کرب
تحریر ۔۔ عفت
امینہ بی کافی دن سے نظر نہیں آ رہی تھی ۔ورنہ وہ تو دن میں ایک دفعہ تو لازما چکر لگاتی تھی ۔بیٹھے بیٹھے باتوں باتوں میں وہ کئی کام نبٹا تی جاتی ۔میں نے اسے کبھی فارغ بیٹھے نہ دیکھا تھا ۔اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا شاپر ہوتا جس میں کبھی اون سلائیاں اور کبھی سوت کا کھیس ہوتا جس کے دھاگے بٹتی نظر آتی ۔زبان کے ساتھ ساتھ اس کے ہاتھ بھی تیزی سے چلتے ۔باتیں کرتے کرتے وہ میرے ہاتھ سے چھری لے لیتی اور فٹا فٹ سبزی بنا دیتی ۔میرا اس سے تعارف دو سال پہلے ہوا تھا وہ
تحریر ۔۔ عفت
امینہ بی کافی دن سے نظر نہیں آ رہی تھی ۔ورنہ وہ تو دن میں ایک دفعہ تو لازما چکر لگاتی تھی ۔بیٹھے بیٹھے باتوں باتوں میں وہ کئی کام نبٹا تی جاتی ۔میں نے اسے کبھی فارغ بیٹھے نہ دیکھا تھا ۔اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا شاپر ہوتا جس میں کبھی اون سلائیاں اور کبھی سوت کا کھیس ہوتا جس کے دھاگے بٹتی نظر آتی ۔زبان کے ساتھ ساتھ اس کے ہاتھ بھی تیزی سے چلتے ۔باتیں کرتے کرتے وہ میرے ہاتھ سے چھری لے لیتی اور فٹا فٹ سبزی بنا دیتی ۔میرا اس سے تعارف دو سال پہلے ہوا تھا وہ
کام کی تلاش میں میرے گھر آئی میں اپنے گھر کا کام خود کرنے کی عادی ہوں اس لئے مجھے کسی نوکر کی ضرورت نہ تھی مگر اس کی بے بسی دیکھ کر میں نے اسے ہفتہ وار کپڑوں کی دھلائی کا کہہ دیا اس کی تین بیٹیاں تھیں شوہر ایک حادثے میں معذور ہو گیا تھا اور اب گھر کے باہر ایک چارپائی پہ ٹافیاں ،نمکو پاپڑ سجا کر بیٹھ جاتا آس پڑوس کے ننھے بچے اس کی خریداری کر لیتے ۔بیٹا تھا نہیں جو سہارا بنتا ،ایک بیٹی کی شادی کر دی تھی اور وہ گجرات میں رہتی تھی دوسری جوان تھی تیسری دس سال کی تھی ۔امینہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی اس کی بیٹی کپڑے سلائی کرتی اس طرح زندگی کے شب وروز گذر رہے تھے ۔ایک ماہ پہلے اس نے مجھے بتایا تھاکہ اس نے بیٹی کا رشتہ طے کر دیا ہے لڑکا ایک پیٹرول پمپ پہ ملازمت کرتا ہے اور میٹرک پاس ہے ۔دو بھائی اور تین بہنیں ہیں سب شادی شدہ ہیں وہ لڑکا سب سے چھوٹا ہے اس حوالے سے بھی وہ خوش تھی کہ چھوٹا ہی سہی اپنا پانچ مرلے کا مکان ہے ۔گھر اپنا گھر ایک عورت کا خواب ہوتا ہے ۔خواہ وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتی ہو ۔اس نے اپنی بساط کے مطابق جہیز جمع کر رکھا تھا اس کا کہنا تھا بابر کہتا ہے خالہ آپ نے جو دینا ہے اپنی بیٹی کو دینا ہے میرا کوئی مطالبہ نہیں ۔اور اس سعادت مندی پہ امینہ بی قربان تھی ۔
پندرہ دن پہلے وہ براؤن کاغذ میں دو لڈو لپیٹ کر لائی اس کے چہرے سے خوشی پھوٹی پڑ رہی تھی آتے ہی اس نے لڈو میرے ہاتھ میں تھمائے اور بولی باجی ،بینا کی شادی کے دیہاڑے رکھ دیے ہیں دس دن بعد کی تاریخ رکھی ہے آپ نے بھی آنا ہے ۔میں نے مبارکباد دی اور اقرار میں سر ہلاتے ہوئے کہا کیوں نہیں ضرور آؤں گی ۔کوئی کام ہو تو بتانا ۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی اللہ آپ کو خوش رکھے ۔میں نے ساری تیاری کر لی ہے اللہ نے بڑا سوہنا ڈھوہ لگایا ہے اس کے بعد وہ بابر کی تعریفوں میں رطب اللسان ہو گئی ۔میں مسکرا مسکرا کر اسے دیکھتی رہی ۔کچھ دیر بعد وہ چلی گئی ۔مجھے بازار سے کچھ سودا سلف لینا تھا امینہ بی وہاں خریداری کرنے آئی مجھے دیکھ کر سیدھی میری طرف آئی اس کا اترا چہرہ دیکھ کر میں نے اس سے وجہ پوچھی تو کہنے لگی بابر کی ماں نے کہا ہے بابر کو مکان کی درستی کے لیے کچھ روپے چاہیے ادھار بعد میں واپس کر دے گا اب سب کچھ بینا کا ہی ہے ۔میں اسے تسلی کے سوا کیا کہہ سکتی تھی ۔دن گذر رہے تھے اس کے بعد امینہ بی سے ملاقات نہ ہوئی۔ مجھے اتفاقا ایک عزیزہ کی تیمارداری کے لیے لاہور جانا پڑا یہ وہی دن تھے جب بینا کی شادی تھی سو میں شادی میں شریک نہ ہو سکی ۔مجھے لاہور میں پانچ دن لگ گئے ۔آ کے روز سوچتی مبارک باد ہی دے آؤں مگر مصروفیت اتنی بڑھ گئی کہ جانا آج کل پہ ٹلتا رہا نہ میں جا پائی نہ ہی امینہ بی آئی ۔اسی آنا کانی میں دس دن بیت گئے ۔
صبح کے سات بجنے والے تھے میں تیزی سے ناشتہ بنانے میں مصروف تھی ۔بیٹی نے یونیورسٹی جانا تھا اس کا پوائنٹ سوا سات تک آجاتا تھا بیٹے کو اسکول جانا تھا ساتھ مجھے بھی سو یہ وقت بھاگ دوڑ میں گذرتا ۔ڈور بیل بجی ۔میں نے کچن سے ہانک لگائی دروازے پہ کوئی ہے دیکھیں ۔کوئی نہیں ہلا آخر ایک ہاتھ میں آٹے کا پیڑا تھامے بڑبڑاتے ہوئے مجھے ہی جانا پڑا دروازہ کھولا تو سامنے امینہ بی کی چھوٹی بیٹی کھڑی تھی ۔آپ کو اماں نے بلایا ہے اس نے سلام کے بعد پیغام دیا ۔اچھا میں دو بجے آؤں گی اس وقت بہت مصروف ہو ں اسکول سے واپسی پہ چکر لگاؤں گی بینا کی شادی ہو گئیَ ؟ میں نے رانی سے پوچھا ؟ ہاں جی اماں بیمار ہو گئی تھی آپریشن ہوا تھا اب ٹھیک ہے ۔بابر بھائی کو اماں نے سلامی میں موٹر سائیکل دی اور مکان کے لیے پچاس ہزار بھی ۔رانی نے للچائی نظروں سے سیب کی طرف دیکھتے ہوئے انکشاف کیا ۔میں نے اس کی نظروں کا تعاقب کرتے سیب اس کے ہاتھ میں دے دیا ۔مجھے سخت حیرانی اور تجسس تھا مگر رانی میرے کچھ اور پوچھنے سے قبل ہی سیب لے کر اڑنچھو ہو گئی ۔میں بھی جلدی جلدی کام نبٹانے لگی اسکول میں پڑھاتے وقت بھی میرے دماغ پہ رانی کی باتیں سوار رہیں ۔واپسی پہ میں نے امینہ بی کے گھر کا رخ کیا ۔عبدل گھر کے سامنے بیٹھا تھا مجھے دیکھتے سلام کیا اور بیساکھی سیدھی کرتے اٹھ کھڑا ہوا آئیں بی بی جی ۔میں نے سلام کا جواب دیا اور اندر آگئی ۔بجلی حسبِ معمول ندارد تھی کمرے میں تاریکی کا احساس دھوپ سے آنے پہ ہوا چند لمحوں کے بعد میری نظر چارپائی پہ لیٹی امینہ بی پہ پڑی وہ بہت کمزور ہو گئی تھی مجھے دیکھ کر ایک پھیکی سی مسکراہٹ اس کے سپید ہونٹوں پہ آ کر دم توڑ گئی میں سامنے بستر پہ بیٹھ گئی اور اس کا حال دریافت کیا میری بے چینی شاید اس نے بھانپ لی تھی۔باجی سب وہ نہیں ہوتا جو ہمیں دکھائی دیتا ہے بینا کی مہندی والے دن مجھ پہ بابر اور اس کے گھر والوں کی حقیقت کھلی انہوں نے پچاس ہزار اور موٹر سائیکل کا مطالبہ کیا ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے سب بینا کا ہے کونسا ہم نے استعمال کرنا ۔میں نے بہت منت ترلے مارے اس کے ابے نے بھی کہ ہم اتنے جوگے نہیں پر وہ ہمیں رشتہ ختم کرنے کی دھمکی دینے لگے تب میں نے بینا کی زندگی بربادی سے بچانے کے لئے ایک فیصلہ کیا ۔اتنا بتا کر امینہ بی ہانپ گئی ۔کیسا فیصلہ ؟ بے اختیار میرے منہ سے نکلا ۔امینہ بی نے ہمت مجتمع کرتے ہوئے کہا۔باجی میں نے اپنا گردہ بیچ دیا ۔میری بینا کا گھر بس گیا اور کیا چاہیے تھا ۔باجی اگر میں ایسا نہ کرتی تو رشتہ ختم ہونے کے بعد کون کرتا میری بینا سے بیاہ؟؟؟
پندرہ دن پہلے وہ براؤن کاغذ میں دو لڈو لپیٹ کر لائی اس کے چہرے سے خوشی پھوٹی پڑ رہی تھی آتے ہی اس نے لڈو میرے ہاتھ میں تھمائے اور بولی باجی ،بینا کی شادی کے دیہاڑے رکھ دیے ہیں دس دن بعد کی تاریخ رکھی ہے آپ نے بھی آنا ہے ۔میں نے مبارکباد دی اور اقرار میں سر ہلاتے ہوئے کہا کیوں نہیں ضرور آؤں گی ۔کوئی کام ہو تو بتانا ۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی اللہ آپ کو خوش رکھے ۔میں نے ساری تیاری کر لی ہے اللہ نے بڑا سوہنا ڈھوہ لگایا ہے اس کے بعد وہ بابر کی تعریفوں میں رطب اللسان ہو گئی ۔میں مسکرا مسکرا کر اسے دیکھتی رہی ۔کچھ دیر بعد وہ چلی گئی ۔مجھے بازار سے کچھ سودا سلف لینا تھا امینہ بی وہاں خریداری کرنے آئی مجھے دیکھ کر سیدھی میری طرف آئی اس کا اترا چہرہ دیکھ کر میں نے اس سے وجہ پوچھی تو کہنے لگی بابر کی ماں نے کہا ہے بابر کو مکان کی درستی کے لیے کچھ روپے چاہیے ادھار بعد میں واپس کر دے گا اب سب کچھ بینا کا ہی ہے ۔میں اسے تسلی کے سوا کیا کہہ سکتی تھی ۔دن گذر رہے تھے اس کے بعد امینہ بی سے ملاقات نہ ہوئی۔ مجھے اتفاقا ایک عزیزہ کی تیمارداری کے لیے لاہور جانا پڑا یہ وہی دن تھے جب بینا کی شادی تھی سو میں شادی میں شریک نہ ہو سکی ۔مجھے لاہور میں پانچ دن لگ گئے ۔آ کے روز سوچتی مبارک باد ہی دے آؤں مگر مصروفیت اتنی بڑھ گئی کہ جانا آج کل پہ ٹلتا رہا نہ میں جا پائی نہ ہی امینہ بی آئی ۔اسی آنا کانی میں دس دن بیت گئے ۔
صبح کے سات بجنے والے تھے میں تیزی سے ناشتہ بنانے میں مصروف تھی ۔بیٹی نے یونیورسٹی جانا تھا اس کا پوائنٹ سوا سات تک آجاتا تھا بیٹے کو اسکول جانا تھا ساتھ مجھے بھی سو یہ وقت بھاگ دوڑ میں گذرتا ۔ڈور بیل بجی ۔میں نے کچن سے ہانک لگائی دروازے پہ کوئی ہے دیکھیں ۔کوئی نہیں ہلا آخر ایک ہاتھ میں آٹے کا پیڑا تھامے بڑبڑاتے ہوئے مجھے ہی جانا پڑا دروازہ کھولا تو سامنے امینہ بی کی چھوٹی بیٹی کھڑی تھی ۔آپ کو اماں نے بلایا ہے اس نے سلام کے بعد پیغام دیا ۔اچھا میں دو بجے آؤں گی اس وقت بہت مصروف ہو ں اسکول سے واپسی پہ چکر لگاؤں گی بینا کی شادی ہو گئیَ ؟ میں نے رانی سے پوچھا ؟ ہاں جی اماں بیمار ہو گئی تھی آپریشن ہوا تھا اب ٹھیک ہے ۔بابر بھائی کو اماں نے سلامی میں موٹر سائیکل دی اور مکان کے لیے پچاس ہزار بھی ۔رانی نے للچائی نظروں سے سیب کی طرف دیکھتے ہوئے انکشاف کیا ۔میں نے اس کی نظروں کا تعاقب کرتے سیب اس کے ہاتھ میں دے دیا ۔مجھے سخت حیرانی اور تجسس تھا مگر رانی میرے کچھ اور پوچھنے سے قبل ہی سیب لے کر اڑنچھو ہو گئی ۔میں بھی جلدی جلدی کام نبٹانے لگی اسکول میں پڑھاتے وقت بھی میرے دماغ پہ رانی کی باتیں سوار رہیں ۔واپسی پہ میں نے امینہ بی کے گھر کا رخ کیا ۔عبدل گھر کے سامنے بیٹھا تھا مجھے دیکھتے سلام کیا اور بیساکھی سیدھی کرتے اٹھ کھڑا ہوا آئیں بی بی جی ۔میں نے سلام کا جواب دیا اور اندر آگئی ۔بجلی حسبِ معمول ندارد تھی کمرے میں تاریکی کا احساس دھوپ سے آنے پہ ہوا چند لمحوں کے بعد میری نظر چارپائی پہ لیٹی امینہ بی پہ پڑی وہ بہت کمزور ہو گئی تھی مجھے دیکھ کر ایک پھیکی سی مسکراہٹ اس کے سپید ہونٹوں پہ آ کر دم توڑ گئی میں سامنے بستر پہ بیٹھ گئی اور اس کا حال دریافت کیا میری بے چینی شاید اس نے بھانپ لی تھی۔باجی سب وہ نہیں ہوتا جو ہمیں دکھائی دیتا ہے بینا کی مہندی والے دن مجھ پہ بابر اور اس کے گھر والوں کی حقیقت کھلی انہوں نے پچاس ہزار اور موٹر سائیکل کا مطالبہ کیا ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے سب بینا کا ہے کونسا ہم نے استعمال کرنا ۔میں نے بہت منت ترلے مارے اس کے ابے نے بھی کہ ہم اتنے جوگے نہیں پر وہ ہمیں رشتہ ختم کرنے کی دھمکی دینے لگے تب میں نے بینا کی زندگی بربادی سے بچانے کے لئے ایک فیصلہ کیا ۔اتنا بتا کر امینہ بی ہانپ گئی ۔کیسا فیصلہ ؟ بے اختیار میرے منہ سے نکلا ۔امینہ بی نے ہمت مجتمع کرتے ہوئے کہا۔باجی میں نے اپنا گردہ بیچ دیا ۔میری بینا کا گھر بس گیا اور کیا چاہیے تھا ۔باجی اگر میں ایسا نہ کرتی تو رشتہ ختم ہونے کے بعد کون کرتا میری بینا سے بیاہ؟؟؟
میری آنکھوں میں آنسو اور ہونٹوں پے خا موشی اور دل میں دکھ تھا میں نے اپنا ہاتھ اس کے لرزتے ہاتھ پہ رکھ دیا۔….ختم شد