۔۔۔حرف نور۔۔۔
ہیرو سے زیرو
تحریر : مہر کامران تھند
ترکی جنوب مغربی ایشیاء میں ایک آزادجمہوری و اسلامی ملک ہے جس کا سیاسی نظام سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مصطفی کمال اتاترک کی قیادت میں معرض وجود میں آیا۔یہ ملک یورپ اور ایشیاء میں مشترکہ سرحدوں کی وجہ سے اپنی ایک اہمیت رکھتا ہے۔ترکی کی سرحدیں 8ممالک جن میں بلغاریہ،قازقستان،آرمینیاء،ایران،آزربائیجان،عراق اور شام شامل ہیں، کے ساتھ منسلک ہیں۔اور یہ ملک یورپ کے ساتھ ایک
اتحادی کے طور پر شمولیت کے لئیے مذاکرات کر رہا ہے۔ اس ملک سے سابقہ ہندوستانیوں اور موجودہ پاکستانیوں کو بڑی محبت ہے، سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے وقت یہاں سے تحریک خلافت چلی تھی لیکن اسکے باوجود سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا اور اس ملک کی باگ دوڑ مصطفی کمال اتاترک نے سنبھال لی ، جس سے موجودہ نیا ترکی معرض وجود میں آیا۔اس کے بعد بھی ترکی میں کئی بغاوتیں رونما ہوتی رہیں ترکی میں پہلی بغاوت 27مئی 1960ء دوسری 12 مارچ1971ء تیسری 12 ستمبر1980ء اور چوتھی 28 فروری 1997ء میں ہوئی جو کہ کامیاب ہوئی اور ان بغاوتوں کی صورت میں فوج نے منتخب حکومتوں کا تختہ الٹ کر ملک کی باگ دوڑ سنبھال لی۔جو کہ پاکستان اور ترکی کی مشترکہ روایات ہیں۔جبکہ ترکی میں تین بغاوتوں کو ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑا جس کے باعث باغی فوجیوں کو عدالتوں نے سزائیں بھی دیں اور سولی پر لٹکایا گیا۔ان بغاوتوں کی پاکستان نے ڈٹ کر مخالفت کی، سمجھ سے بالاتر ہے کہ جو ملک خود انہیں بغاوتوں کا شکار رہا ہو وہ کیسے ایسی بغاوتوں کی مخالفت کر سکتا ہے۔اور کچھ بغاوتیں تو ایسے دور میں بھی ہوئی جب پاکستان میں فوجی حکومتیں تھیں۔ کچھ دن پہلے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے اور ہماری حکومت نے انکا فقیدالمثال استقبال کیا۔ انہیں مشترکہ اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کا شرف بھی دیا گیا۔ یہ شرف دو مرتبہ پہلے بھی حاصل کر چکے ہیں جبکہ 2009ء میں انہیں پاکستان کا شہری اعزاز نشان پاکستان سے بھی نوازہ جا چکا ہے، موجودہ دورہ کے دوران حکومت پاکستان نے اپنے مہمان کو ایک اور سلامی بھی پیش کی اور یہ سلامی پاکستان میں قائم ترکی کے سکولوں کو بند کر کے ترکی اساتذہ کو ملک بدر کرنیکی دی گئی ہے اور ان سکولوں کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ تعلیمی ادارے جولائی 2016 ء میں ترکی میں ہونے والے بغاوت میں ملوث نام نہاد مذہبی سکالر فتح گولن کے ہیں اور وہ ترکی کی اس بغاوت میں ملوث ہے اور عوا م کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ان اداروں میں زیر تعلیم پاکستانی نوجوانوں کو اسلام اور مسلم ممالک سے دور لے جانے کی کوشش ہو رہی ہے اور ان تعلیمی اداروں کے ذریعے اسلامی معاشرے میں بغاوت کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔اور آج ہم نے ، ہماری قوم نے ، ہمارے حکمرانوں نے رجب طیب اردوان کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا۔ لیکن شاید اردوان کو معلوم نہیں ہم ہیرو کو زیرو بنانے میں بھی دیر نہیں کرتے اور جب اوپر سے حکم آجاتا ہے تو ہم اپنا رخ بدل لیتے ہیں۔1971 ء کی جنگ کے بعد ہمارے پاس کچھ نہ تھا ہمارے خزانے خالی ہو چکے تھے تب لیبیا ء کے صدر معمر قذافی ہمارے لئیے ایک فرشتہ ثابت ہوئے تھے اور اس ملک نے پاکستان کو فنڈز دئیے تھے اور ہم نے انکو شکریہ کے طور ایک پرکرکٹ سٹیڈیم لاہورتعمیر کرکے اسکا نام قذافی سٹیڈیم کا نام دیا، عراق کے صدر صدام حسین کو ایک ہیرو کہا اورہماری قوم نے اپنے بچوں کے نام صدام رکھے اور تب ہم نے دنیا کو پیغام دیا۔ تم کتنے صدام مارو گے ہر گھر سے صدام نکلے گا، نجات دہندہ، صلاح الدین ایوبی ثانی کا خطاب دئیے گئے۔ پھر ہم نے روس کی پیش قدمی کو روکنے کے لئیے یہ نعرہ بھی سنا کہ روس ہمارے گرم پانیوں تک رسائی چاہتا ہے اور اسکو روکنے کے لئیے طالبان ہمارے لئیے فائدہ مند ہیں،ملا عمر اوراسامہ بن لادن کو ہیرو بنایا گیا۔ وقت نے دیکھا جب ان سب ہمارے ہیروز کا برا وقت آیا تب ہم نے ،ہماری قوم نے ،ہمارے حکمرانوں نے کس طرح رخ بدلا، حالات سب کے سامنے ہیں ہمارے یہ ہیروز کس طرح ہیرو سے ذیرو ہوئے۔ اور آج ہم ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کو امت مسلمہ کا ہیرو قرار دے رہے ہیں ۔۔۔