انصاف کاپتھر
محمدعماراحمد
محمدعماراحمد
منصفِ اعظم ﷺنے فرمایا
’’تم سے پہلے کئی قومیں اس وجہ سے تباہ ہوئیں کہ اگرکوئی کمزورجرم کرتاتوسزادی جاتی اوراگرطاقتورجرم کرتاتواسے چھوڑ دیا جاتا‘‘
ہمارے یہاں بھی یہی صورتحال ہے کہانصاف انہی کے لئے ہے جوطاقتورہیں اورسزاکے حق دارغریب ونادار۔آنجہانی مشرف کے عہدِآمریت میں جب عدلیہ پرقدغن لگائی گئی توقوم نے یک زباں ہوکراس عدلیہ کاہی ساتھ دیا۔افتخارچوہدری سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ججزنے آمرکے سامنے انکارکے جرم کی پاداش میں نظربندی کاسامناکیا۔پھریوں ہواکہ وکلانے عدلیہ کی آزادی کی تحریک شروع کی۔تحریک کے آغازکے بعدملک بھرکی عوام نے وکلاکاساتھ دیاکہ عدلیہ کی بحالی لازمی ہے۔ تمام طبقات کی مشترکہ جدوجہد کے سبب بالآخرعدلیہ بحالی کی تحریک کامیابی سے ہمکنارہوئی۔مگرکچھ ہی مدت بعدیہ عدلیہ کی نہیں بلکہ شخصیات کی بحالی ثابت ہوئی۔کیوں کہ عدلیہ بحالی کی تحریک کے بعدمحض زبانی جمع خرچ اوربڑی بڑی اخباری سرخیوں میں ججزکے ’’جرات مندانہ‘‘بیانات کی اشاعت کے سواقوم کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔عدلیہ کے ’’عہدِ افتخار‘‘میں ہی چوٹی زیریں میں حافظ عبداللہ نامی ایک شخص کوایک ہجوم نے تھانے سے نکلواکراسے گلیوں میں گھسیٹااورپھرآگ لگادی۔اوروں کوقانون کی حکمرانی کے بھاشن دینے والی عدلیہ مگرگنگ ہی رہی تھی۔ریمنڈڈیوس،شاہ رخ جتوئی اورسیالکوٹ میں دوبھائیوں پرظلم کرنے والے ظالم اس عدلیہ کے ہاتھوں سے ہی "پارسائی”کی سندلے کرآزادہیں۔پرویزمشرف ، سانحہ 12 مئی ،قصورکے درندہ صفت انسان اوراقلیتوں کی بستیاں جلانے والے سب ہی توآزادہیں۔
عدلیہ کاکام یہ ہے کہ وہ بلاتفریق انصاف کی فراہمی یقینی بنائے ۔عدلیہ بحالی کی تحریک کے بعدعوام عدلیہ کواپنے تمام دکھوں کامداواسمجھنے لگی تھی۔ملک میں سیاسی وانتظامی بدعنوانیوں کے سبب واحدسہاراعدلیہ تھی مگرعدلیہ عوام کی امنگوں پرپورااترنے میں مکمل طورپرناکام رہی۔لاپتہ افرادکامعاملہ تاحال زیرِالتواہے کیوں کہ سامنے ایک طاقتورفریق ہے ۔حال ہی میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس صاحب نے کئی باراپنے خطبات وریمارکس میں ملکی نظم ونسق کی زبوں حالی کارونارویا۔سوال مگریہ ہے کہ عدلیہ سمیت باقی ادارے کیاکررہے ہیں اورنظام کی بہتری کی ذمہ داری آخرکس کی ہے ۔؟کیااس ذمہ داری کاکچھ احساس کم ازکم عدلیہ کوبھی ہے کہ نہیں۔؟ملک میں بدامنی،ناانصافی اورظلم وجبرکی صورتحال میں عدلیہ بھی برابرکی ذمہ دارہے۔ دوسرے اداروں کی طرح عدلیہ بھی روایتی بیان بازی اورخانہ پُری کے سواکچھ نہیں کررہی۔ارسلان افتخارکامعاملہ ہویاحاضرسروس جج کے گھرمیں تشددکانشانہ بننے والی طیبہ کا۔عدلیہ کاکرداروہی ہے جودوسرے اداروں کاہے کہ اپنے پیٹی بھائیوں کے "پاک دامن” پرکوئی”داغ” نہ لگنے دیاجائے ۔جس ملک میں منصفوں کی حالت یہ ہوکہ وہ عدلیہ کے وقارکی بجائے شخصی وقارکومدِنظررکھ کرمعاملات کودیکھیں تووہاں کس انصاف کی امیدرکھی جائے ۔
اس طرح کے واقعات بھی ہمارے سامنے ہیں کہ لوگ وفات پاجاتے ہیں اورپھران کے حق میں فیصلہ آتاہے ۔25، 25 سال عمرقید کی سزامکمل کرکے باہرآتے ہیں اورعدالت سے اپناکیس واپس لیتے ہیں۔12سال بعدایک سزائے موت کے قیدی کی قسمت جاگتی ہے اوراس کے بے گناہ ہونے کافیصلہ کیاجاتاہے ۔کچھ ہی روزپہلے لاہورہائیکورٹ میں ایک شخص نے خودکوآگ لگاکرخودکشی کی کوشش کی۔نہایت معمولی کیس بھی اتنے لٹکائے جاتے ہیں کہ لوگ عمربھرعدالتوں کے چکرلگاتے رہتے ہیں۔شریف شرفاہرممکن کوشش کرتے ہیں کہ عدالت سے واسطہ نہ پڑے اوروجہ نظامِ عدل ہے ۔عدلیہ کواپنے رویوں پرغورکرناچاہئے ۔ججزکاکام انصاف پرمبنی فیصلہ کرناہے نہ کہ بھاشن دینا۔ججزکی زبانیں نہیں فیصلے بولنے چاہئیں کہ عدلیہ بہترکام کررہی ہے ۔انصاف کی بروقت فراہمی کے لئے بارہابیانات تودئے گئے اوراسی طرح سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاسوں میں بھی اس پرغورکیا گیامگرحالات جوں کے توں ہیں۔سستے اورفوری انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے اورکسی کی شخصیت اورعہدہ کی بجائے عدالتی وقارکومدِنظررکھناچاہئے ۔لوگ ہرطرف سے مایوس ہوکرعدلیہ کی طرف آتے ہیں مگرعدلیہ بھی انصاف کی فراہمی کے لئے کچھ چیزوں کوضروری سمجھتی ہے جن کے بغیرانصاف کاحصول نہایت ہی مشکل ہے ۔احمدندیم قاسمی اپنی مشہورنظم "پتھر”میں عدلیہ کے شرمناک کرداررکی بابت تحریرکرتے ہیں
’’تم سے پہلے کئی قومیں اس وجہ سے تباہ ہوئیں کہ اگرکوئی کمزورجرم کرتاتوسزادی جاتی اوراگرطاقتورجرم کرتاتواسے چھوڑ دیا جاتا‘‘
ہمارے یہاں بھی یہی صورتحال ہے کہانصاف انہی کے لئے ہے جوطاقتورہیں اورسزاکے حق دارغریب ونادار۔آنجہانی مشرف کے عہدِآمریت میں جب عدلیہ پرقدغن لگائی گئی توقوم نے یک زباں ہوکراس عدلیہ کاہی ساتھ دیا۔افتخارچوہدری سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ججزنے آمرکے سامنے انکارکے جرم کی پاداش میں نظربندی کاسامناکیا۔پھریوں ہواکہ وکلانے عدلیہ کی آزادی کی تحریک شروع کی۔تحریک کے آغازکے بعدملک بھرکی عوام نے وکلاکاساتھ دیاکہ عدلیہ کی بحالی لازمی ہے۔ تمام طبقات کی مشترکہ جدوجہد کے سبب بالآخرعدلیہ بحالی کی تحریک کامیابی سے ہمکنارہوئی۔مگرکچھ ہی مدت بعدیہ عدلیہ کی نہیں بلکہ شخصیات کی بحالی ثابت ہوئی۔کیوں کہ عدلیہ بحالی کی تحریک کے بعدمحض زبانی جمع خرچ اوربڑی بڑی اخباری سرخیوں میں ججزکے ’’جرات مندانہ‘‘بیانات کی اشاعت کے سواقوم کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔عدلیہ کے ’’عہدِ افتخار‘‘میں ہی چوٹی زیریں میں حافظ عبداللہ نامی ایک شخص کوایک ہجوم نے تھانے سے نکلواکراسے گلیوں میں گھسیٹااورپھرآگ لگادی۔اوروں کوقانون کی حکمرانی کے بھاشن دینے والی عدلیہ مگرگنگ ہی رہی تھی۔ریمنڈڈیوس،شاہ رخ جتوئی اورسیالکوٹ میں دوبھائیوں پرظلم کرنے والے ظالم اس عدلیہ کے ہاتھوں سے ہی "پارسائی”کی سندلے کرآزادہیں۔پرویزمشرف ، سانحہ 12 مئی ،قصورکے درندہ صفت انسان اوراقلیتوں کی بستیاں جلانے والے سب ہی توآزادہیں۔
عدلیہ کاکام یہ ہے کہ وہ بلاتفریق انصاف کی فراہمی یقینی بنائے ۔عدلیہ بحالی کی تحریک کے بعدعوام عدلیہ کواپنے تمام دکھوں کامداواسمجھنے لگی تھی۔ملک میں سیاسی وانتظامی بدعنوانیوں کے سبب واحدسہاراعدلیہ تھی مگرعدلیہ عوام کی امنگوں پرپورااترنے میں مکمل طورپرناکام رہی۔لاپتہ افرادکامعاملہ تاحال زیرِالتواہے کیوں کہ سامنے ایک طاقتورفریق ہے ۔حال ہی میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس صاحب نے کئی باراپنے خطبات وریمارکس میں ملکی نظم ونسق کی زبوں حالی کارونارویا۔سوال مگریہ ہے کہ عدلیہ سمیت باقی ادارے کیاکررہے ہیں اورنظام کی بہتری کی ذمہ داری آخرکس کی ہے ۔؟کیااس ذمہ داری کاکچھ احساس کم ازکم عدلیہ کوبھی ہے کہ نہیں۔؟ملک میں بدامنی،ناانصافی اورظلم وجبرکی صورتحال میں عدلیہ بھی برابرکی ذمہ دارہے۔ دوسرے اداروں کی طرح عدلیہ بھی روایتی بیان بازی اورخانہ پُری کے سواکچھ نہیں کررہی۔ارسلان افتخارکامعاملہ ہویاحاضرسروس جج کے گھرمیں تشددکانشانہ بننے والی طیبہ کا۔عدلیہ کاکرداروہی ہے جودوسرے اداروں کاہے کہ اپنے پیٹی بھائیوں کے "پاک دامن” پرکوئی”داغ” نہ لگنے دیاجائے ۔جس ملک میں منصفوں کی حالت یہ ہوکہ وہ عدلیہ کے وقارکی بجائے شخصی وقارکومدِنظررکھ کرمعاملات کودیکھیں تووہاں کس انصاف کی امیدرکھی جائے ۔
اس طرح کے واقعات بھی ہمارے سامنے ہیں کہ لوگ وفات پاجاتے ہیں اورپھران کے حق میں فیصلہ آتاہے ۔25، 25 سال عمرقید کی سزامکمل کرکے باہرآتے ہیں اورعدالت سے اپناکیس واپس لیتے ہیں۔12سال بعدایک سزائے موت کے قیدی کی قسمت جاگتی ہے اوراس کے بے گناہ ہونے کافیصلہ کیاجاتاہے ۔کچھ ہی روزپہلے لاہورہائیکورٹ میں ایک شخص نے خودکوآگ لگاکرخودکشی کی کوشش کی۔نہایت معمولی کیس بھی اتنے لٹکائے جاتے ہیں کہ لوگ عمربھرعدالتوں کے چکرلگاتے رہتے ہیں۔شریف شرفاہرممکن کوشش کرتے ہیں کہ عدالت سے واسطہ نہ پڑے اوروجہ نظامِ عدل ہے ۔عدلیہ کواپنے رویوں پرغورکرناچاہئے ۔ججزکاکام انصاف پرمبنی فیصلہ کرناہے نہ کہ بھاشن دینا۔ججزکی زبانیں نہیں فیصلے بولنے چاہئیں کہ عدلیہ بہترکام کررہی ہے ۔انصاف کی بروقت فراہمی کے لئے بارہابیانات تودئے گئے اوراسی طرح سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاسوں میں بھی اس پرغورکیا گیامگرحالات جوں کے توں ہیں۔سستے اورفوری انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے اورکسی کی شخصیت اورعہدہ کی بجائے عدالتی وقارکومدِنظررکھناچاہئے ۔لوگ ہرطرف سے مایوس ہوکرعدلیہ کی طرف آتے ہیں مگرعدلیہ بھی انصاف کی فراہمی کے لئے کچھ چیزوں کوضروری سمجھتی ہے جن کے بغیرانصاف کاحصول نہایت ہی مشکل ہے ۔احمدندیم قاسمی اپنی مشہورنظم "پتھر”میں عدلیہ کے شرمناک کرداررکی بابت تحریرکرتے ہیں
ایک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا ہے
مگر ہاتھ میں تیشۂِ زرہوتووہ ہاتھ آتاہے
مگر ہاتھ میں تیشۂِ زرہوتووہ ہاتھ آتاہے