حلم وفا کا پیکرملک حاکمین خان
شاہداقبال شامی
وہ13اکتوبر 1999کی ایک چمکتی صبح تھی جب پہلی دفعہ میرے شعور نے آنکھ کھولی گاؤں سے شہر جانے کے لئے اس دن جانے کیوں کوئی گاڑی نہیں تھی تانگہ پر بیٹھ کر عازم سفر ہوا راستہ میں ساتھ بیٹھے شخص نے بڑی خوشی سے بتا یا کہ رات کو جنرل پرویز مشرف نے حکومت پر قبضہ کر لیا
اور نواز شریف کو گرفتار کر لیا ہے اس وقت باقی لوگوں کی طرح میں بھی خوش ہوا۔ہمارے گھرمیں اس وقت ٹیلی ویژن نہیں تھا اور آج اس دور جدید میں بھی اس سہولت سے محروم ہوں۔میری تمام معلومات کا انحصار اخبارات وہ بھی کبھی کبھی میسر آتے تھے یا لوگوں سے سنی سنائی باتیں تھیں،میں نے ذوالفقار علی بھٹو کا دور نہیں دیکھا اور بے نظیر ونوازشریف کا دور یاد نہیں اس لئے ان ادوار کی خوبیاں اور خامیوں سے صرف نظر کروں گا۔
میں نے اپنی زندگی میں اپنے علاقے کی جس سیاسی شخصیت کا تذکرہ سب سے زیادہ سنا وہ ملک حاکمین خان ہے،لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ ہمیشہ جب بھی کہیں ملک حاکمین خان کا تذکرہ ہوا تو ان کا صرف تمسخر ہی اڑایا گیاجیسا سنا ویسا ہی آگے ہر جگہ بیان کردیاذہن میں ایک منفی تصویر سی بن گئی،پہلی دفعہ ملک حاکمین خان کو اپنے بیٹے ملک شاہان کی الیکشن کمپئین چلاتے ہوئے دیکھا اور سنا ،ہمارے ہاں الیکشن کمپئین ہمیشہ سے صرف ہلہ گلہ،شورشرابہ اور تمسخرانہ ہی ہوتی ہیں اور ویسے بھی انسان کے دماغ میں جس انسان کی شخصیت راسخ ہو وہ آسانی سے نہیں مٹتی بہرحال ملک شاہان حاکمین تاریخ ساز ووٹ لے کر کامیاب ہوالیکن بدقسمتی سے اپنا امیج بنانے میں ناکام رہا جس میں اس کے اپنوں کی ریشہ دوانیوں کا خاص ہاتھ رہا ہے۔ادھر ان کے مخالفین کا بھی مضبوط نیٹ ورک ان کے خلاف سرگرم رہا جو عجیب وغریب خرافات عوام میں پھیلاتا رہاجس سے حقیقت عوام سے اوجھل ہی رہی۔
نئی نسل واقعی ملک حاکمین خان کی قربانیوں اور عوامی خدمات سے نابلد ہے ملک حاکمین خان کی پارٹی کے لئے قربانیاں جہاں بھلانے کے قابل نہیں ہیں وہیں عوامی خدمات بھی سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں۔اٹک کے چھوٹے سے گاؤں شیں باغ سے تعلق رکھنے ولا معمولی ساانسان ملک حاکمین خان بڑے دل اور ظرف کا مالک ہے جس نے اس وقت بڑے بڑے جاگیرداروں،وڈیروں،خانوں ،ملکوں،سرداروں اور انگریز کے خطاب یافتہ نوابوں سے ٹکر لی جب ہر طرف ان کا طوطی بولتا تھا،ان کی مرضی کے بنا کوئی کام نہیں ہوتا تھا چارسو ان ہی قبضہ مافیا کا راج تھا۔اس اندھیر نگری میں ملک حاکمین خان عوام کے لئے امید کی ایک کرن بن کر ابھرا،پسے ہوئے، جاگیرداروں کے ڈسے ہوئے، ہر بنیادی حق سے محروم طبقے نے ملک حاکمین خان کو اپنا نجات دہندہ منتخب کیا پھر ملک حاکمین خان نے بھی وفا کی لاج رکھی ہر طرف اس پر مخالفین کا دباؤ تھا مجھے یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ بارہا دفعہ اس کے گھر کے سامنے جلسہ سجا کر مخالفین نے اپنے دماغوں کا گند نکالا لیکن آفرین ہے اس وفا کے کوہ گراں اور حلم وتدبر کے پیکر پر اس نے اف تک نہ کی اس ناروا سلوک پر احتجاج تو کجا اپنی زبان سے ذکر تک نہ کیا۔
ملک حاکمین خان کی کتاب کا تذکرہ پہلی دفعہ ایک کالم نگا ر سے سنا انہوں نے مجھ سے کہا آج چئیرمین پریس کلب نے فلاح شخص کے خلاف خبر نکالی ہے کہ”اس کا باپ ملک حاکمین خان کی حویلی کا پرانا نمک خوار ہے اس کا ذکر ضرور اس کتاب میں بطور خدمت گزار کے آئے گا "کچھ عرصہ کے باد فیس بک میں ملک حاکمین خان کی کتاب "خارزارسیاست کے شب روز "کو دیکھا اور میری فرمائش پر ڈاک کے ذریعہ کتاب مجھے بھیج دی۔میں نے جب کتا ب کو پڑھا تو میرے چودہ طبق روشن ہو گئے بہت سی حقیقتیں آشکارہ ہوئیں ملک حاکمین خان جہاں وفا کا کوہ ہمالیہ ہیں وہی بڑے دل اور ظرف کے مالک بھی ہیں انہوں نے اپنی پوری کتاب میں سوائے راجہ پرویزاشرف سابق وزیراعظم پاکستان کی زیادتیوں کے علاوہ کسی کی برائی تک بیان نہیں کی ملک حاکمین خان کے پاس بیک وقت پانچ پانچ وزارتیں رہیں لیکن ان کا دماغ خراب نہ ہواسب سے پہلے اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کیا۔قائد اعظم کے بعد واحد شخصیت ہیں جن پر کسی قسم کا کوئی الزام نہیں کسی قسم کی کرپشن کی نہ ہی قرضے معاف کرائے ،کسی قسم کے پرمٹ لئے نہ ہی کوئی غبن کیابلکہ بچوں کی شادی کے لئے اپنی آبائی زمینیں تک فروخت کیں۔
ملک حاکمین خان کی خدمات کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں سب سے اہم ضلع کیمبلپور کو پسماندہ قرار دلوانا ،دیہی علاقوں کو گیس کی فراہمی،روٹی کپڑا مکان کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کی جدوجہد،پسماندہ،بے کس،مجبوراور بے بس عوام کو جابر ظالم جاگیرداروں کے چنگل سے آزادی ،پیپلزکالونیوں کی بنیاد،جیلوں میں اصلاحات،قیدیوں کے لئے ہنرمندی کے منصوبہ جات،سکول ،کالج،ہسپتال،سڑکیں،پل اور لاتعدار عوامی منصوبے شامل ہیں۔آج تک تمام سیاسی ذمہ داران کو ان کے گھروں سے گرفتار کیا گیالیکن ملک حاکمین خان کوہمیشہ عوامی جلسوں اور ریلیوں میں گرفتار کیا گیا یہ ان کی بہادری کی واضح مثال ہے ،مارشل لاء کا سخت دور گزارہ اور تقریبا سات سال قید بامشقت جیل کاٹی بے سروسامانی اور مشکلات کوہنس کر جھیلا ہمیشہ شکرگزار رہے کبھی گلہ تک نہ کیا۔خاموش طبیعت کے مالک ہیں لیکن ملک اور عوام کے مفاد کی جب بھی بات آئی کبھی خاموش نہیں بیٹھے خواہ اسمبلی کا فلور ہو یا چوک چورائے ہمیشہ عوام کے حق کے لئے بڑے سے بڑے ظالم وجابر کو للکارا۔
ملک حاکمین خان کی کتاب "خارزارسیاست کے شب و روز "ان کی طویل سیاسی جدوجہد،یاداشتوں اور چشم کشا انکشافات پر مشتمل داستان حیات ہے،اس میں جابجا ان کی خدمات کے کارہائے نمایاں بکھرے پڑے ہیں ان کی پوری سیاسی زندگی اور نصف صدی کے سیاسی حالات کا واضح اظہاریہ ہے اوراس میں تمام مسائل کا حل بھی موجود ہے یہ کتاب ہر سیاسی ذمہ داران،ہر سیاسی ورکر اور تمام پڑھے لکھے اور خاص کر اٹک کے نوجوانوں کے لئے بہت ہی ضروری ہے یہ ان کے لئے مشعل راہ بھی ہے اور اپنی مٹی سے وفا کرنے والوں کی تاریخ بھی اس میں پوشیدہ ہے اس میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جس سے میرے ذہن کے دریچے کھلے اور بہت سے شبہات اور غلط فہیمیوں کا ازالہ ہوا،خاص کر وہ باتیں جو ہمارے ہاں ملک حاکمین خان کے خطابات کے حوالے سے بہت مشہور ہے ان میں سے سب سے بڑا تبراء "میں ملک میں جیلوں کے جال بچھا دونگا "اس جھوٹے پروپیگنڈا کی گتھی بھی خود عباس اطہر نے سلجھائی ہے جو اس غلط خبر کے بانی تھے۔
کتاب پر تفصیلی تبصرہ آئیندہ کسی نشست میں
میں نے اپنی زندگی میں اپنے علاقے کی جس سیاسی شخصیت کا تذکرہ سب سے زیادہ سنا وہ ملک حاکمین خان ہے،لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ ہمیشہ جب بھی کہیں ملک حاکمین خان کا تذکرہ ہوا تو ان کا صرف تمسخر ہی اڑایا گیاجیسا سنا ویسا ہی آگے ہر جگہ بیان کردیاذہن میں ایک منفی تصویر سی بن گئی،پہلی دفعہ ملک حاکمین خان کو اپنے بیٹے ملک شاہان کی الیکشن کمپئین چلاتے ہوئے دیکھا اور سنا ،ہمارے ہاں الیکشن کمپئین ہمیشہ سے صرف ہلہ گلہ،شورشرابہ اور تمسخرانہ ہی ہوتی ہیں اور ویسے بھی انسان کے دماغ میں جس انسان کی شخصیت راسخ ہو وہ آسانی سے نہیں مٹتی بہرحال ملک شاہان حاکمین تاریخ ساز ووٹ لے کر کامیاب ہوالیکن بدقسمتی سے اپنا امیج بنانے میں ناکام رہا جس میں اس کے اپنوں کی ریشہ دوانیوں کا خاص ہاتھ رہا ہے۔ادھر ان کے مخالفین کا بھی مضبوط نیٹ ورک ان کے خلاف سرگرم رہا جو عجیب وغریب خرافات عوام میں پھیلاتا رہاجس سے حقیقت عوام سے اوجھل ہی رہی۔
نئی نسل واقعی ملک حاکمین خان کی قربانیوں اور عوامی خدمات سے نابلد ہے ملک حاکمین خان کی پارٹی کے لئے قربانیاں جہاں بھلانے کے قابل نہیں ہیں وہیں عوامی خدمات بھی سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں۔اٹک کے چھوٹے سے گاؤں شیں باغ سے تعلق رکھنے ولا معمولی ساانسان ملک حاکمین خان بڑے دل اور ظرف کا مالک ہے جس نے اس وقت بڑے بڑے جاگیرداروں،وڈیروں،خانوں ،ملکوں،سرداروں اور انگریز کے خطاب یافتہ نوابوں سے ٹکر لی جب ہر طرف ان کا طوطی بولتا تھا،ان کی مرضی کے بنا کوئی کام نہیں ہوتا تھا چارسو ان ہی قبضہ مافیا کا راج تھا۔اس اندھیر نگری میں ملک حاکمین خان عوام کے لئے امید کی ایک کرن بن کر ابھرا،پسے ہوئے، جاگیرداروں کے ڈسے ہوئے، ہر بنیادی حق سے محروم طبقے نے ملک حاکمین خان کو اپنا نجات دہندہ منتخب کیا پھر ملک حاکمین خان نے بھی وفا کی لاج رکھی ہر طرف اس پر مخالفین کا دباؤ تھا مجھے یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ بارہا دفعہ اس کے گھر کے سامنے جلسہ سجا کر مخالفین نے اپنے دماغوں کا گند نکالا لیکن آفرین ہے اس وفا کے کوہ گراں اور حلم وتدبر کے پیکر پر اس نے اف تک نہ کی اس ناروا سلوک پر احتجاج تو کجا اپنی زبان سے ذکر تک نہ کیا۔
ملک حاکمین خان کی کتاب کا تذکرہ پہلی دفعہ ایک کالم نگا ر سے سنا انہوں نے مجھ سے کہا آج چئیرمین پریس کلب نے فلاح شخص کے خلاف خبر نکالی ہے کہ”اس کا باپ ملک حاکمین خان کی حویلی کا پرانا نمک خوار ہے اس کا ذکر ضرور اس کتاب میں بطور خدمت گزار کے آئے گا "کچھ عرصہ کے باد فیس بک میں ملک حاکمین خان کی کتاب "خارزارسیاست کے شب روز "کو دیکھا اور میری فرمائش پر ڈاک کے ذریعہ کتاب مجھے بھیج دی۔میں نے جب کتا ب کو پڑھا تو میرے چودہ طبق روشن ہو گئے بہت سی حقیقتیں آشکارہ ہوئیں ملک حاکمین خان جہاں وفا کا کوہ ہمالیہ ہیں وہی بڑے دل اور ظرف کے مالک بھی ہیں انہوں نے اپنی پوری کتاب میں سوائے راجہ پرویزاشرف سابق وزیراعظم پاکستان کی زیادتیوں کے علاوہ کسی کی برائی تک بیان نہیں کی ملک حاکمین خان کے پاس بیک وقت پانچ پانچ وزارتیں رہیں لیکن ان کا دماغ خراب نہ ہواسب سے پہلے اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کیا۔قائد اعظم کے بعد واحد شخصیت ہیں جن پر کسی قسم کا کوئی الزام نہیں کسی قسم کی کرپشن کی نہ ہی قرضے معاف کرائے ،کسی قسم کے پرمٹ لئے نہ ہی کوئی غبن کیابلکہ بچوں کی شادی کے لئے اپنی آبائی زمینیں تک فروخت کیں۔
ملک حاکمین خان کی خدمات کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں سب سے اہم ضلع کیمبلپور کو پسماندہ قرار دلوانا ،دیہی علاقوں کو گیس کی فراہمی،روٹی کپڑا مکان کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کی جدوجہد،پسماندہ،بے کس،مجبوراور بے بس عوام کو جابر ظالم جاگیرداروں کے چنگل سے آزادی ،پیپلزکالونیوں کی بنیاد،جیلوں میں اصلاحات،قیدیوں کے لئے ہنرمندی کے منصوبہ جات،سکول ،کالج،ہسپتال،سڑکیں،پل اور لاتعدار عوامی منصوبے شامل ہیں۔آج تک تمام سیاسی ذمہ داران کو ان کے گھروں سے گرفتار کیا گیالیکن ملک حاکمین خان کوہمیشہ عوامی جلسوں اور ریلیوں میں گرفتار کیا گیا یہ ان کی بہادری کی واضح مثال ہے ،مارشل لاء کا سخت دور گزارہ اور تقریبا سات سال قید بامشقت جیل کاٹی بے سروسامانی اور مشکلات کوہنس کر جھیلا ہمیشہ شکرگزار رہے کبھی گلہ تک نہ کیا۔خاموش طبیعت کے مالک ہیں لیکن ملک اور عوام کے مفاد کی جب بھی بات آئی کبھی خاموش نہیں بیٹھے خواہ اسمبلی کا فلور ہو یا چوک چورائے ہمیشہ عوام کے حق کے لئے بڑے سے بڑے ظالم وجابر کو للکارا۔
ملک حاکمین خان کی کتاب "خارزارسیاست کے شب و روز "ان کی طویل سیاسی جدوجہد،یاداشتوں اور چشم کشا انکشافات پر مشتمل داستان حیات ہے،اس میں جابجا ان کی خدمات کے کارہائے نمایاں بکھرے پڑے ہیں ان کی پوری سیاسی زندگی اور نصف صدی کے سیاسی حالات کا واضح اظہاریہ ہے اوراس میں تمام مسائل کا حل بھی موجود ہے یہ کتاب ہر سیاسی ذمہ داران،ہر سیاسی ورکر اور تمام پڑھے لکھے اور خاص کر اٹک کے نوجوانوں کے لئے بہت ہی ضروری ہے یہ ان کے لئے مشعل راہ بھی ہے اور اپنی مٹی سے وفا کرنے والوں کی تاریخ بھی اس میں پوشیدہ ہے اس میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جس سے میرے ذہن کے دریچے کھلے اور بہت سے شبہات اور غلط فہیمیوں کا ازالہ ہوا،خاص کر وہ باتیں جو ہمارے ہاں ملک حاکمین خان کے خطابات کے حوالے سے بہت مشہور ہے ان میں سے سب سے بڑا تبراء "میں ملک میں جیلوں کے جال بچھا دونگا "اس جھوٹے پروپیگنڈا کی گتھی بھی خود عباس اطہر نے سلجھائی ہے جو اس غلط خبر کے بانی تھے۔
کتاب پر تفصیلی تبصرہ آئیندہ کسی نشست میں