گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ میں مجلس مباحثہ کا آغازایک مثبت عمل
رانا عبدالرب
03456150150
نائن الیون کا حادثہ عصر حاضر کا سب سے بڑا سانحہ ہے جس نے دنیا کو دوحصوں میں تقسیم کردیا ہے مگراس واقعہ کے بعد وہ مذاہب جن کے پیروکاروں کے درمیان نفرت کی وسیع خلیج حائل ہوگئی تھی ان میں مکالمہ کی اشد ضرورت تھی مگر ہر دو نظریات کے دانشورحلقے اس ضرورت کو کماحقہ پورا کرنے سے قاصر رہے جس کی وجہ سے وہ چند چہرے جنھوں نے مذہب کا نقاب اوڑھ کر دہشت گردی کی کارروائیاں کرکے جہاں سماج میں امن کے چہرے کو مسخ کرنے کی سعی کی وہاں ہر دومذاہب کے شدت پسند طبقات نے نفرت کی دیواریں اتنی اونچی کردیں جنھیں پھلانگنا ناممکن تھا۔اسی طرح کمیونزم کو بعض مذہبی شدت پسندوں نے غلط رنگ دیا حالاں کہ کمیونزم مساوات اور انسانیت کا
رانا عبدالرب
03456150150
نائن الیون کا حادثہ عصر حاضر کا سب سے بڑا سانحہ ہے جس نے دنیا کو دوحصوں میں تقسیم کردیا ہے مگراس واقعہ کے بعد وہ مذاہب جن کے پیروکاروں کے درمیان نفرت کی وسیع خلیج حائل ہوگئی تھی ان میں مکالمہ کی اشد ضرورت تھی مگر ہر دو نظریات کے دانشورحلقے اس ضرورت کو کماحقہ پورا کرنے سے قاصر رہے جس کی وجہ سے وہ چند چہرے جنھوں نے مذہب کا نقاب اوڑھ کر دہشت گردی کی کارروائیاں کرکے جہاں سماج میں امن کے چہرے کو مسخ کرنے کی سعی کی وہاں ہر دومذاہب کے شدت پسند طبقات نے نفرت کی دیواریں اتنی اونچی کردیں جنھیں پھلانگنا ناممکن تھا۔اسی طرح کمیونزم کو بعض مذہبی شدت پسندوں نے غلط رنگ دیا حالاں کہ کمیونزم مساوات اور انسانیت کا
سب سے بڑا منبع ہے۔ جو کمیونزم کے پرچارک تھے انہوں نے مکالمہ اور بحث و مباحثہ کے ذریعے اِس کی تشریح نہ کی اور آج دنیا کی نظر میں کمیونزم ایک مخصوص’’ علامت ‘‘کے طور پر سمجھا اور جانا جاتا ہے۔
دہشت گردی کی جنگ میں ہم ڈیڑھ دہائی کا عرصہ گزار چکے ہیں مگر آج بھی ہمارے ہاں نہ تو کہیں مکالمہ کی سی کوئی فضا نظر آتی ہے اور نہ ہی کوئی بحث و مباحثہ ۔زندگی کے گرداب میں پھنساانسان بہت جلدی بہت کچھ حاصل کرنی کی ،سعی لاحاصل میں پڑا ہوا ہے مگر وہ نہیں جانتا کہ وہ آنے والی نئی نسل کو کتنا پیچھے دھکیل رہا ہے کیوں کہ جس معاشرہ میں مکالمہ یا بحث ومباحثہ کی روایت دم توڑ جاتی ہے وہ معاشرہ آہستہ آہستہ سانس لینا چھوڑ دیتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ معاشرہ دم توڑ جاتا ہے۔ بلاشبہ مکالمہ کے فروغ سے ہی کسی معاشرہ میں شعوری ترقی کا جنم ہوتا ہے اوربحث و مباحثہ سے جہاں انسان ایک دوسرے کے خیالات سے ہم آہنگ ہوتا ہے وہاں تخلیق و تحقیق کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشرہ کبھی جمود کا شکار نہیں رہا کرتا ۔کہیں نہ کہیں ،کوئی نہ کوئی ایسا ’’کردار‘‘ضرور معاشرے میں قائم جمود کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے ۔
ماضی میں سقراط،ارسطو،بیدل ،غالب،حالی،فیض احمد فیض،حبیب جالب،احسان دانش،ڈاکٹر خیال امروھوی ،نیلسن منڈیلاجیسے نامورلوگوں نے معاشرے میں ایک نئی روح پھونک کر سماج کو ایک ڈھب میں ڈھالا۔اس بار یہ بیڑا معروف شاعر،دانشور ومحقق ڈاکٹر افتخار بیگ نے معاشرے میں قائم جمود کو توڑنے کے لیے جہاں وعلم وآگہی کے دیپ جلائے وہاں طلبا و طالبات میں ’’بحث و مباحثہ‘‘کا آغاز کر کے ’’سوال‘‘اٹھانے سے ’’جواب‘‘کے ملنے تک کا جو سلسلہ شروع کیا وہ یقیناًقابل تحسین ہے۔
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ میں’’ مجلس مباحثہ ‘‘کا آغاز 25فروری 2016ء کو ہوا۔ اس کے اب تک 8اجلاس ہو چکے ہیں۔اس مجلس کے قیام میں کالج ہذا کے پرنسپل پروفیسرمہر اختر وہاب کی دلچسپی نے اہم کردار ادا کیا۔عہدیداران کا چناؤ ڈاکٹر افتخار بیگ نے کیا ۔مجلس مباحثہ کے عہدیداران میں مجاہد اقبال(صدر)عبدالرحمان احمد(جنرل سیکرٹری)عارف حسین(نائب صدر)صدیق احمد(جوائنٹ سیکرٹری)ہیں۔
مجلس مباحثہ کے اِن 8اجلاسوں میں جن جن طلبا نے حصہ لیا ان میں۔مجاہد اقبال(ایم۔اے اردو)عبدالرحمان(بی۔ایس سی )صدیق احمد(یم۔اے اردو)عارف حسین (ایم۔اے اردو)،عامر رضا(ایم۔اے اردو)سارہ اصغر(ایم۔اے اردو)مصباح نورین(ایم۔اے اردو)ثمینہ (ایم۔اے اردو)محمد اعظم (ایم۔اے اردو)سونیا کنول(ایم۔اے اردو)،مصباح ناز(ایم۔اے اردو) مزمل حسین (ایم۔اے اردو)،۔منزہ نذیر(ایم۔اے اردو)عرفات قیوم(ایم۔اے اردو)اقرارکنول(ایم۔اے اردو)شامل ہیں۔اگر دیکھا جائے تو اب تک کہ جوموضوعات اب تک زیر بحث لائے جا چکے ہیں وہ حالاتِ حاضرہ کے اہم موضاعات میں سے ہیں جیسا کہ ’’اسلام میں رواداری‘‘،حقوق نسواں‘‘،’’طلبا پڑھنا چاہتے ہیں ماحول میسرنہیں‘‘،’’اسلام معاشرتی رواداری کا درس دیتا ہے‘‘،’’کیا پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے‘‘،’’میں ٹیکس کیوں دوں‘‘،تعلیمی اداروں میں تربیت کا فقدان‘‘شامل ہیں۔
بحث ومباحثہ سے جہاں مختلف موضوعات پر تعلیم یافتہ نئی نسل کو ہر دوفریقین سے کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا وہاں ایسی معلومات پر بھی تبادلہ خیال کیا جا سکے گا جو ہماری اذہان کی آنکھوں سے بھی اوجھل ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ گورنمنٹ ونجی تعلیمی اداروں میں مکالمہ اور بحث ومباحثہ کو لازمی قرار دے تاکہ ہمارا معاشرہ ’’سوال‘‘سے ’’جواب‘‘تک پہنچ کر معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکے۔
دہشت گردی کی جنگ میں ہم ڈیڑھ دہائی کا عرصہ گزار چکے ہیں مگر آج بھی ہمارے ہاں نہ تو کہیں مکالمہ کی سی کوئی فضا نظر آتی ہے اور نہ ہی کوئی بحث و مباحثہ ۔زندگی کے گرداب میں پھنساانسان بہت جلدی بہت کچھ حاصل کرنی کی ،سعی لاحاصل میں پڑا ہوا ہے مگر وہ نہیں جانتا کہ وہ آنے والی نئی نسل کو کتنا پیچھے دھکیل رہا ہے کیوں کہ جس معاشرہ میں مکالمہ یا بحث ومباحثہ کی روایت دم توڑ جاتی ہے وہ معاشرہ آہستہ آہستہ سانس لینا چھوڑ دیتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ معاشرہ دم توڑ جاتا ہے۔ بلاشبہ مکالمہ کے فروغ سے ہی کسی معاشرہ میں شعوری ترقی کا جنم ہوتا ہے اوربحث و مباحثہ سے جہاں انسان ایک دوسرے کے خیالات سے ہم آہنگ ہوتا ہے وہاں تخلیق و تحقیق کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشرہ کبھی جمود کا شکار نہیں رہا کرتا ۔کہیں نہ کہیں ،کوئی نہ کوئی ایسا ’’کردار‘‘ضرور معاشرے میں قائم جمود کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے ۔
ماضی میں سقراط،ارسطو،بیدل ،غالب،حالی،فیض احمد فیض،حبیب جالب،احسان دانش،ڈاکٹر خیال امروھوی ،نیلسن منڈیلاجیسے نامورلوگوں نے معاشرے میں ایک نئی روح پھونک کر سماج کو ایک ڈھب میں ڈھالا۔اس بار یہ بیڑا معروف شاعر،دانشور ومحقق ڈاکٹر افتخار بیگ نے معاشرے میں قائم جمود کو توڑنے کے لیے جہاں وعلم وآگہی کے دیپ جلائے وہاں طلبا و طالبات میں ’’بحث و مباحثہ‘‘کا آغاز کر کے ’’سوال‘‘اٹھانے سے ’’جواب‘‘کے ملنے تک کا جو سلسلہ شروع کیا وہ یقیناًقابل تحسین ہے۔
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ میں’’ مجلس مباحثہ ‘‘کا آغاز 25فروری 2016ء کو ہوا۔ اس کے اب تک 8اجلاس ہو چکے ہیں۔اس مجلس کے قیام میں کالج ہذا کے پرنسپل پروفیسرمہر اختر وہاب کی دلچسپی نے اہم کردار ادا کیا۔عہدیداران کا چناؤ ڈاکٹر افتخار بیگ نے کیا ۔مجلس مباحثہ کے عہدیداران میں مجاہد اقبال(صدر)عبدالرحمان احمد(جنرل سیکرٹری)عارف حسین(نائب صدر)صدیق احمد(جوائنٹ سیکرٹری)ہیں۔
مجلس مباحثہ کے اِن 8اجلاسوں میں جن جن طلبا نے حصہ لیا ان میں۔مجاہد اقبال(ایم۔اے اردو)عبدالرحمان(بی۔ایس سی )صدیق احمد(یم۔اے اردو)عارف حسین (ایم۔اے اردو)،عامر رضا(ایم۔اے اردو)سارہ اصغر(ایم۔اے اردو)مصباح نورین(ایم۔اے اردو)ثمینہ (ایم۔اے اردو)محمد اعظم (ایم۔اے اردو)سونیا کنول(ایم۔اے اردو)،مصباح ناز(ایم۔اے اردو) مزمل حسین (ایم۔اے اردو)،۔منزہ نذیر(ایم۔اے اردو)عرفات قیوم(ایم۔اے اردو)اقرارکنول(ایم۔اے اردو)شامل ہیں۔اگر دیکھا جائے تو اب تک کہ جوموضوعات اب تک زیر بحث لائے جا چکے ہیں وہ حالاتِ حاضرہ کے اہم موضاعات میں سے ہیں جیسا کہ ’’اسلام میں رواداری‘‘،حقوق نسواں‘‘،’’طلبا پڑھنا چاہتے ہیں ماحول میسرنہیں‘‘،’’اسلام معاشرتی رواداری کا درس دیتا ہے‘‘،’’کیا پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے‘‘،’’میں ٹیکس کیوں دوں‘‘،تعلیمی اداروں میں تربیت کا فقدان‘‘شامل ہیں۔
بحث ومباحثہ سے جہاں مختلف موضوعات پر تعلیم یافتہ نئی نسل کو ہر دوفریقین سے کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا وہاں ایسی معلومات پر بھی تبادلہ خیال کیا جا سکے گا جو ہماری اذہان کی آنکھوں سے بھی اوجھل ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ گورنمنٹ ونجی تعلیمی اداروں میں مکالمہ اور بحث ومباحثہ کو لازمی قرار دے تاکہ ہمارا معاشرہ ’’سوال‘‘سے ’’جواب‘‘تک پہنچ کر معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکے۔