ایک بار پھر شہر قصور نوحہ خواں
عفت بھٹی۔
زینیبُ ایک اور معصوم کلی پھر سے ایک وحشی درندے کی سفاکی کی نذر ہو گئی ۔قصور کی ایک اور بیٹی موت کی آغوش میں جا سوئی۔ہمارے معاشرے کی ایک سفاک حقیقت کہ ہم انسانوں سے درندوں میں بدل گئے ۔قصور کی رہائشی آٹھ سالہ معصوم زینب کے والدین عمرے کی ادائیگی کے لیے گئے ہوئے تھے۔ ‘ساتھ ہی خالہ کا گھر ہے زینب بچوں کے ساتھ پڑھنے کے لیے گئی اور لاپتہ ہو گئی پتہ ہی نہیں چلا کہ کہاں گئی۔اہل خانہ کے رپورٹ کے باوجودپولیس کوئی کھوج لگانے میں ناکام رہی اور پھر کچرے کے ڈھیر پہ وہ معصوم کچلی ہوئی کلی ایک لاش کی صورت میں ملی ۔نہ آسمان گرا اور نہ زمین شق ہوئی شاید اب ہم ان سب واقعات کے عادی ہوگئے ہیں ۔جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا جو کہا تو سن کے اڑا دیا۔اگر کوئی ایکشن لیا جاتا تو ایسا نہ ہوتا ۔کمسن بچیوں سے ذیادتی کا یہ کوئی پہلا واقعہ تو نہیں بلکہ متواتر ایسے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔قبل اسلام کا دور لوٹتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔آخر مجرم قانون کے خود ساختہ لمبے ہاتھوں سے محفوظ کس طرح ہے ۔پولیس کی بے حسی کی مثال کہ بچی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انھوں سی سی ٹی وی فوٹیج نکلوا کر دی لیکن زینب کو بچایا نہیں جا سکا پولیس کو کیا تعاون کرنا ہے، اپنے طور پر پولیس نے کچھ نہیں کیا، جو سی سی ٹی وی کیمرہ کی فوٹیج ہیں وہ بھی ہم نے خود دی ہیں۔ آج تک جنتے بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں کسی میں ایک بندے کا بھی کچھ نہیں پتہ چل سکا۔”جمعرات کو بچی غائب ہوئی اور جمعے کو ہم نے 12 بجے صبح ثبوت دیے لیکن پانچ دن بچی زندہ رہی لیکن ان سے کچھ نہیں ہو سکا۔ جگہ جگہ کارروائی کی اور گاڑیاں بھگاتے ہیں لیکن پلے کچھ نہیں ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ قصور میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ علاقے کے مکینوں کے مطابق ہردوسرے تیسرے مہینے ایسے واقعات پیش آرہے ہیں۔
ایک ماہ قبل بھی شہر کے مرکز سے زینب کی ہم عمر بچی اس وقت لاپتہ ہو گئی تھی جب وہ گھر کے قریب دکان پر کچھ خریدنے کے لیے نکلی تھی۔کیا والدین اپنے بچوں کو گھروں میں بند۔کر دیں۔کوئی جگہ قوم کے ان معصوم بچوں کے لیے محفوظ نہیں ۔مدارس ۔بازار گلیاں محلے ۔ہر جگہ ہوس کے لٹیرے لپلپاتی زبانیں نکالے تاک میں بیٹھے ہیں کہ کب کسی معصوم کا شکار کیا جائے۔اور اپنی ہوس پوری کرنے کے بعد ان کو سفاکی سے موت کی گھاٹ اتار دیں۔المیہ یہ کہ قانون کی ان مجرموں تک رسائی ہی نہیں آخر ایسی کون سی سیلیمانی چادر اوڑھ رکھی ہے جو نظروں سے اوجھل ہیں اور حیرت کی بات کہ جب تک کوئی سانحہ وقوع پذیر نہیں ہوتا اس کی طرف توجہ نہیں دی جاتی بعد میں حکومت وزیر مشیر سب ہوش میں آتے اب معطلی اور اظہار افسوس سے کیا وہ زندگی لوٹائی جا سکتی؟ کیا اس ماں کی مامتا کو قرار مل سکتا؟کیا اس کی سونی گود۔آباد ہو سکتی کیا وہ تتلی دوبارہ اس زندگی میں اڑان بھرسکتی اس کے معصوم قہقہے گھر کے آنگن میں گونج سکتے ہر گز نہیں وہ سب تو کھو گیا ۔سفاکیت کی نذر ہوگیا بھلا کبھی زندگی کا بھی مول ہوا کرتا ہے ۔اندازہ کرب لگائیں کہ کس طرح وہ معصوم انگلی تھام کر اس وحشی کو پہچانے بغیر اس سے باتیں کرتی کھلکھلاتی اچھلتی کودتی اس کے ہمراہ چلی ہوگئی چاکلیٹ کی مٹھاس کو محسوس کر کے آنکھوں میں جلنے والے ستارے کیسے بجھے ہونگے جب انسانیت نے درندگی کا لبادہ اوڑھا ہوگا ۔ان کنچوں جیسی شفاف نگاہوں میں نہ سمجھنے وال حیرانگی وہ تو پیار کے علاوہ کسی جذبے سے واقف ہی نہ تھی۔کیا قصور تھا اس معصوم کا ۔شاید یہ کہ وہ بنت ِ حوا تھی۔جسے قبل اسلام بھی زمین میں زندہ گاڑ دیا جاتا تھا اور اب بھی کبھی وہ وحشت وبربریت کا شکار ہوتی ہے تو کبھی زندہ جلا دی جاتی ہے ۔کاش ایک بار صرف ایک بار ان درندوں کو سر عام دار پہ لٹکایا جائے تو کتنی زینبیں بچ جائیں ۔مگر شاید پشت پناہی اور ہماری بے حسی سب سے بڑھ کر لا قانونیت جس میں جنگل کا قانون چلتا ایسا نہ ہونے دے۔