عشق پیچاں۔عفت بھٹی
آفتاب نارنجی ہوچلا تھا تمازت میں ایک میٹھا پن در آیا تھا ۔پرندے تھکے ہونے کے باوجود اپنے آشیانوں کی جانب محو پرواز تھے ۔لوٹنے کا عمل اپنی الگ ہی اہمیت رکھتا ہے خواہ وہ سرکشی سے اطاعت کی طرف ہو یا قالب سے خاک کی طرف بلاشبہ ہر چیز نے اپنے اصل کی طرف لوٹنا ہے۔حی الفلاح کی پکار بلند ہوتے ہی کائنات پہ ایسا سحر طاری ہوا کہ پرندے بھی بولنا بھول گئے۔ایک لحظہ کے لیے اس کے متحرک ہاتھ بھی رکے ۔حی الفلاح حی الصلوت۔بس ایک لمحہ پھر وہ دوبارہ اپنے کام میں لگ گئی۔کچھ دیر بعد گھر کا دروازہ کھلا اور گھر میں چھایا سکوت شور میں تبدیل ہو گیا۔آپا کیا پکایا ہے سیرت نے ہانڈی کا ڈھکن ہٹایا ۔واؤ آلو قیمہ یمی۔ میری آج دو روٹیاں سیرت کی آواز سن کر معاذ نے بھی ہانک لگائی۔اس نے مسکرا کر روٹی کی سائیڈ پلٹی اور دوسری روٹی بیلنے لگی۔سیرت امی اور بابا کو کھانا دے آؤ اس نے سالن ڈونگے میں نکالتے ہوئے کہا۔لائیں سیرت نے ڈونگا تھاما اس کی نظر آیت کی آنکھوں پہ گئی جو سرخ تھیں۔آپا آپ روئی ہیں اس نے آیت کو بغور دیکھا ۔آیت نے انکار میں سر ہلایا مگر آنکھ سے بہتا آنسو نہ کو اقرار میں بدل گیا۔امی نے کچھ کہا سیرت اس کے آنسو پہ تڑپ سی گئی ۔نن نہیں چھوڑو کھانا لگاؤ۔اس نے روٹی دستر خوان میں لپیٹی اور ٹرے میں رکھ کر سیرت کو تھما کر باہر آگئی ۔صحن میں چارپائیاں بچھا کر پنکھا لگایا اور سامنے بیٹھ گئی۔ابا کھانا کھا کر باہر آئے اور اپنی چارپائی کی طرف بڑھ گئے۔آیت میرا ٹرانسسٹر تو لانا ۔سیر بین کا وقت ہوگیا۔سیرت اور اماں بھی آکر اپنے اپنے بستر پہ لیٹ گئیں۔معاذ کمرے میں ہوم ورک کر رہا تھا۔وہ اوپر چھت پہ چلی آئی۔دور تک گھروں کی قطاریں تھیں آسمان پہ چودھویں کا چاند چمک رہا تھا اردگرد چاندنی کی ٹھنڈک پھیلی سحر طاری کر رہی تھی۔وہ کہاں ہوگا؟ اس نے سوچا کیا محبت اتنی کمزور تھی یا وہ بندھن جسے نکاح کا نام دیا گیا ۔پھر وہ کیوں چلا گیا ۔دل سے اٹھے سوال ہر رات اس کا تکیہ اور رخسار بھگوتے۔مگر کوئی جواب نہ ملتا۔اماں کی آواز پہ وہ چونکی ۔وہ اسے نیچے بلا رہی تھیں۔
بلال احمد کا شمارمتوسط طبقے خوشحال گھرانے میں ہوتا تھا وہ واپڈا کے محکمے میں ملازم تھے۔ماں باپ بچپن میں انتقال کر گئے انا بی نے ان کو پالا اور اپنی بیٹی آمنہ سے رشتہ اذدواج میں منسلک کر کے منوں مٹی تلے جا سوئیں۔گھر ذاتی تھا واجبی شکل وصورت اور ایف اےتک تعلیم والے بلال احمد باقی معاملات میں تیز نکلے تگ و دو کے بعد واپڈا میں میٹر ریڈر کی ملازمت کر لی ۔ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا معاذ تھا۔آیت چوبیس سال کی تھی اس نے ایم۔ اے کیا تھا پھر سترہ سالہ سیرت ایف ۔ایس۔سی کر رہی تھی سب سے چھوٹا معاذ جو آٹھویں میں تھا۔آیت کا نکاح دو سال قبل بلال احمد کے دوست کے بیٹے طلحہ فاروقی سے ہوا تھا ۔ طلحہ پہ باہر جانے کی دھن سوار تھی سو وہ جرمنی چلا گیا۔جانے سے قبل آیت سے پیمان باندھ کر گیا کہ جلد اسے بلا لے گا نکاح بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا مگر جانے کے ایک ماہ بعد اس نے جاوید فاروقی اور عدیلہ فاروقی کو تو بلا لیا مگر آیت کی روانگی مذید ایک ماہ تک موقوف کر دی۔پہلے پہل تو فون آتے رہے مگر آہستہ آہستہ یہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا ۔بلال احمد نے ان کا پتہ چلانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہے۔اور خاموشی اختیار کر لی ۔اب دو سال ہونے کو تھے آیت کی ہنسی آنسوؤں میں بدل گئی اور انتظار کی چوکھٹ گویا اس کا مقدر بنتی جا رہی تھی۔
اس نے واشنگ کی اور پھر نہا کر کپڑے استری کرنے کی ٹھانی آمنہ اور سیرت بازار گئی ہوئیں تھیں۔معاذ اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے گیا ہوا تھا۔فون کی گھنٹی بجی۔اس نے استری کا پلگ نکالا اور فون اٹھایا ابھی وہ ہیلو بھی نہ بول پائی تھی کہ دوسری جانب سے گفتگو کا آغاز ہو گیا۔یار حد ہو گئی ہے ایک ہفتہ ہو گیا ہے سوٹ ڈرائی کلین ہونے کو دیا ہے کل۔بھی انور کو بھیجا تو تم نے کہا شام کو ہو جائیگا وہ اب تک نہ ہوا اب ایک دفعہ سوٹ بھجوا دو آئیندہ میری توبہ۔میں کوئی اور دکان ڈھونڈ لیتا ہوں۔اب بولو بھی منھ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے ہو ۔جج جی رانگ نمبر آیت تو اس نان اسٹاپ حملے پہ گڑبڑا گئی۔دوسری طرف غیر متوقع نسوانی آواز سن کر وہ اچھنبے میں پڑ گیا ۔معذرت چاہتا ہوں میرے ملازم نے غالبا غلط نمبر نوٹ کیا تھا ۔وہ یکدم آواز کے سحر سے نکل آیا ۔ابے انور ادھر آ فون رکھ دیا گیا۔آیت کے لبوں پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ابے گدھے کس کا نمبر لکھ کے بیٹھا تھا اس نے انور کو لتاڑا ۔وہ سر جی قسمے ماجد نے چھ سو چھتی ہی دسیا تھا ۔انور نے سر کھجایا۔اف عقل کے اندھے کاغذ پہ تو نے چھیالیس لکھا ہے۔اس نے غصے میں رائٹنگ پیڈ اسے دکھاتے ہوئے کہا ۔چل اب خود جا لے کر آنا سوٹ۔ورنہ وہیں۔رہ جانا ۔سرمد یزدانی نے انور کو دفعان ہونے کا حکم دیا ۔اور خود الماری کی طرف بڑھ گیا ۔
بلال احمد کی طبعیت آج صبح سے بے چین تھی سینے میں چبھن سی محسوس ہو رہی تھی وہ اپنے دفتر پہنچے مگر درد کی ایک لہر اٹھی اور وہ گر گئے ۔جبار صاحب دوڑ کے ان کی طرف لپکے آنا فانا اسپتال پہنچا دیا گیا مگر دل کا دورہ اتنا شدید تھا کہ علاج کی مہلت ہی نہ ملی ۔ایمبولینس گھر کے سامنے رکی تو برتن دھوتی آیت کا دل کانپ گیا اس نے گلاس سنک پہ رکھا اور کمرے میں چلی آئی آمنہ دھلے کپڑوں کی تہہ لگا رہی تھیں ۔امی میرا دل گھبرا رہا ہے جیسے کچھ برا ہونے والا ہو ۔اس کے آنسو نکل آئے۔اتنے میں دروازے پہ زور دار دستک ہوئی۔آیت نے ایسے بے قراری اور خوف سے دروازے کی طرف دیکھا جیسے وہاں ملک الموت کھڑا ہو۔بسا اوقات ہمارے اندیشے اور وہم سچ ثابت ہوتے ہیں ابہام میں لپٹی علامات آنے والے وقت کا اظہار کر دیتی ہیں آیت کے ساتھ یہی ہو رہا تھا۔آمنہ نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو بلال احمد ہمیشہ کی چپ سادھ کر اسٹریچر پہ منھ ڈھانپے لیٹے تھے جیسے اس بے وقت موت پہ شرمندہ ہوں۔آمنہ کی تو دنیا اندھیر ہو گئی۔ایک ماہ کیسے گذرا پتہ ہی نہ چلا در و دیوار سوگ میں ڈوبے رہے۔آیت ہمت کر کے کچھ پکا دیتی اور سب چند لقمے زہر مار کر لیتے۔بلال احمد کا چہلم ہوا۔تب آمنہ کے سامنے جمع شدہ رقم کے خاتمے کا اژدھا منھ کھول کر آ کھڑا نظر آیا اس نے اپنے تینوں بچوں کو پاس بٹھایا اور صورتحال واضح کی ۔آیت نے ماں کو تسلی دی کہ اللہ بہتر کرے گا ۔دونوں بہنوں نے۔گھر پہ ٹیوشن پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا۔آیت نے جاب کے لیے کوششیں شروع کر دیں ایک سہیلی کے والد کے توسط سے اسے ایس ۔کے۔مارکیٹنگ سے انٹرویو لیٹر موصول ہوا وہ بے انتہا خوش تھی ۔آپا چلیں تیار ہو جائیں سیرت نے بہن کے کپڑے استری کرتے ہوئے کہا۔اور پھر آیت کی نا ۔نا کے باوجود نفاست سے ہلکا سا میک اپ بھی کر دیا ۔وہ خاصی خوش شکل تھی۔ماں کی دعاؤں کے ہمراہ گھر سے نکلی ۔معاذ اسے آفس اتار کر کچھ دیر بعد آنے کا کہہ کر اپنے دوست کے ہاں چلا گیا۔وہ جھجکتے ہوئے اندر داخل ہوئی۔ریسپشنسٹ نے اس کی فائل دیکھی اور اندر جانے کا اشارہ کیا۔دروازہ کھولتے ہی ائیر فریشنر کی مہک اور اے۔سی کی خنکی نے اس کا استقبال کیا ۔مے آ کم ان سر ؟ کرسی پہ بیٹھا وجود چونک گیا ۔آں یس کی آواز کے ساتھ وہ ریوالونگ چئیر سے پلٹا اس کی نظریں اس کے چہرے پہ جا ٹکیں سادہ سے فیروزی لباس میں سلیقے سے دوپٹہ اوڑھے وہ کافی اچھی لگ رہی تھی ۔آیت بلال احمد اس نے سلام کے بعد اپنا تعارف کرایا۔پلیز بیٹھیے۔ فائل کی ورق گردانی کرتے ہوئے اس نے سوال داغا جاب کیوں کرنا چاہتی ہیں؟ اس سوال نے آیت کی آنکھیں نمکین پانی سے بھر دیں۔سر والد کی وفات کی وجہ سے گھر کی ذمہ داری میرے کاندھے پہ ہے۔باوجود ضبط کے ایک آنسو پلکوں پہ آ ٹکا ۔اس نے بغور اس کی جھکی دراز پلکوں کے کنارے اس موتی کو ٹکےدیکھا اور ٹشو اس کی طرف بڑھا دیا۔اس نے تھینکس کہہ کر ٹشو لے لیا۔ہمم ٹھیک ہے آپ کل سے آجائیں میم سمن آپ کو گائیڈ کر دیں گی ۔آفس کی گاڑی آپ کو پک اینڈ ڈراپ دے گی ۔سیلری فی الحال بیس ہزار ہے باقی آپ کے کام پہ منحصر ہے ۔تھینکس ۔وہ مسکرایا ۔آیت نے شکر گذاری اور ممنونیت سے دیکھا وہ بھی اسے دیکھ رہا تھا۔ایک لمحہ براؤن آنکھیں سیاہ مڑی پلکوں میں ہلکورے لیتی نمی میں ڈوبیں ۔آیت نے گھبرا کر تھینکس کہا اور مڑ گئی ۔وہ اس کی پشت دیکھ کر رہ گیا جہاں اس کے دراز بالوں کی جھلک اس کے۔فیروزی دوپٹے سےدکھائی دےرہی تھی۔
آمنہ خدا کا شکر ادا کرتے نہیں تھک رہی تھی۔معاذ اور سیرت نے بہن کو گھیر رکھا تھا آپا اب ٹریٹ تو بنتی ہے ناں۔اچھا بابا پہلے تنخواہ تو ملے۔وہ ہنستے ہوئے بولی۔اسے یہاں کام کرتے ایک ماہ ہو چلا تھا آج بڑے صاحب آرہے ہیں سمن نے اسے اطلاع دی اس کے منہ تکنے پہ بولی اظہر صاحب ارحم صاحب کے والد ۔اوہ اچھا اس نے سر ہلانے پہ اکتفا کیا۔اتنے میں سلام کا شور اٹھا اور ایک باوقار سی ہستی ملازموں کے جلو میں نظر آئی سمن نے اسے ٹہوکا دیا اور آگے بڑھی السلام علیکم سر کیسے ہیں آپ ؟وہ خوشدلی سے مسکرائے آہا سمن بیٹا کیسی ہو اور بھئی یہ نیا پیارا سا چہرہ کون ہے؟انہوں نے تکلم آیت کی طرف موڑا۔وہ سلام کر کے ایک طرف جھجکتی ہوئی کھڑی تھی۔سر یہ ہماری نئی ساتھی ہیں آیت بلال احمد مارکیٹنگ میں ہیں۔ جیتی رہو ۔یہ تو بہت پیاری ہیں ۔اور نام تو بہت ہی خوب ہے چہکتے ہوئے ایک سر اظہر صاحب کے کندھے کے پیچھے سے بر آمد ہوا ۔آیت نے گڑبڑا کر اس نوجوان کو دیکھا جو بہت دلچسپی سے بلیو جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اسے دیکھ رہا تھا۔سرمد ۔ ۔ اظہر صاحب کی پیار بھری سرزنش ابھری اوہ معذرت اس نے شرارت سے سمن کی طرف جھکتے اس کے کان میں سر گوشی کی گونگی ہیں کیا؟سمن کی ہنسی چھوٹ گئی نہیں سرمد بابا ۔اظہر صاحب ارحم کے آفس کی طرف بڑھ گئے۔سرمد وہیں سمن کے ٹیبل پہ براجمان ہو گیا ویسے سمن جی بھیا کا ٹیسٹ کافی اچھا ہو گیا ہے وہ آیت کو دیکھ کر ہوئے پیپر ویٹ گھماتے ہوئے بولا۔سمن نے مصنوعی خفگی سے اسے لتاڑا کیا مطلب ہےسرمد بابا ۔وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا ۔آیت کا چہرہ شرمندگی سے سرخ ہوگیا تھا اتنے میں انٹر کام بجا سمن نے فون اٹھایا یس سر ۔۔جی وہ آیت کو تنگ کرنے میں بزی ہیں ۔اس نے مسکرا کر ہونٹ کا کونہ دانتوں میں دباتے سرمد کو دیکھ کر بدلہ لیا۔جی بہتر کہہ کر ریسیور رکھ دیا ۔ظالم لڑکی۔ ۔ اس سے قبل وہ اپنا جملہ پورا کرتا ارحم دروازہ کھول کر آگیا ۔اس نے بے چارگی سے ہونٹ کاٹتی آیت کو دیکھا ۔سوری مس آیت یہ میرا چھوٹا بھائی ذراشرارتی ہے مگر دل کا برا نہیں مائینڈ مت کیجیے گا پلیز۔نن سر ایسی کوئی بات نہیں آیت نے ہولے سے سر جھکاتے ہوئے کہا ۔اوکے آپ ذرا درابہ کمپنی کی فائل لے کر آ جائیں پلیز وہ کہہ کے پلٹا اور سرمد کا ہاتھ تھامے آفس کی طرف بڑھ گیا۔ کم ان سر آیت نے ناک کرتے ہوئے اجازت طلب کی۔یس ۔بیٹھیں پلیز آپ بابا کو اس کی ڈٹیل بتائیں۔میں کچھ میلز کے رپلائی دے لوں ۔آؤ بیٹی اظہر صاحب کونے میں رکھے صوفوں کی طرف بڑھ گئے۔تقریبا پندرہ منٹ وہ فائل کھول کر ایک ایک تفصیل بتاتی گئی اور سرمد ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے اس کی آواز کی پہچان تلاشتا رہا آخر اس کے ذہن میں کلک ہواسوری رانگ نمبر ۔اوہ اس نے مسکراتے ہوئے ہونٹ سکیڑے ۔
آج چھٹی تھی وہ کسلمندی سے بستر پہ لیٹی تھی کہ روازہ بجا آمنہ اور سیرت صحن میں ہی تھیں ۔سیرت کی چیخ نما آواز سن کر وہ بوکھلا کر باہر بھاگی صحن کے وسط میں طلحہ کھڑا تھا۔آمنہ اور سیرت اسے خوشی اور حیرت سے دیکھ رہیں تھیں ۔وہ جہاں کی تہاں رہ گئی دعائیں مستجاب ہو گئیں وہ لوٹ آیا ۔جلد حواسوں میں آکر سلام کیا۔سب کمرے میں آگئے۔آمنہ اور سیرت کچن میں گھس گئیں وہ اور آیت آمنے سامنے تھے شکوے شکایت تمام ہوئیں وہ اسے لینے آیا تھا ۔مگر طلحہ مم امی ۔سیرت اور معاذ کو کیسے تنہا چھوڑ دوں اب تو ابا بھی نہیں وہ پریشانی سے بولی۔میں ان کی کفالت کروں گا ناں وہاں اپنا ہوٹل ہے مل کے کام کریں گے میں بھی تو تنہا ہو گیا ہوں امی بابا کی ایکسیڈنٹ میں ڈیتھ کے بعد۔اس نے آیت کو تکتے ہوئے کہا۔کیا آپ واپس نہیں آ سکتے؟آیت نے امید بھری نظروں سے اسے دیکھا۔نہیں وہاں میرا کاروبار ہے ہاں چند سال بعد ممکن ہے ۔خیر اگر تم میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا۔وہ کھڑا ہو گیا۔چائے لاتی آمنہ کا روم روم لرز گیا نن نہیں بیٹا تمہاری بیوی ہے جب چاہو لے جاؤ اللہ کا احسان ہے جو تم لوٹ آئے۔پر امی آیت منمنائی تم چپ رہو آمنہ نے اسے گھرکا۔بیٹا کب جانا واپس ؟بس امی کل رات کی فلائٹ ہے یہ آیت کے کاغذات اور ٹکٹ ۔میں نے کچھ کام مکمل کرنا شام تک آ جاؤں گا وہ چائے کی پیالی ٹرے میں رکھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔آیت نے اپنی گود میں رکھے کاغذات اور ٹکٹ پہ۔نظر ڈالی۔کبھی یہ اس کا ارمان تھا اور اب یہ سوچ کر اس کی آنکھیں بھر آئیں۔آمنہ نے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا وہ بے اختیار ان کے گلے لگ کر رودی آمنہ کا دل بھی بھر آیا۔کافی دیر تک ماں۔بیٹی گلے لگ کر روتی رہیں ۔شام تک آمنہ نے آیت کا سوٹ کیس پیک کر دیا محلے کی عورتیں اس سے ملنے آئیں اور دعائیں دے کر رخصت ہوئیں۔سیرت آمنہ اور معاذ بار بار آیت کو دیکھتے تو جدائی کے خیال سے دل بھرآتا ۔آیت کو فکر کھائے جا رہی تھی کہ گھر کیسے چلے گا ۔طلحہ نے اس مسئلے کا حل نکال لیا اور آمنہ کے قدموں میں بیٹھ کر اسکے گھٹنوں پہ ہاتھ رکھے امی میں بھی تو آپ کا بیٹا ہوں ناں تو یہ میری ذمہ داری ہے آپ بے فکر رہیں یہ کریڈٹ کارڈ ہے میں ہر ماہ آپ کر مناسب رقم بھیج دوں گا فی الحال اس میں پچیس ہزار ہیں ۔آمنہ کے انکار کے باوجود طلحہ نے۔ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔امی ہمیں آپ کی دعائیں درکار ہیں میرا کون ہے آپ لوگوں کے سوا اب.طلحہ کی آواز بھرا گئی ۔آمنہ نے تڑپ کر اسے گلے لگا لیا ۔میرے بچے۔تم مجھے معاذ کی طرح ہو ۔تو پھر امی انکار مت کریں اس نے ان کا۔ہاتھ تھام کر کہا۔آمنہ نے سر ہلا دیا.
جہاز کے بلند ہوتے ہی آیت نے طلحہ کا ہاتھ تھام لیا وہ خوف محسوس کر رہی تھی طلحہ نے اس کا ہاتھ تھپکا ابھی ٹھیک ہو جائے گا ۔طلحہ اسے فلیٹ میں لے آیا یہ ہمارا چھوٹا سا گھر دو بیڈ روم ایک ڈرائنگ روم کچن اور باتھ ۔آیت کو صاف ستھرا گھر اچھا لگا۔اب وہ اسے۔سجائے گی سنوارے گی۔وہ کھل کے مسکرائی۔طلحہ نے محبت پاش نظروں سےاسے دیکھا ۔ہاں تو مسزطلحہ اب کیا پروگرام ہے؟آیت نے شرما کر نظر چرالی۔تین ماہ اڑ کر بیت گئے۔ طلحہ نے اپنے ہوٹل جانا شروع کیا۔اس کا ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ تھا۔آیت گھر پہ بور ہو جاتی سو اکثر وہ بھی طلحہ کے ساتھ آجاتی ۔آج وہ آئی تو کیبنٹ میں شراب کی بوتلیں دیکھ کر چونک گئی اور طلحہ کی طرف بے یقینی سے دیکھا۔ارے بابا یہ گاہکوں کے لیےہیں میں تو نہیں پیتا طلحہ ہنسا۔ اتنے میں ایک شرابی انگریز جھومتا ہوا آیا اور آیت کے سامنے کھڑا ہو گیا اے سویٹی وہ لڑکھڑاتے ہوئے آگے بڑھا ۔آیت نے بمشکل اپنی ابکائی روکی۔اور پیچھے ہٹ گئی ۔کم ان ڈئیر اس نے آیت کا ہاتھ تھام کر اپنی طرف کھینچا۔ اس کھنچا تانی میں آیت نے ا سے زور سے دھکا دیا وہ منہ کے بل زمین پہ جاگرا۔ گرتے ہوئے پارٹیشن سے نکلا سریہ اس کے سینے میں پیوست ہوگیا وہ بری طرح ڈکارا اور ساکت ہو گیا ۔آیت بہتا خون دیکھ چلاتےہوئے اندر بھا گی اورطلحہ سےلپٹ گئی جو سٹور سےکھانے کےٹن۔پیک لیے آرہا تھا ۔صورتحال گھمبیر ہو گئی انگریز مر چکا تھا۔اس کے ساتھی اس کے گرد جمع ہو گئے ایک نے۔پولیس کوکال کر دی اور اب آیت لاک اپ میں تھی اس کا رو رو کر برا حال تھا ۔طلحہ بہت پریشان تھا ۔وہ اس دن کو کوس رہا تھا جب وہ آیت کو ہوٹل لےکرآیا تھا۔مقدمہ چلا ۔آیت کو اس غیر ارادی قتل کا فائدہ دیتے ہوئے تین سال کی سزا سنائی گئی۔طلحہ کا کاروبار ٹھپ ہو گیا ۔آخر ایک ماہ بعد اس نے آیت کو منحوس گردانتے ہوئے طلاق بھیج دی ۔آیت کے لیے یہ صدمہ ناقابل برداشت تھا اس کا۔نروس بریک ڈاؤن ہو گیا۔اسے ہاسپٹل شفٹ کر دیا گیا۔مقتول جارج کی بیوی اسے ملنے آئی اسے آیت سے ہمدردی محسوس ہو رہی تھی جس کا شوہر اسے بے یار و مددگار چھو ڑ گیا اس نے مقدمہ واپس لے لیا اور آیت کر رہا کر دیا گیا۔اس کی ذہنی حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایمبیسی نے اسے واپس بھجوا دیا۔وہ ائر پورٹ پہ اتری تو غائب دماغی سے ایک طرف چلدی اس کے کاندھے پہ بیگ تھا جس میں اس کے چند جوڑے تھے ۔سڑک کے بیچ چلتے ہوئے اسے اردگرد کے ماحول کا احساس ہی نہ تھا اس کی آنکھوں میں اجنبیت اور آنسو تھے پانی کی چادر نے ہر چیز کو دھندلا دیا۔گاڑی کے بریک چرچرائے اور اس کو بچاتے بچاتے بھی زور کا جھٹکا اسے زمین بوس کر گیا۔ گا ڑی کا دروازہ کھلا اور سرمد تیزی سے باہر نکلا ۔آیت کے سر سے بہتا خون دیکھ کر وہ سراسیمہ ہو گیا اور اس نے گرنے والی ہستی کو سیدھا کیا ۔پہچان کی رمق ابھری اوہ مائی گاڈ آیت۔اس نے جلدی سے اسے گاڑی میں ڈالا اور ہاسپٹل کی طرف رخ کیا۔
ایمر جنسی میں اسے اندر لے جایا گیا وہ بے ہوش تھی۔سرمد بے چینی سے کوریڈور میں ٹہل رہا تھا ۔آپ کی مریضہ کو ہوش آگیا ہے نرس نے اطلاع دی۔وہ جلدی سے سر ہلا کر روم کی طرف بڑھ گیا۔سفید بستر پہ لیٹی آیت کے ماتھے پہ پٹی بندھی تھی اسے وہ کافی کمزور لگی۔وہ آنکھیں موندے پڑی تھی ۔سرمد نے بے اختیار اس کے ماتھے پہ ہاتھ رکھا ۔آیت نے آنکھیں کھولیں اور سرمد کو دیکھا ان میں پہچان کی رمق نہ تھی۔ آیت میں سرمد یزدانی ۔اس نے یاد دلایا۔مگر آیت ہنوز اسی کیفیت میں تھی۔نرس اندر داخل ہوئی مسٹر یزدانی اب یہ ٹھیک ہیں آپ انہیں لے جا سکتے یہ میڈیسن پراپر استعمال کروائیں آپ کی مسز جلد بہتر ہو جائیں گی ۔ان کا خاص خیال رکھیں ۔وہ مسکرائی۔سرمد نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا اور جلدی سے بند کر لیا۔۔اب کیا کروں؟؟بھائی اس کے دماغ نے سگنل دیا۔اور اس نے ارحم سے۔رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر رابطہ نہ ہوا۔آئیں آپ کو گھر چھوڑ دوں اس نے آیت کو مخاطب کیا ۔مگر آیت نے کوئی جواب نہ دیا اور اٹھنے کی کوشش کی اس نے تھوڑا سہارا دیا اور آہستہ آہستہ چلاتے گاڑی تک لے آیا اسے فرنٹ سیٹ پہ بٹھانے کےبعد خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔اب کہاں جائے۔آیت کی حالت اس کی سمجھ سےباہر تھی۔آخر اس نے ایک فیصلہ کیا اور گاڑی کا رخ اپنے گھر کی طرف موڑ لیا۔راستہ خاموشی سے طے ہوا چوکیدار نے گیٹ کھولا سامنے ارحم کی کلٹس کھڑی دیکھ کے اسے حوصلہ ہوا ۔وہ جلدی سے باہر آیا ۔بھیا اس نے بے تابی سے آواز دی ارحم لان میں بیٹھا اخبار دیکھ رہا تھا اسکی آواز پہ اس کی طرف چلا آیا سرمد نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور آیت کو اترنے میں مدد دی۔ارحم آیت کو اس حال میں دیکھ کر حیران رہ گیا۔اندر چلیں بتاتا ہوں وہ آیت کو ایک بیڈ روم میں لے آیا لٹا کر کمبل دیا اور دروازہ بند کر کے ڈرائنگ روم میں حیرت ذدہ ارحم کے پاس چلا آیا اور من و عن سارا واقعہ گوش گذار کیا۔بھیا جانے کیا بیتی اس پہ۔آپ ان کے گھر خبر کریں۔ارحم چونکا۔ہمم یہ اچانک بغیر اطلاع غائب ہو گئی تھی۔پھر سمن کو پتہ چلا کہ اس کی شادی ہو گئی اور ملک سے باہر چلی گئی۔اب سمن بھی لاہور شفٹ ہو گئی ہے۔کوشش کرتا ہو رابطہ ہو جائے۔بابا آتے ہیں تو سوچتے ہیں۔تم ذرا گل خان سے کہو زرمینہ بی کو بلا لے تاکہ وہ آیت کا خیال کر سکیں۔جی اچھا سرمد نے سر ہلایا۔
اظہر صاحب نے ارحم کی بات سن کر ہنکارا بھرا بیٹا جی جانے بچی کے ساتھ کیا بیتی ہے۔جی بابا اب وہ جاگے بتائے تو ہی پتہ چلے۔دیکھو شاید جاگ گئی ہو ۔اوکے میں دیکھتا ہوں۔وہ ہاتھ گود میں رکھے بیڈ پہ پاؤں لٹکا کر بیٹھی تھی ۔ارحم نے دروازہ بجا کر ہلکا سا کھولا اسے جاگتا پا کر اندر آگیا۔آپ جاگ گئیں کیسی طبیعت ہے؟آیت چونکی حواس کافی حد تک بحال ہو چکے تھے۔ارحم آآپ میں یہاں کیسے وہ اردگرد دیکھتےگھبرا کو بولی۔ریلکس تم سرمد کی گا ڑی سے ٹکرا گئی تھیں۔ارحم کرسی پہ بیٹھتے ہوئے بولا ۔آیت سب ٹھیک ہے نا آپ بغیر بتائے چلی گئیں تھیں مس سمن نے پتہ کیا تو آپ کی مدر نے بتایا آپ کی شادی ہو گئی اور آپ ملک سے باہر چلی گئیں۔مگر اب آپ اس حال میں ۔ آیت کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا جانے کب سے رکا ہوا طوفان تھا کہ ہمدردی کے دو بول سن کر بہتا چلا گیا وہ روئی اور خوب چلا کر روئی ارحم گھبرا گیا آیت آئی ایم سوری اس نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھنا چاہا اور پھر رک گیا۔اظہر صاحب اور سرمد بھی آگئے اظہر صاحب نے اشارہ کیا کہ وہ اسے کھل کر رونے دے کافی دیر بعد اس کی سسکیاں تھمیں تو اظہر صاحب نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا بیٹی میں تمہارے باپ کی طرح ہوں مجھے بتاؤ ۔آیت نے ان کو سب حالات سے آگاہ کیا اب وہ پرسکون تھی۔طوفان گذر گیا تھا ۔آؤ بیٹا تمہیں گھر چھوڑ آئیں انہوں نے اس کے سر کو تھپکا۔وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔گاڑی تک اسے سہارا دیے لائے ارحم اور سرمد آگے بیٹھ گئے گاڑی بتائے گئے پتے کی طرف دوڑنے لگی ارحم بیک ویو مرر سے گاہے بگاہے اس پہ نظر ڈال لیتا جہاں آیت کا رویا ہوا چہرہ اسے دکھائی دے رہا تھا سرمد نے اس کی چوری پکڑ لی اور مسکرایا آہمم وہ شرارت سے کھنکارا ۔ایک لمحے کے لیے اس نے مسکراتے سرمد کو دیکھا اور لب بھینچ لیے۔اور سڑک پہ نظریں دوڑانے لگا۔آیت کے گھر کے سامنے گاڑی رکی گلی میں کھیلتے چند بچے حیرت اور تجسس سے آگے آئے اور جیسے ان کی نظر آیت پہ پڑی ۔آیت آپا آ گئیں کی گردان کرتے اندر بھا گے ۔چادربچھاتی سیرت اور سبزی بناتی آمنہ کے ہاتھ رک گئے معاذ اپنی موٹر سائیکل کو دھوتے ہوئے متوجہ ہو گیا۔اتنے میں اظہر صاحب آیت کو تھامے اندر داخل ہوئے۔اجنبی لوگ اور آیت اس حال میں۔ آمنہ اس کی طرف لپکی معاذ نے آگے بڑھ کر بہن کو تھاما ۔بیٹا اسے اندر لے جاؤ مگر آیت ماں کے گلے لگ کر رونے لگی بیٹا حوصلہ کرو اظہر صاحب نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا ۔سیرت نے آنسو پونچھے اور اسے اندر لے گئی ۔بہن آپ بیٹھیں میں آپ کو بتاتا ہو ں انہوں نے سب آمنہ کے گوش گذار کیا۔میری بے گناہ بچی آمنہ نے دوپٹے سے آنسو صاف کیے۔بہن میں آیت کا رشتہ اپنے ارحم کے لیے مانگنا چاہتا ہوں ۔آمنہ جہاں کی تہاں رہ گئی۔باہر کھڑے ارحم نے گہرا سانس لیا دعائیں قبولیت کا درجہ پاگئیں تھیں۔وہ تو پہلے دن سے آیت کا اسیر ہو گیا تھا مگر اس سے قبل وہ اسے پرپوز کرتا وہ چلی گئی یوں وہ دل کی بات دل میں ہی دبا گیا اور اب جب وہ لٹی پٹی لوٹی تو اسے اور عزیز ہو گئی تھی وہ دل ہی دل میں سجدہ شکر بجا لایا۔ہہہم بھیا میرا بھی سوچیے گا دو باراتیں اکٹھی بھی آسکتیں اگر ایک جگہ آنی ہوں ۔اس نے شرارت سے خوبصورت سی سیرت کو دیکھا جو چائے لا رہی تھی ۔ارحم کھل کر مسکرایا اور اس کا کان پکڑا۔سیرت نے حیرانی سے دونوں کو دیکھا اور چائے کی ٹرے ان کی طرف بڑھائی۔
عدت ختم ہونے کے بعد دو دولھے دو دلھنوں کے سنگ محو سفر تھے۔ صبح طلوع ہو چکی تھی۔