چھ نومبر دو ہزار سترہ صبح صبح کی بات ہے کہ میری وہ شب کسی بے چاری کی فکر اور پھر اس کی چارہ سازی کی امید میں تھے میرا یہی ارادہ مسسم تھا کہ آج سویرے سویرے خدا کی مخلوق کا تماشہ دیکھا جائے ابھی اندھیری دم توڑ رہی تھی اور روشنی کا بول بالا ہونے کو ہی تھا کہ ابوظہبی شہر کے ان پکے مکانوں کی چھتوں پر لگے فولادی جنگلوں سے کچھ نیلی سی روشنی گزرتی معلوم ہوئی ہی تھی کہ ابھی تک کوئی سایہ ہی نہیں تھا میں سامنے اپنے محلے کی گلی کو ہو لیا اور یہاں کہیں دور کسی کونے سے کوئی آدم زاد آتی دکھائی دی البتہ محلوں کو ملانے والی ان چھوٹی چھوٹی سڑکوں پر جو ایک سے ایک گلی کو ملاتی ہیں ان پر شب بھر گلی کے بدمعاش بلوں کا راج رہا ہے کتے مگر نظر نہیں آتے کوئی کہیں غلطی سے آبھی نکلے تو گروہ کے سرپرست بلوں سے خوب مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے لیکن اس دن ایسا نہیں ہو رہا تھا اصل میں ہوا یوں کہ ناشتہ کی تلاش میں یہاں اب قریب کی دکانیں بند پا کر میں بہت دور چلا گیا ہوں بھوک بھی ستا رہی تھی اور ادھر خدا کی مخلوق کے نظارے دیکھنے سے بھی محروم نہیں رہ سکتا تھا ایک کے بعد ایک قدم کانوں میں ٹوٹیاں اور ان میں سویرے سویرے ایف ایم لیہ پر لگی بھر دو جھولی میری یا محمد مجھے کئی پرانے وقتوں کی یاد دلا رہی ہوتی ہیں سکول کا صبح سویرے کا وقت اپنے نیک بزرگوں کی یادیں اور اپنے گاؤں کے اوقات لو پھر تازہ سرد ہوا کے جھونکوں کے ساتھ ایک ہوٹل کھلا ہوا ملا ہے اور آج سحر خیزی کی نوعیت یوں ہوئی کہ میں ان کا پہلا گاہک تھا ابھی چائے کی دیگچی نے پہلی انگڑائی لی ہی تھی اور ساتھ ہی چائے کی خالی پیالیاں کوئی امید بھر آنے کی صورت خود میں چائے کے بھر جانے کو ہی تھی اور پراٹھے بھی اسی وقت ہی توے کی زینت بن رہے تھے مجھ سے پوچھا گیا ہے کہ میاں کیا لایا جائے تو ایک پراٹھا انڈا اور چائے کے ایک کپ اپنے مستقبل کی فکرمندی کے ساتھ نوش فرما کر میں پھر سے واپسی کے لئے وہاں سے چل نکلا اب کی بار پھر میں ساتھ ہی ایک پارک کی جانب چلا نکلا جو سبزہ و گل سے بھرپور تخیلات جنم دینے کی ایک بھرپور جگہ ہے سنا ہے سویرے سویرے رحمتیں برستی ہیں میں نے کہا چلو دل تو ہر وقت سوگ میں رہا کرتا ہے آج چلو یونہی سیر کرتے آدم زاد دیکھ لوں کہ جن کے چہروں پر مسرتیں اچھل رہی ہوتی ہیں میں بھی تو دیکھوں کہاں سے ان مسرتوں کا نزول ہوتا ہے فٹ پاتھ سے ہوتا ہوا ایک پارک میں آن پہنچا ہوں ایک خوش طبع بزرگ موت کے انتظار سے فرقت پا کر اسی پارک میں آخری عمر کی الجھنوں اور گزرے حالت کے غم سمیٹنے والے اپنے جسم کے تمام جوڑوں کو ٹٹول کر دیکھ رہا تھا جیسے کوئی جوان صبح سویرے کو کثرت کرتا ہو وہ بزرگ بھی بوڑھے جسم کو حرکت دے رہا تھا شاید اس کے جوڑوں سے آوازیں بھی آ رہی تھی جو مجھے سنائی نہیں دیں اتنے میں کیا دیکھا کہ ایک نوجوان لڑکی قدرے تیز قدم میرے پاس سے گزری اتنے میں دو پکی عمر کی بزرگ خواتین بھی وہاں تشریف لے آئیں کوئی باریک موضوع ہے جس پر تبصرہ کرنے میں مگن ہوں خیر ہم سب ایک دوسرے کی طرف مکمل متوجع ہوئے پارک میں قدرتی ماحول قائم رکھا گیا تھا تاکہ شہر کے ہنگاموں سے قطع نظر سویرے سویرے آدم اور حوا کے بیٹے بیٹیاں یہاں آکر کچھ تسکین قلب و جاں کا ساماں کر سکیں میرے ذہن میں بے شمار نا آسودگیاں آنے لگیں جنہوں نے کسی نہ کسی فکر کے تسلسل میں جنم لیا ہوا تھا کبھی کبھار جب میں سوچتا ہوں کہ کیا معلوم کہ ناگہانی میں مارا جاؤں پھر یہ فکریں کہاں جائیں گی مستقبل اور اس کی تشکیل سے جڑے سارے خواب کہاں کس کے آنسوں سے ٹپکا کریں گے کیا آدمی کو مرنے کے بعد یاد رکھا جاتا ہے یہ مصروف زندگی ہے ہر اک کا رونا الگ ہے میرے اقرباء کی بات الگ ہے کہ وہ روئیں گے شاید بھول نہ پائیں گے البتہ ایک نہ ایک دن یہ ہو گا کہ اس رابطے کی دنیا اور میرے دور دراز کے اجنبی دوستوں کی بے تکلفانہ چائے خانوں پر جمنے والی نشستوں میں کوئی مقبول جنجوعہ نہیں ہو گا انٹرنیٹ پر کوئی بلا ہے جسے فیس بک کہا جاتا ہے اس پر بھی مقبول جنجوعہ کے نام سے ایک اکاونٹ موجود تو ہو گا لیکن اسے کون چلائے گا اس جنجوعہ برادرز لیہ نام کے پیج سے تحریریں بھی آنا بند ہو جائیں گی واٹس اپ اور ای میل بھی بے رونق ہو جائیں گے اور کوئی بھی فرق پڑے بغیر میرے ہم پلہ رہنے والوں کے روز مرہ جات جاری رہیں گے یہ ساری نا آسودگیاں میرے ذہن میں ڈیرے جمائے ہوئے تھی پارک میں ایک طرف سے داخل ہو کر اب دوسری طرف سے نکلنے والا ہی تھا کہ یہاں پیدل چلنے کو الگ راستہ مخصوص ہے جہاں سویرے سویرے باہمت لوگ نوجواں بھاگتے دوڑتے ہیں بزگ ٹہلتے ہیں اور عورتیں بھی چلنے کی صورت کوئی طرز عمل اختیار کئے ہوتی ہیں یہ نا آسودگیاں آدمی کو بنانے بگاڑنے میں برابر کردار ادا کرتی ہیں میں خود کو یہی سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا بہر حال اس بحر میں آنے والے کہاں پارک سے نکل آیا ہوں واپس وہی سڑک کا فٹ پاتھ تھا کانوں میں ٹوٹیاں ایف ایم لیہ کوئی صوفیانہ کلام اور ایک کے بعد آہستہ آہستہ قدم اٹھائے وہاں سے چل دیا سڑک پر کافی دیر کے بعد کوئی تیز رفتار گاڑی گزری سویر کا وقت تھا ایسا ہی ہونا تھا تو دوستو کبھی کبھی میں جب اپنی زندگی کے اسلوب سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں تو سمجھ نہیں آپاتے آدمی کیا کرے ایک بندھن کو قائم کرنے کے لئے کئی بندھنوں سے نفرتیں مول لینی پڑتی ہیں کسی کو اخلاص کے ساتھ چاہو اور اگر نہ پا سکو تو اول تو یہ کہ فطرت کے خلاف مر جاؤ لیکن کیوں جن کی محنت سے جنم لیا ان کے احسانات کا کیا کرو گے پھر ان مجبوریوں کے عالم میں زندہ ہی رہو اور ہاں مگر ایسے کہ جس کو چاہ رہے ہو اب ساری زندگی نہ اس کا سامنا کر سکو نہ برداشت ہی کر پاؤ اور ملامت سے آسودہ رہو شرم سے ڈوب مرو اس سے بہتر یہ نہیں کہ مر جاؤں وہ بھی انسان کے بس میں نہیں تو یہ انسان پھر کہاں جائے دوستو میں یہ سب کچھ سوچنے کے لئے ہرگز صبح کی سیر کو نہ گیا تھا بلکہ سنا تھا کہ سویرے سویرے رحمتیں ابن آدم کے واسطے برستی ہیں رزق بھی تقسیم ہوتا ہے تو میں بھی اس دن اپنے خدا کے آگے ایک سوالیہ انداز میں چلا گیا تھا اب اپنی گلی میں پہنچ چکا ہوں نا آسودگیاں بھی ساتھ ساتھ ہی ہیں البتہ کئی خوش دل خوش مزاج آدم زاد سویرے سویرے دیکھ کر میری بھلائی کی رگوں
میں نا امیدی کے منجمند خون نے تھوڑی سی گردش پکڑی ہے۔؟
مقبول جنجوعہ