وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کا موسم ایسا دل کو بھایاکہ اس کو یہاں کا ہولینے کا پروگرام بنالیا ۔یوں زندگی کے ماہ وسال اسی میں گزررہے ہیں۔اس میں توکوئی دورائے نہیں ہے کہ اسلام آباد اپنے خوبصورت موسم اور بحیثت وفاق دیگر شہروں پربرتری رکھتاہے ۔اس کے بڑے بڑے فیصلوں کے اثرات ملک کے کونے کونے میں محسوس کیے جاتے ہیں۔ اسلام آباد کو پاکستان کی طاقت کا مرکز کہیں تو بے جانہ ہوگا۔اس شہر اقتدار سے سیاستدانوں کو گلہ رہتاہے کہ اسلام آباد میں ان کے حق حکمرانی کو تسلیم نہیں کیاجاتاہے۔اور ان کے خلاف سازشیں ہوتی ہیں لیکن وہ اپنی کارکردگی اور ذمہ داریوں میں کوتاہیوں پر غور نہیں کرتے ہیں کہ انہوں نے جمہوریت کے نام پراپنی ذات کو ہی اہمیت دی ہے یاپھر ملک وقوم کی حقیقی معنوں میں خدمت کی ہے۔اب تو جمہوری قوتوں کو اقتدار میں 2018 ء کے وسط تک پورے10 سال مکمل ہونے والے ہیں ۔اقتدار کی ان دوٹرم میں ان کی کارکردگی کے بارے میں قوم جانتی ہے کہ انہوں نے قوم کو کس طرح بندگلی میں لاکھڑا کیاہے اورملزم اسحاق ڈار کی کاروائیوں کی بدولت معاشی عذاب قوم پر نازل ہورہاہے ۔اس شہر اقتدار اسلام آباد میں خوب دن بھی گزرے ،لیکن تلخ واقعات کی رپورٹنگ پر صدمہ سے بھی دوچار ہوا کہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کو خون خون کیوں کیاجارہاہے ؟ اس شہر اقتدار نے تو سارے ملک کو امن کی گارنٹی دی ہوئی جبکہ اب تو اس کا اپنا وجود چھلنی چھلنی ہورہاہے ،میلوڈی چوک ،مظفرگڑھ نہاری ہاوس ،ڈنمارک ایمبیسی،ایف ایٹ کچہری،میلوڈی چوک سمیت میرٹ ہوٹل اور دیگر مقامات پر تسلسل کیساتھ خودکش حملوں میں بڑی تعداد میں بے گناہ انسانوں کے مارے جانے پر بے حد دکھ بھی ہوا ۔اب تقریبا 11روز سے وفاقی دارلحکومت میں اسلام آباد میں کشیدگی ہے ،تحریک لیبک یارسول کی لیڈرشپ اور حامیوں نے جڑواں شہروں اسلام آباد اور روالپنڈی کو فیض آباد چوک کو بندکرکے شہریوں کو چوبیس گھنٹے سڑکوں کے طواف پر یوں لگادیاہے کہ مرکزی چوک پر ان کا کنڑول ہے اور دیگر راستوں پر رش اس قدرہے کہ ساری رات اور سارا دن شہری گھومتے رہتے ہیں ۔ان کو حضرات کو یہاں تک پہنچانے میں کون سی قوت تھی جوکہ ان کو وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کی طرف بڑھنے میں مدد فراہم کرتی رہی ۔ سمجھداروں کاکہناہے کہ وزیراعلی پنجاب شہبازشریف کی منفردکاروائی ہے ،انہوں نے انتہائی ہوشیاری کیساتھ مولوی خادم رضوی کو ساتھیوں سمیت روانہ کیاہے ۔پھر دلچسپ صورتھال یوں ہے کہ شہبازشریف نے مولوی خادم رضوی سے بھی پہلے وفاقی وزیرزاہد حامد سے اپنے بڑے بھائی اور لیگی لیڈر نوازشریف کی موجودگی میں استعفی کا مطالبہ کیاتھا اور باقی سارے مطالبات بھی موصوف نے کیے تھے جوکہ مولوی فیص آباد پل کو بندکرنے کے بعد تسلسل کیساتھ کررہے ہیں۔ادھر لیگی حکومت کے وزراء اور دیگر حامی کندھوں پر اشارے کرکے مولوی خادم رضوی کے پیچھے ان کے ہونے کا اشارہ دیتے ہیں جبکہ اپنے نااہل وزیراعظم نوازشریف کی طرح نام لینے سے کتراتے ہیں۔اب ان کی اس سادگی پر شاباش ہی دی جاسکتی ہے کہ کتنی معصومیت سے کاروائی ڈال رہے ہیں” صاف چھپتے بھی نہیں ،سامنے آتے بھی نہیں”۔خیال تھاکہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد جیسے اہم ترین شہر کو یوں بند کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی لیکن لیگی حکومت ہے کہ ٹھس سے مس نہیں ہورہی ہے بلکہ اتنے دن گزرگئے ہیں،مذاکرات ،کاروائی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود وزیرداخلہ احسن اقبال کبھی ماڈل ٹاؤن سانحہ لاہور اور کبھی اور کاروائی کا تذکرہ کرکے شہراقتداراور پنڈی کی عوام کو ذلالت کیساتھ فیض آباد چوک کی مرکزی سڑک کی بجائے دیگر چھوٹی سڑکوں پر مسلسل چکرمیں رکھے ہوئے ہیں۔اور دادا دینی پڑے گی جڑواں شہر کی عوام ہے کہ وہ "کوہلو کا بیل "کی طرح چلے جارہی ہے ۔دوسری طرف جتنا وقت مولانا خادم رضوی کو مل رہاہے ،وہ فیض آباد چوک پر حامیوں کی تعداد بڑھانے کیساتھ اپنے کارکنوں سے حلف بھی لے رہے ہیں ۔اسی طرح اطلاعات ہیں کہ ان احتجاج کرنیوالوں کے پاس اسلحہ کی بھی کھیپ بھی موجود ہے۔مطلب وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ایک اور لال مسجد سانحہ جیسی صورتحال کا ماحول وفاقی دارلحکومت میں بن رہاہے۔ تلخی کا امکان یوں بڑھ رہاہے کہ وزیرداخلہ پروفیسر احسن اقبال نے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کو مذاکرات اورکاروائی سے دوررکھاہواہے۔احسن اقبال کے اس حکم کے بعد تو میرے جیسے صحافیوں کا دھیان لال مسجد کے سانحہ کی طرف یوں جاتاہے کہ اس وقت تک لال مسجد اورمشرف حکومت کے درمیان مذاکرات اس وقت تک جاری رہے ،جب تک وفاقی دارلحکومت کی ضلعی انتظامیہ ڈپٹی کمشنر محمدعلی کی قیادت میں متحرک رہی ۔لیکن جوں جوں جنرل مشرف نے اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہوئے لال مسجد ایشو کو اپنے تجربہ کی بنیاد پر حل کرنے کا فیصلہ کیاتو پھر پوری قوم نے دیکھا کہ پریڈ گراونڈ میں ٹینک اتارے گئے ،افواج پاکستان کو آپریشن کا ٹاسک دیاگیا ،کرفیو لگادیاگیا اور پھر ایسا ماحول بنا کہ لال مسجد اور اس کے اردگرد کا علاقہ میدان جنگ بن گیا اور دونوں اطراف سے نقصان ہوا ،معاملہ اس حد تک بڑھا کہ ایک کرنل صاحب تک اندھی گولی کا نشانہ بن گئے ۔اسی طرح کوریج میں مصروف کیمرہ مین بھی ماراگیا ۔اور بھی بہت نقصان ہوا ،ٹکراؤ لال مسجد کی انتظامیہ کے حق میں بھی نہیں گیاتھا۔اس آپریشن میں ایسے لوگ بھی لال مسجد کے باھر اور اندر مارگئے جوکہ اپنے پیاروں کو لینے کیلئے آئے تھے اور ٹکراؤ نہیں چاہتے تھے۔لال مسجد کے آپریشن کے بعد وفاقی دارلحکومت اسلام آباد سمیت دیگر شہروں میں خودکش حملوں کی تعد اد میں اضافہ ہواہے۔پھر وہی اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ ہی تھی جوکہ اس تلخ صورتحال کو سنبھالنے کیلئے لپتا پوتی کررہی تھی اور وقت کیساتھ ساتھ کامیاب رہی ۔ہمارے خیال میں سیاستدان سمجھدار ہوتے ہیں ،ان کا سیاسی تجربہ اپنی جگہ اہم ہوتا ہے لیکن وہ ضلعی انتظامیہ کا متبادل یوں نہیں ہوسکتے ہیں کہ ان کے پاس ایسی صورتحال میں کرداراداکرنے کی تربیت اور وسیع تجربہ نہیں ہوتا ہے، مطلب” جس کا کا م اسی کو ساجھے” ۔ ہم یہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ گولی کی جگہ توپ چلانے کی جلدی میں وزیرداخلہ احسن اقبال اور دیگر وزراء نے تحریک لیبک کے معاملے کو سلجھانے کی بجائے الجھا دیاہے ،جس کاخمیازہ پوری قوم بھگت سکتی ہے،ان کی فیصلوں میں دیر کی وجہ سے الجھتی صورتحال سارے ملک کے امن کو تباہ کرسکتی ہے ،اب بھی وقت ہے کہ وزیرداخلہ مولوی احسن اقبال اپنے آپ کو ھر فن مولا کے خبط میں مبتلا نہ کریں ، اور اس حساس معاملے کو خراب نہ کریں بلکہ فوری طورپر ضلعی انتظامیہ اسلام آباد اور پولیس کی اعلی قیادت کو ٹاسک دیں کہ وہ مذاکرات بھی کریں اور جو کاروائی بنتی ہے اس کیلئے بھی فیصلہ کریں ۔