کڑوی مگر سچی باتیں
انجم صحرائی
بیٹھک تھی صلح کی اور معاملہ تھا گذ شتہ ہفتہ ایک سینئر وکیل اور ایک نوجوان وکیل کے والد محترم کے درمیان ہو نے والا ایک ناخوشگوار واقعہ کا ، صد شکر کہ سارے معاملات بہت خو بصورتی سے طے پا گئے لیہ بار نے اپنے نو جوان وکیل کا پورا ساتھ دیا اور بقول صدر ڈی بی اے مہر احمد علی واندر ملتان بار نے بھی اس مسئلہ کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے معامل فہمی پر زور دیا لیہ اور ملتان کے سینئر وکلا ء نے معا ملے کو سلجھانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور معاملات سلجھ گئے اور دونوں فریقین ساری ر نجشیں بھلا کر ایک دوسرے کو گلے ملے ، ملتان کے وکیل صاحب اپنے دوست وکلاء اور لیہ بار کے ایک نمائندہ وفد کے ہمراہ دوسرے فریق کو گلے لگانے ان کے گھر آ ئے دوسرے فریق نے بھی سارے گلے شکوے بھلاکر آ نے والے معزز مہما نوں کو گلے سے لگا لیا
کہتے ہیں نا چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نا جائے ۔۔۔ہم بھی وہاں موجود تھے۔۔ معذرت ۔۔ ہمارے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے ماحول جیسا بھی ہوحالات کیسے بھی ہوں ہم جاننے اور سیکھنے کا موقع نہیں جانے دیتے ۔۔ سو یہی ہوا اس محفل میں بھی ۔۔۔ کہ نہ چا ہتے ہو ئے بھی ہم نے ایک سوال صدر مجلس کی اجازت سے معزز مہمانوں سے پوچھ ہی لیا ۔۔
نہ معلوم آپ کو یہ سوال مناسب لگے یا غیر مناسب بہر حال آ پ سے شیئر کر رہا ہوں سوال کچھ یوں تھا کہ آ ج مجھے جس محفل میں موجود ہو نے کا اعزاز حاصل ہے آپ سب قا نون دان سینئر اور نوجوان سبھی وکلا میرے لئے باعث احترام ہیں بلا شبہ آپ سو سائٹی میکر ہیں سماج آ پ سے سیکھتا اور آپ سے تشکیل پاتا ہے جا ننا یہ چا ہوں گا کہ اگر متا ثرہ فریق ایک وکیل کا والد نہ ہو تا ایک عام آ دمی ہو تا تو کیا ہمارے یہ سارے معزز وکلاء ایک عام آ دمی کے ساتھ ہو نے والی زیا دتی میں بھی یہی کردار ادا کرتے ؟
میرے سوال کے جواب میں ایک مہمان دوست بولے کہ آ پ کے سوال کا جواب ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ جو ہوا ہم اس پر شر مندہ ہیں ۔ ایک اور دوست کا کہنا تھا کہ ایسا رویہ کسی بھی قا نون دان کو زیب ہی نہیں دیتا ان دو نوں دوستوں کا جواب مجھے شر مندہ کر گیا مجھے لگا کہ میں ان دوستوں کو اپنا سوال سمجھا نہیں پایا ہوں میں نے معذرت کے ساتھ ایک بار پھر عرض کیا کہ میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ میں ہو نے واقعہ کے ذمہ داروں سے پو چھوں کہ یہ واقعہ کیوں ہوا ؟ میرا مقصد تو یہ جاننا ہے کہ اس واقعہ کے فریقین میں متا ثرہ فریق کسی وکیل کا والد نہ ہو تا تو وکلاء برادری کا کیا رویہ ہو تا کیا اسی طرح اس عام آ دمی کے لئے بھی لیہ ، ملتان کے سینئر جو نیئر وکلا ء ایک زبان ہو کر واقعہ کی مذ مت کرتے اور متا ثرہ فریق کا ساتھ دیتے ؟
میری تشنہ لبی کو محسو س کرتے ہوئے ملتان سے آ ئے ہو ئے ایک اور دوست جو ایک معزز سینئر وکیل تھے کہنے لگے کہ یہ سب frustration کا کمال ہے آ ج کا بیس سال کی عمر کا نو جوان وکیل بیس سالہ تجربہ کار اپنے سینئرزکی آ مد نی اور کاروبار سے اپنا موازنہ کرتا ہے اور یوںfrustration کا شکار ہو جاتا ہے وہ نو جوان صرف یہ دیکھتا ہے کہ اس کا سینئر کتنا کما رہا ہے ، سینئر کے پاس کتنی بڑی گاڑی ہے کتنی خو بصورت رہائش گاہ ہے مگر وہ جو نیئر اس بات پر غور نہیں کرتا کہ اس کے سینئر نے کتنی محنت کی ،کتنے سالوں میں یہ مقام بنا یا ، یہ عزت بنائی ہماری نئی نسل میں یہ frustration ایک بنیادی مسئلہ ہے جو بہت سی خرابیوں کی جڑ ہے ۔
وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے ججز بحالی تحریک سے قبل کبھی بار میں ہڑتال نہیں دیکھی میں نے وہ دور بھی دیکھا ہے کہ جب جج صاحب بیکو سائیکل پر کورٹ میں اآ یا کرتے تھے اور ان کی آ مد کا سن کر راستے تعظیما خالی ہو جاتے تھے ، یہ وہ دور تھا جب وکلاء ننگے سر عدالت میں پیش نہیں ہوا کرتے تھے اگرعدالت میں پیش ہو تے وقت ان کے پاس سر ڈ ھانپنے کے لئے کوئی ٹو پی یا کپڑا نہیں ہو تا تھا تو جب تک عدالت میں رہتے اپنے ہاتھ سے سر کو ڈھا نپے رکھتے ۔ ججز اور وکلاء عدالت میں جاتے ہو ئے ایڑیوں کی بجائے پیروں کی انگلیوں کے سہارے چلتے تا کہ جو توں کی ٹک ٹک عدالت کو ڈسٹرب نہ کرے ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مقد مہ میں میری مخالف کلائینٹ عورت نے اپنے خلاف فیصلہ ہو نے پر مجھے وہ صلواتیں سنائیں جو میں بیان نہیں کر سکتا مگر میں مسکراتے ہو ئے وہ سب ہضم کر گیا چو نکہ مجھے میری تعلیم اور میرا پیشہ اپنے منصب سے گرنا نہیں سکھا تا ۔ مگر آج کے سماج میں صرف وکلاء ہی نہیں بلکہ سو سائٹی کے ہر طبقہ کلیپس ہوا ہے ۔ آپ اپنی صحافت کو ہی لے لیں جب لا کھوں روپے تنخواہیں لینے والے اینکر اور جر نلسٹ نہیں تھے خبر کی صداقت اور صحافت کے اقدارو رویات کا اپنا معیار تھا اور آ ج دیکھیں کیا ہو رہا ہے ؟
سینئر قانون دان دوست نے یہ کہتے ہو ئے بڑی افسردگی اور طنز سے مجھے دیکھا اور میں نے اثبات میں اپنی نظریں جھکالیں کہ میرے سوال کا جواب نہ ملنے کے باوجود یہ سبھی کڑوی باتیں بہت سچی تھیں ۔۔