کبھی کبھار کو ئی دوست بھی ان کا پارٹنر بن جا تا ۔ مجھے بھی ڈاکٹر خیال کے ان لمحوں میں ساتھ رہنے کا مو قع ملتا تھا مگر میں چو نکہ رند بلا نوش نہ تھا اسی لئے ڈاکٹر خیال جب موج میں ہو تے اشعار سنا تے انقلا بی گفتگو کرتے ہو ئے میری ران پر چٹکی بھرتے اور آ نکھ مارتے ہو ئے مجھے مو لوی کہہ کر متوجہ کرتے۔
انہی دنوں خیال اکیڈ یمی کے تحت اسی ہو ٹل میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا اس مشا عرہ میں خا نیوال سے کردار صدیقی اور بھکر سے نصرت چو ہدری بھی شریک ہو ئے مشا عرہ ختم ہو نے کے بعد ہم سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے اور ڈاکٹر صاحب شاید ساری رات سا غرو مینا میں الجھے رہے صبح میں ساجن شاہ کے بلاوے پر ہو ٹل پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب اسی کمرے میں اکلو تی چارپا ئی پر ٹانگیں لٹکا ئے بیٹھے تھے میں نے ان کی حالت دیکھ کر اندازہ لگا لیا کہ “یہ آ نکھیں سو ئی سو ئی ہیں ۔ یہ آ نکھیں رو ئی رو ئی ہیں “مجھے دیکھ کر داکٹر صاحب بہت خوش ہو ئے اور آ نکھ میچ کر سا تھ والے کمرے کی طرف اشارہ کر کے بولے سب ادھر ہی جا رہی ہیں ۔ میں نے پو چھا کون جا رہی ہیں
انہوں نے مجھے اشارہ کیا اور بو لے وہ ۔ میں نے دیکھا کہ پھیکے سرخ رنگ کے بھڑ کیلے کپڑے پہنے ایک عورت ساتھ والے کمرے میں جا رہی تھی میں نے کہا تو جا نے دیں ڈاکٹر صاحب ہمیں کیا میری یہ بات کر نا تھی کہ ڈ ا کٹر خیال ہتھے سے اکھڑ گئے ایک مو ٹی سی گالی نکا لی اور کہنے لگے بس یہی وجہ ہے کہ سالا انقلاب کیوں نہیں آ تا تم سا لے سارے لوگ ان درندوں سے ملے ہو جو ساتھ والے کمرے میں بیٹھا پیسے کے زور پر عزتیں لوٹ رہا ہے میں ایسا نہین ہو نے دوں گا مو لوی تم میرا سا تھ دو یا نہ دو میں اس سالے پٹواری کو آ ج نہیں چھوڑوں گایہ کہتے ہو ئے ڈاکٹر صاحب سا تھ والے کمرے کی طرف چل دیئے کمرے کا آ دھا دروازہ کھلا تھا اور ایک مشہور پٹواری اپنے سا تھیوں سمیت شغل فر ما رہے تھا مشہور گا نا ہے
ناں کہ تو نوٹ دکھا میرا موڈ بنے کے مصداق چو نکہ دولت پٹواری بہادر کے ہا تھ کی میل تھی اس لئے وہ نوٹ دکھا ئے جا رہا تھاور ریڈ ایریا کی سبھی عورتیں پٹواری بہادر پر نچھاور ہو نے لئے موڈ بنا ئے جا رہی تھیں ۔ ریڈ ایریا گلی کی یہ ساری عو تیں ہو ٹل کے پچھلے دروازے سے آ جا رہی تھیں اور انہیں اپنے مطلو بہ کمرے تک جا نے کے لئے اس کمرے کے سا منے سے گذرناپڑتا تھا جہاں ڈاکٹر بیٹھے تھے شا ئد یہ سلسلہ رات بھر جا ری رہا اسی لئے ڈاکٹر خیال بڑے اپ سیٹ تھے
خیر جب ڈاکٹر ساتھ والے ادھ کھلے کمرے میں داخل ہو ئے تو انہیں اندر داخل ہو تے دیکھ کر وہاں پر مو جود عورتوں نے تو دوڑ لگا دی اور پٹوار ی اور اس کے سا تھی بھی شا ئد رات پر پیتے رہے تھے ان کی حالت بھی خا صی بری تھی مگر اتنی بری نہیں تھی کہ وہ ہمیں پہچان نہ پا تے اسی لئے پٹواری نے جو نہی داکٹر خیال کو دیکھا بڑے ادب اور احترام سے آ گے بڑھ کر نہ صرف ہا تھ ملا یا بلکہ مر شد کہہ کر ڈاکٹر کے ہا تھ کو چو ما بھی۔ وہ مجھ سے نظریں نہیں ملا رہا تھا اسی لئے میں بھی خا موش رہا ۔ پٹواری نے ڈاکٹر صاحب سے بیٹھنے کی درخواست کی مگر ڈاکٹر خیال کھڑے اسے گھورتے رہے جو نہی پٹواری دوبارہ چا رہا ئی پر بیٹھنے لگا تو ڈاکٹر بولے سالے پٹواری یہ کیا تو نے ساری رات سے تما شا لگا رکھا ہے ، سالے تیرے پاس بہت پیسا ہے ناں غریبوں سے تو نے بہت لوٹا ہے۔
غریب کسا نوں اور مزارعوں کا لہو سالے تو نے بہت نچوڑا ہے میں تجھے نہیں چھوڑوں گا پٹواری نے جواب میں جی شاہ جی کہتے ہو ئے ہا تھ معا فی ما نگنے کے انداز میں با ندھ لئے لیکن اچا نک ڈاکٹر صاحب نے اسے مو ٹی سی گا لی دیتے ہوئے اس کا گریبان پکڑ لیا اور زور سے چلا ئے سالے تونے جو غریبوں کے لہو سے وہ سفید گھوڑی لی ہو ئی ہے میں اسے نہیں چھو ڑوں گا میں اس گھوڑی کی دم کاٹ کے گلی کے آوارہ بھو کے کتوں کو کھلا ئوں گا۔
شور سن کر ساجن شاہ اور دوسرے لوگ بھی کمرے میں آ گئے اچھا خا صا ڈرامہ بن گیا تھا سبھی لوگ ڈاکٹر خیال کو جا نتے تھے اس لئے کسی نے بھی ڈاکٹر کی شان میں کچھ نہ کہا بس ڈاکٹر کی منتیں کر رہے تھے کہ وہ پٹواری کا گریباں چھوڑ دیں مگر ڈاکٹر گریباں چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھے اور بہت ہی جذ با تی انداز میں جا گیرداروں اور پٹواریوں کو کوس رہے تھے
میں نے ڈاکٹر خیال کو اتنا جذ با تی کبھی نہیں دیکھا تھا لگتا تھا سماج کی سبھی محرو میاں ایک سا تھ ان کے چہرے اور ان کے لہجے میں سمٹ آ ئی تھیں ہم سب مل کر ڈاکٹر خیال کو پٹواری سے علیحدہ کر نے کی کو شش کر رہے تھے اسی د ھینگامستی میں جو نہی ڈاکٹر خیال کی گرفت پٹواری کے گریباں پر ڈھیلی پڑی پٹواری نے ایک جھٹکے سے اپنا گریباں چھڑایا اور کمرے سے نکل گیا اس کے سا تھی پہلے ہی بھاگ گئے تھے ۔ اس کے اس طرح بخیرو عا فیت نکل جا نے کی وجہ سے ڈاکٹر خیال ایک عر صے تک ہم سے تھوڑے تھوڑے ناراض بھی رہے مگر ڈاکٹر خیال ایک بڑا انسان تھا اوردو ستوں سے نا راض رہنا اسے آ تا ہی نہیں تھا۔
اس وقت کے وکلاء میں شیخ غلام ربا نی ایڈ وو کیٹ ،حا فظ محمد اسحق ایڈ وو کیٹ ، شیخ محمد ا ر شد (جو بعد میں سول سروس میں چلے گئے تھے )شیخ عبد الطیف ایڈ وو کیٹ ، شیخ محمد فا روق ایڈ وو کیٹ ،ملک محمد افضل سا مٹیہ ایڈ وو کیٹ ،شا ہجہاں قریشی ایڈ وو کیٹ ، چو ہدری محمد سلیمان گجر ایڈ وو کیٹ ، ظفر اقبال قریشی ایڈ وو کیٹ ،شیخ سمیع اللہ ایڈ وو کیٹ ، ملک محمد سلیم بو دلہ ایڈ وو کیٹ ، شیخ نذر حسین ایڈ وو کیٹ ، ملک منظور حسین سو نہرا ایڈ وو کیٹ ، سید مو سے رضا شاہ ایڈ وو کیٹ ، چو ہدری محمد انور گھمن ایڈ وو کیٹ ، ملک منظور حسین جو تہ ایڈ وو کیٹ اور سردارسعید الر حمن خان ایڈ وو کیٹ مجھے یاد ہیں یہ وہ قا نون دان تھے جن سے مجھے ملنے انہیں سننے اور ان سے سیکھنے کا مو قع ملا جوں جوں شب و روز زند گی آ گے بڑ ھتے جا ئیں گے ان دو ستوں سے وا بستہ اپنی یا دیں آپ سے شیئر کر نے کی کو شش کروں گا ۔
ستر کی دہا ئی میں لیہ کی مقا می سیا ست کھر گروپ اور کھر مخا لف دستی گروپ میں تقسیم تھی کھر گروپ کے سر براہ ملک غلام مصطفے کھر تھے جو پی پی پی کے دور ر حکو مت میں گور نر پنجاب تھے ۔ملک غلام مصطفے کھر سے مجھے ملنے کا پہلی دفعہ اتفاق اوکاڑہ میں ہوا جہاں انہوں نے بھی نواز شریف حکو مت کے خلاف پی ڈی اے کے لا نگ مارچ کے سلسلہ میں ہو نے والے ایک بڑے احتجا جی جلسہ سے خطاب کیا تھا مجھے یاد ہے کہ دوران تقریر جب انہوں نے اپنے چہرے پر ہا تھ پھیرتے ہو ئے سرا ئیکی میں کہا کہ “میاں بہوو ں تھی گئے ہن تیکوں نہ چھریسوں ” لو گوں کا جوش دید نی تھا میری دوسری ملاقات کھر صاحب سے چو ہدری عین الحق کے گھر ہو ئی ۔ مظفر گڑھ کی سیاست میں کھر مخا لف دستی گروپ کی سیاست کا ہما سردار امجد حمید خان دستی کے سر پر بیٹھا ہوا تھا۔
سردا ر امجد حمید خان دستی کا تعلق مسلم لیگ سے تھا تو جب بھی مسلم لیگ بر سر اقتدار آ تی وزارت دستی کو تلاش کرتے ہو ئے مظفر گڑھ دستی ہا ئوس پہنچ جا تی جن دنوں سردار امجد حمید خان دستی کوٹ سلطان میرے گھر آ ئے یہ اس زما نے کی بات ہے جب میں نے کوٹ سلطان کی علا قائی سیاست میں متحرک ہو نے کا فیصلہ کیا چو نکہ مقا می سیاست میں تنگوانی خاندان کی ہمدردیاں کھر گروپ کے سا تھ تھیں اور سردار سیف اللہ خان تنگوانی ملک غلام مصطفے کھر کے قریبی سا تھیوں میں سے تھے سو میں نے اپنے دوست چیف سردار منظور حسین مرا نی کے تو سط سردار امجد حمید خان دستی کو کوٹ سلطان کے دورہ پر آ نے کی دعوت دی اس زما نے میں خان خدا بخش خان دستی کوٹ سلطان کی ایک معروف سیا سی اور سما جی شخصیت تھے
مقا می سیا ست میں خا صے متحرک اور کھر گروپ کے اپوزیشن سمجھے جاتے تھے ویسے بھی انہیں کوٹ سلطان میں بسنے والے دستی قبیلہ کے سر براہ کی حیثیت حا صل تھی اسی لئے جب سردار امجد حمید خان دستی کوٹ سلطان آ ئے تب خان خدا بخش خان دستی سمیت مقا می دستی خاند ا نوں کے بیشتر نما یاں لوگ میرے گھر پر اپنے سردار کے استقبال کے لئے مو جود تھے اس زما نے میں ملک احمد علی اولکھ جو انجمن کا شتکاراں کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کئے ہو ئے تھے ان کا تعلق بھی دستی گروپ سے تھا وہ بھی سردار امجد حمید خان دستی سے ملا قات کے لئے کروڑ سے کوٹ سلطان میرے گھر آئے تھے یہ وہ دور تھا جب پنجاب میں ملک غلام صطفے کھر گور نر تھے اور اسی سبب سر دار امجد حمید خان دستی پی پی پی کی بالا دستی کا شکار تھے
بعد میں جب مسلم لیگ کو اقتدار ملا امجد حمید خان دستی کو پنجاب کا وزیر خزانہ نامزد کیا گیا ۔ ایک اور وا قعہ جو مجھے ان کے حوالے سے یاد ہے اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ سردار امجد حمید خان دستی پنجاب کے وزیر خزانہ بننے کے بعد لیہ دورے پر آ ئے بلدیہ کے جناح ہال میں مسلم لیگی ور کرز کنو نشن منعقد ہوا ۔ داکٹر ملک منظور حسین لو دھرا مسلم لیگ کے سٹی صدر تھے جب ڈاکٹر لو دھرا تقریر کر رہے تھے تب ایک نو جوان کارکن نے کھڑے ہو کر ڈاکٹر لو دھرا کے حق میں نعرے لگانا شروع کر دیئے ڈاکٹر لو دھرا سمجھے کہ نو جوان ان کے خلاف نعرے لگا رہا ہے بہت غصے سے نو جوں کو ڈانٹتے ہو ئے اسے میٹھ جا نے کو کہا اور بو لے کہ کو ئی چا ہے
جتنا شور مچا لے آج میں نے حق کہنا ہے اور سچی بات کہہ کر رہوں گا ڈاکٹر لو دھرا کی اس بات پر تقریب کشت زعفران بن گئی تقریر کے بعد شائد سرادار امجد حمید خان دستی نے ڈاکٹر لو دھرا کو سر گو شی میں بتا یا کہ یہ نو جوان تمہاری مخالفت میں نہیں بلکہ تمہارے حق میں نعرے لگا رہا تھا بعد میں ڈاکٹر لودھرا نے اس نو جوان کو ڈھونڈ کر اس سے معذرت کی اور اسے گلے لگا یا۔ اس زما نے میں نصف صدی قبل بھی لیہ کے سیا سی ڈیرے یہی تھے جو آج کل ہیں جکھڑ ، سیہڑ ، تھند ، سمرا ،تنگوا نی ، جو تہ ،مرا نی اور پیران کرام۔
اس زما نے میں ایک صاحبزادہ فضل بھی ہوا کرتے تھے جن کا تعلق تھا تو جھنگ کے کسی پیر گھرا نے سے لیکن وہ لیہ میں مقیم تھے اور تحریک استقلال سے وابستہ تھے ۔ شا ئد ضلعی صدر بھی تھے تحصیل لیہ کے ۔نصف صدی سے زیادہ گذ رنے کے با وجود آ ج بھی سیا ست انہی ڈیروں کے گرد گھوم رہی ہے ۔ البتہ آ ج سیا ست کے بدلے معیار نے کچھ نئے چہرے بھی کو چہ سیاست میں متعار ف کرا ئے ہیں لیکن ان چہروں کی رو نما ئی سیا سی جدو جہد سے زیادہ وسائل اور دھن دولت کی مر ہون منت ہے۔
انجم صحرائی