جھلستی دھوپ اور تپتی ریت کا مسافر غلام عبا س بھٹی
تحریر ۔ انجم صحرائی
غلام عباس بھٹی سے میں نے برسوں قبل اس وقت انٹرویو لیا جب وہ عرب امارات میں شہید بی بی بے نظیر بھٹو کے میزبان بنا کرتے تھے اور یہ بھی ایک ریکارڈ کی بات ہے کہ مجھے آج تک جی سی یونی ورسٹی کے لیہ کیمپس میں جانے اور اسے دیکھنے کا اعزاز نہیں ہوا کہ نہ مجھے کبھی کیمپس انتظا میہ نے دعوت دی اور نہ ہمیں کیمپس میں جانے کی ضرورت پیش آ ئی اور نہ ہم گئے کہ بن بلائے جانا تہذیب اور تر بیت نے ہمیں سکھایا ہی نہیں ۔
جی سی فیصل آ باد یو نیورسٹی لیہ کیمپس کے طلباء کا ری ایگزامینیشن پا لیسی کے خلاف مطا لبہ سے کسی کو بھی اختلاف نہیں ہو سکتا اور اپنے حق اور مطا لبات کے لئے پر امن احتجاج کا حق آ ئین پا کستان ہر شہری کو دیتا ہے سو اسی تنا ظر میں ہم کسی کو بھی اس کے حق سے محروم نہیں کر سکتے بھلے سے وہ جی سی فیصل آ باد یو نیورسٹی لیہ کیمپس کے طلباء و طا لبات ہی کیوں نہ ہوں
دوران پرو ٹیسٹ مجھے کیمپس کے چند احتجاجی طلباء سے ملنے اور گفتگو کرنے کا موقع ملا ان کے ری ایگزامینیشن پا لیسی پر کیمپس انتظا میہ سے ناراض تو نظر آ ئے لیکن ان میں سے کسی کو بھی رائے غلام عباس بھٹی سے کوئی اتنا بڑا گلہ اور شکوہ نہیں تھا ۔ جسے بنیاد بناکر عباس بھٹی کو رگڑا جا سکے ۔
نہ تو میں بھٹی فیملی کا سپوک مین ہوں اور نہ ہی پریس ایڈوائیزر لیکن خدا لگتی کہنی چا ہیئے غلام عباس بھٹی نے جس ویژن کے ساتھ لیہ میں جدید تعلیمی سہو لیات کی فراہمی کے لئے جدو جہد کی سو اختلاف کے با وجود ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا
حصول علم کے لئے ضلع بھر کے دور درازسے آ نے والے طلباءو طالبات کے لءے مفت ٹرانسپورٹ کی سہو لت ہی ایک ایسا آ ءیڈ یا ہے جس کی مثال بہر حال اس سے پہلے نہیں ملتی العباس ٹرسٹ کی فری ٹرانسپورٹ کی بسوں کی پیچھے لکھا ہوا سلوگن سیاست نہیں عبادت بہرحال وہ اعزاز ہے جسے عباس بھٹی سے چھینا نہیں جا سکتا
میں نے انٹر ویو کے دوران عباس بھٹی سے پو چھا تھا کہ آ خر طلباء کے لئے فری ٹرانسپورٹ کا خیال کیسے آ یا تو ان کا جواب تھا کہ جب میں چھوٹا ٹھا تو میرے غریب اور محنت کش والدین بھی مجھے بھی پڑھا لکھا کر بڑا آ دمی دیکھنے کے خواہشمند تھے اسکول ہمارے گھر سے دور تھا شدید گر میوں میں ننگے پیروں تپتی دھوپ اور گرم ریت پر چل کر سکول جانا آ نا ہو تا پاءوں میں اکثر جو تے نہیں ہوتے تھے چھٹی کے وقت سورج سوا نیزے پر ہو تا تھا جھلستی دھوپ میں آگ نکا لتی ریت پر ننگے پاءوں چلنے کا سفر کتنا تکلیف دہ اور اذیت ناک ہو تا تھا لفظوں میں نہیں بتا سکتا بس میں اتنے برسوں کے نعد اس گرم ریت پہ سفر کرنے کی اذیت نہیں بھو لا ، پھر جب رب نے مجھے نوازا تو میں نے عہد کیا کہ میں حصول علم کے لءے گرم ریت پر چلنے والے بچوں کے دکھ با نٹوں گا اور اس جذ بے کے ساتھ میں نے یہ طلباء طالبات کے لءے فری ٹرانسپورٹ
کا آ غاز کیا ۔
میں نہیں کہتا کہ عباس بھٹی کو ئی فرشتہ ہے لیکن اس کے یہی انسان دوست رویئے اسے اس سماج میں ممتاز اور منفرد بناتے ہیں لیکن لگتا کہ جھلستی دھوپ اور تپتی ریت کے مسافر عباس بھٹی کا سفر اب بھی جاری ہے ۔